کراچی —
ویسے تو ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی قیادت کئی کھلاڑیوں نے کی۔ لیکن پہلی ہی سیریز میں کامیابی صرف چند ایک کے حصے میں آئی۔ کچھ نے پہلا میچ جیتا لیکن سیریز ہار گئے۔ چند نے ایک میچ جیتا لیکن یا تو سیریز برابری پر ختم ہوئی یا پھر وہ اگلے میچ میں مستقل کپتان کی واپسی پر قیادت سے دست بردار ہو گئے۔
ایسے میں نئے کپتان بابر اعظم کا نہ صرف جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دینا حیران کن تھا بلکہ انہوں نے ان لیجنڈز کی فہرست میں جگہ بنائی جنہیں دنیائے کرکٹ میں آج بھی بہترین کپتان سمجھا جاتا ہے۔ اس سے قبل کون کون سے پاکستانی کھلاڑی بحیثیت کپتان اپنی پہلی سیریز میں کامیابی سمیٹ چکے ہیں، آئیے جانتے ہیں۔
فضل محمود، پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز، 1959
پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کھیلی تو کپتانی کا قرعہ سب سے کامیاب اور تجربہ کار کھلاڑی فضل محمود کے نام نکلا۔ اپنی نپی تلی بالنگ اور رعب دار شخصیت کی وجہ سے وہ کپتانی کے لیے فیورٹ بھی تھے اور اپنی پہلی ہی سیریز میں انہوں نے بتا دیا کہ کپتانی ہو یا نہ ہو۔ ان کی بالنگ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
سر گیری سوبرز کو صفر پر آؤٹ کرنا ہو یا سر کونریڈ ہنٹ کو پہلے اوور میں واپس پویلین بھیجنا۔ فضل محمود نے پہلے میچ میں سات، دوسرے میں 12 اور تیسرے میں دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پہلے ٹیسٹ میں 10 وکٹیں اور دوسرے ٹیسٹ میں 41 رنز سے کامیابی کے بعد ان کی کپتانی کو سب نے سراہا۔ تیسرا میچ ویسٹ انڈیز نے جیت کر سیریز کا مارجن دو ایک تو کر دیا۔ لیکن فضل محمود نے اپنی پہلی سیریز جیت کر کپتانی کا شان دار انداز میں آغاز کیا۔
انہوں نے مجموعی طور پر تین میچز کی سیریز میں 21 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جو کسی بھی کپتان کے لیے پہلی سیریز میں شان دار کارکردگی تھی۔ اسی سیریز کے دوران انہوں نے پاکستان کی جانب سے سب سے پہلے ٹیسٹ وکٹوں کی سینچری بھی مکمل کی۔
اس کے بعد انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف دو اور بھارت کے خلاف پانچ میچز کی سیریز میں پاکستان کی قیادت کی۔ لیکن کوئی کامیابی نہ حاصل کر سکے۔ بھارت کے خلاف سیریز کے بعد انہیں کپتانی سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن پہلی سیریز میں کامیابی حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کپتان کا اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکا۔
مشتاق محمد، پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ، 1976
ستر کی دہائی میں جب مشتاق محمد نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالی تو قومی ٹیم میں اسٹار کھلاڑی تو موجود تھے لیکن ٹیم میچ جیتنے سے زیادہ میچ ڈرا کرنے پر یقین رکھتی تھی۔ ان سے پہلے انتخاب عالم کے دور میں پاکستان نے 17 میچز کھیلے جس میں صرف ایک میچ جیتا، پانچ ہارے اور 11 ڈرا کیے۔ ماجد خان نے بھی ایک سیریز میں کپتانی کی لیکن انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے وہ تینوں میچز ہار گئے اور ستر کے عشرے کے پہلے حصے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا ٹیسٹ میں ریکارڈ مایوس کن رہا۔
ایسے میں جب مشتاق محمد کو کپتان بنایا گیا تو ان کا شمار دنیائے کرکٹ کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک جارح مزاج بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ بالر اور فیلڈر تھے اور سب سے بڑھ کر ان کے خیالات اپنے ساتھیوں سے مختلف تھے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی پہلی ہی سیریز میں انہوں نے عمدہ کپتانی کی اور نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی بہترین کارکردگی دکھائی۔ ان کی پہلی ہی سیریز میں کراچی سے تعلق رکھنے والے جاوید میانداد نے ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور پہلے اور تیسرے ٹیسٹ میں سینچریاں اسکور کر کے دنیا بھر میں دھوم مچا دی۔ مشتاق محمد نے بھی دو میچز میں سینچریاں بنا کر پاکستان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور سیریز میزبان ٹیم نے دو صفر سے اپنے نام کی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سیریز سے پاکستان کو ایک ایسا کپتان مل گیا جس نے ٹیم کو جیتنا سکھا دیا۔ مشتاق محمد نے مجموعی طور پر پاکستان کی قیادت 19 میچز میں کی جس میں آٹھ پاکستان نے جیتے، سات میچز برابر ہوئے اور صرف چار میں انہیں ناکامی ہوئی۔
ان کی زیرِ قیادت پاکستان نے ہر سیریز میں کم از کم ایک میچ جیتا جن میں آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں دو مختلف دوروں میں دو کامیابیاں، بھارت کے خلاف تاریخی ہوم سیریز میں دو فتوحات اور ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ میں جا کر ایک ایک کامیابی شامل تھی۔
جاوید میانداد، پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا، 1980
1976 میں اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کرنے والے جاوید میانداد کو صرف چار سال بعد اس وقت کپتانی کی ذمہ داری سونپ دی گئی جب ٹیم میں کئی اور قیادت کے دعوے دار موجود تھے۔ لیکن جاوید میانداد نے کپتانی کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور پہلی ہی سیریز میں آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ایک صفر سے کامیابی حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔
انہوں نے اپنے سابق کپتان مشتاق محمد کی جارح مزاجی کو اپنایا اور ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو موقع دیا جو ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی کے باوجود ٹیسٹ ٹیم کا حصہ نہیں بن پا رہے تھے۔
یہ وہی سیریز تھی جس کے پہلے میچ میں توصیف احمد نے ڈیبیو پر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا جس کے پہلے میچ میں اقبال قاسم نے 11 وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو تاریخی فتح دلائی تھی۔ اس سیریز کے دوسرے میچ میں متبادل وکٹ کیپر تسلیم عارف نے 210 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر امتیاز احمد کا ورلڈ ریکارڈ توڑا تھا اور جس کی ایک اننگز میں پاکستان نے وکٹ کیپر سمیت 10 کھلاڑیوں سے بالنگ کرائی تھی۔
جاوید میانداد نے اس سیریز کے بعد تین سیریز میں مزید قیادت کی جس کے بعد انہیں بھی کپتانی سے ہٹا دیا گیا اور عمران خان کو کپتان اور جاوید میانداد کو ان کا نائب مقرر کر دیا گیا۔ لیکن جب جب عمران خان نے کسی وجہ سے ٹیسٹ سیریز میں شرکت سے معذرت کی تو جاوید میانداد نے ان کی جگہ یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی اور 1992 کے آخر تک پاکستان ٹیم کے ڈی فیکٹو نائب کپتان اور ورلڈ کپ کے ایک سال بعد تک قومی ٹیم کے کپتان رہے۔
اپنے کریئر میں انہوں نے 34 میچز میں پاکستان کی قیادت ک جس میں 14 میچز میں انہوں نے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔ اتنے ہی میچز برابر کیے اور صرف چھ میچز میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سلیم ملک، پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ، 1994
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان ٹیم ملک کے اندر اور باہر ٹیسٹ میچز میں اپنی بالنگ کی وجہ سے کامیابی حاصل کرتی تھی۔ 1994 کے آغاز میں جب وقار یونس کی زیرِ قیادت قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے کپتان وسیم اکرم کے خلاف بغاوت کی تو کرکٹ بورڈ نے سلیم ملک کو کپتان بنا کر معاملہ ختم کیا۔ جاوید میانداد کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹیم کے سب سے سینئر کھلاڑی تھے اور ٹیم کا مستقل حصہ بھی۔ ان کا پہلا معرکہ تھا مشن نیوزی لینڈ جہاں انہوں نے پاکستان ٹیم کو پہلے دو میچز میں کامیابی بھی دلائی اور ٹیم کو ایک ورلڈ کلاس یونٹ کی طرح لیڈ بھی کیا۔
انہوں نے اسی سیریز میں کپتان کی حیثیت سے اپنی پہلی سینچری بھی اسکور کی جب کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کے فارم میں ہونے سے انہیں فائدہ اور نیوزی لینڈ کو نقصان اٹھانا پڑا۔
اپنی پہلی ہی سیریز میں مسلسل دو میچز جیت کر سلیم ملک نے کرکٹ حلقوں میں سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اپنی اگلی سیریز میں انہوں نے سری لنکا کو سری لنکا میں دو صفر، آسٹریلیا کو ہوم سیریز میں ایک صفر اور زمبابوے کے خلاف زمبابوے میں دو ایک سے کامیابی تو حاصل کی۔ لیکن آسٹریلوی کھلاڑیوں کی جانب سے نوے کی دہائی میں ان پر جو الزامات لگے اس کی وجہ سے ملک کی بہت بدنامی ہوئی اور انہیں پہلے کپتانی اور پھر کرکٹ سے سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا گیا۔
انہوں نے 12 میچز میں قومی ٹیم کی قیادت کی جس میں سات میچز میں فتح، تین میں شکست اور دو میچز ڈرا ہوئے۔
بابر اعظم، پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ، 2021
بابر اعظم کو اپنی کپتانی کا آغاز یوں تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں کرنا تھا لیکن انجری کی وجہ سے اس سیریز میں کپتانی محمد رضوان نے کی اور پاکستان کو دونوں میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بابر اعظم کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں نہ صرف ہوم گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں کپتانی کرنے کو ملی بلکہ نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے انہیں ایسی ٹیم منتخب کر کے دی جس میں کئی کھلاڑی ایسے تھے جنہیں بہت پہلے ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بن جانا چاہیے تھا۔
بابر اعظم نے انجری سے کم بیک کرتے ہوئے سیریز میں ایک نصف سینچری تو اسکور کی۔ لیکن باقی اننگز میں وہ جنوبی افریقن اسپنر مہاراج کی گیند پر آؤٹ ہو کر پویلین واپس گئے۔ خوش قسمتی سے پاکستانی ٹیل اینڈرز نے سیریز میں ذمہ داری سے بیٹنگ کی اور جنوبی افریقن ٹیم کو دونوں میچز میں سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔
کراچی ٹیسٹ میں بابر اعظم نے اسپنرز کو اور پنڈی ٹیسٹ میں فاسٹ بالرز کو جس طرح استعمال کیا وہ قابلِ دید تھا۔ ان کی کپتانی کی وجہ سے ٹیم ایک متحد یونٹ کی طرح کھیلی اور ایک نہیں بلکہ دو ٹیسٹ میچز میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔