اسپورٹس

ایشز سیریز: کیا اس بار تنازع کے بغیر سیریز ختم ہو سکے گی؟

Written by ceditor

کراچی — انگلینڈ نے آسٹریلیا کے خلاف ایک مرتبہ پھر ‘بیز بال’ طرز کی بیٹنگ کرتے ہوئے ایشیز سیریز کا آغاز کیا ہے۔

انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 78 اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 393 رنز بنائے اور پھر اننگز ڈکلیئر کر دی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب دونوں ٹیموں کے درمیان ایشز سیریز کا آغاز اس طرح سے ہوا ہو۔ سن 1882 سے لے کر اب تک انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں جب جب مدمقابل آئیں تو اچھا مقابلہ ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان گزشتہ 141 سالوں میں اب تک ایشز کے تحت مجموعی طور پر 340 ٹیسٹ میچ کھیلے جاچکے ہیں جس میں 140 میچ جیت کر آسٹریلیا کو برتری حاصل ہے۔انگلینڈ کی ٹیم نے اب تک 108 میچ اپنے نام کیے ہیں جب کہ 92 میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ہی ختم ہوئے۔

اس بار بھی دونوں ٹیمیں پانچ ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیلیں گی۔ آسٹریلیا نے حال ہی میں بھارت کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپین شپ کے فائنل میں شکست دی تھی لیکن اس بار اس کا مقابلہ بیزبال کے نام سے ٹیسٹ کرکٹ کو جدت بخشنے والی انگلش ٹیم کے ساتھ ہے۔

بظاہر تو اس وقت آسٹریلیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں کی آن فیلڈ کنڈکٹ مثالی ہے، لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوتا رہا ہے۔ موجودہ انگلش ٹیم میں دو کھلاڑی ایسے بھی شامل ہیں جو ماضی کے بڑے تنازعات کا حصہ رہ چکے ہیں ۔ایسے ہی چند اہم تنازعات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سےایشز سیریز موضوعِ بحث ہوتی ہے۔

1۔ جب معین علی کو آسٹریلوی کھلاڑی نے اسامہ کہہ کر مخاطب کیا

انگلش کرکٹ ٹیم میں ایشز سیریز کے لیے ریٹائرمنٹ ختم کرکے واپس آنے والے معین علی کا شمار دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز اور اچھی طبیعت رکھنے والے کرکٹرز میں ہوتا ہے۔چند سال قبل انہوں نے ایشز کے دوران آسٹریلوی کھلاڑی کی جانب سے خود کو ‘اسامہ’ کہنے کا الزام لگایا تو دنیائے کرکٹ حیران رہ گئی اور اس واقعے پربہت باتیں ہوئیں۔

اپنی سوانح حیات میں اس واقع کا ذکر کرتے ہوئے معین علی نے کہا کہ 2015 کو کارڈف میں ہونے والے ٹیسٹ کے دوران ایک آسٹریلوی کھلاڑی نے انہیں ‘اسامہ’ کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ وہی میچ تھا جس میں معین علی نے پہلی اننگز میں 77 رنز اسکور کیے تھے اور بعد میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے انگلینڈ کو 169 رنز سے فتح دلانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

معین علی کے بقول میچ کے دوران جب انہیں مخالف کھلاڑی نے ‘ٹیک تھا اسامہ’ کہہ کر مخاطب کیا تو انہیں پہلے تو یقین نہیں آیا، لیکن جب انہوں نے الفاظ پر یقین کیا تو غصے سے آگ بگولا ہوگئے۔

معین علی نے یہ بھی کہا کہ بعد میں انہوں نے کوچ ٹریور بیلس اور کچھ ساتھیوں کو اس واقعے سے آگاہ کیا ۔ جب انگلش کوچ نے اپنے ساتھی ہم منصب کی اس جانب توجہ دلائی تو ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف اس کھلاڑی نے صحت جرم سے انکار کیا بلکہ کہا کہ وہ اسامہ نہیں پارٹ ٹائمر کہہ رہے تھے۔

2۔ جب اسٹورٹ براڈ نے آؤٹ ہونے کے باوجود واپس جانے سے انکار کیا

انگلینڈ کی جانب سے دوسرے سب سے کامیاب فاسٹ بالر اسٹورٹ براڈ بھی اس سیریز کا حصہ ہیں اور ماضی کی طرح اس بار بھی انگلش ٹیم کی جیت میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن 2013 کی ایشز سیریز میں ایک وقت ایسا آیا تھا جب پوری آسٹریلوی ٹیم براڈ کے خلاف ہوگئی تھی۔

ٹرینٹ برج کے مقام پر کھیلے گئے میچ کے دوران براڈ کو آسٹریلوی آف اسپنر ایشٹن ایگر نے وکٹ کے پیچھے کیچ آؤٹ کیا۔ فیلڈ پر موجود تمام افراد نے دیکھا کہ گیند بلے کو چھوتے ہوئے وکٹ کیپر بریڈ ہیڈن کے ہاتھوں سے ٹکرا کر سلپ میں کھڑے مائیکل کلارک کے ہاتھوں میں گئی، لیکن پاکستانی امپائر علیم ڈار نے اسے ناٹ آؤٹ قرار دے دیا۔

جب امپائر نے فیصلے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھایا تو اسٹورٹ براڈ نے بھی وکٹ نہیں چھوڑی اور اس طرح کھڑے رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایکشن ری پلے کی سہولت کی عدم موجودگی میں امپائر کا فیصلہ اٹل قرار دیا گیا جس پر آسٹریلوی کھلاڑیوں نے شور تو خوب مچایا لیکن اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کرسکے۔

اسٹورٹ براڈ کے خلاف جس وقت یہ اپیل کی گئی تو وہ 37 رنز پر بیٹنگ کررہے تھے، لیکن ایک موقع ملنے کے بعد انہوں نے اس اننگز میں 65 رنز بناکر انگلینڈ کی پوزیشن مستحکم کی اور آسٹریلیا کو میچ میں 14 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

3۔ جب ڈینس للی نے المونیم کا بیٹ استعمال کرنے کی کوشش کی

ویسے تو آسٹریلوی کھلاڑی ڈینس للی کی وجہ شہرت ان کی بالنگ ہے لیکن ایک بار 1979 میں انہوں نے بطور بلے باز کرکٹ کی تاریخ بدلنے کی کوشش کی تھی، جو انہیں بہت مہنگی پڑی تھی۔

پرتھ میں کھیلے جانے والے اس میچ میں جب ڈینس للی بیٹنگ کے لیے وکٹ پر گئے تو ان کے ہاتھ میں لکڑی کا نہیں بلکہ المونیم کا بیٹ تھا جسے ان کے دوست کی کمپنی نے تیار کیا تھا۔

چوں کہ اس وقت کرکٹ قوانین میں درج نہیں تھا کہ بلا صرف لکڑی کا ہونا چاہیے اس لیے میچ کو جاری رکھا گیا۔لیکن جب انگلش کپتان مائیک بریرلی نے امپائرز کی توجہ بال کی بگڑتی ہوئی شکل کی جانب دلائی تو امپائرز نے ڈینس للی کو لکڑی کا بلا استعمال کرنے کے لیے کہا، جس پر پہلے انہوں نے غصہ کیا اور پھر بلا نہ بدلنے پر اصرار کیا۔

آسٹریلوی کپتان گریگ چینل نے معاملے کو سلجھانے کے لیے ڈینس للی کو لکڑی کا بیٹ لا کر دیا جس کو انہوں نے تھامنے سے پہلے المونیم کا بیٹ غصے میں پویلین کی جانب پھینک دیا۔

اس واقعے کے بعد کرکٹ قوانین میں تبدیلی لائی گئی تاکہ کوئی بھی کھلاڑی لکڑی کے سوا کسی اور چیز کا بنا بلا استعمال نہ کرسکے۔

4۔باڈی لائن: جب انگلش بالرز نے وکٹ کے بجائے بلے بازوں کو نشانے پر رکھا

جب جب کرکٹ تنازعات کی بات ہوگی تو باڈی لائن کا ذکر اس میں سب سے پہلے آئے گا۔ سن 1932 – 1933 کے سیزن میں کھیلی جانے والی ایشز سیریز میں انگلش ٹیم نے میزبان آسٹریلیا کو قابو کرنے کے لیے جو پلان بنایا، اسے آج باڈی لائن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس پلان کے خالق انگلش ٹیم کے کپتان ڈگلس جارڈین تھے جنہوں نے اپنے بالرز کو ہدایات دی تھیں کہ وہ سر ڈان بریڈمین اور ان کے ساتھی بلے بازوں کو رنز بنانے سے روکنے کے لیے ان کی باڈی کو نشانہ بنائیں، نہ کہ وکٹ کو۔

انگلش پیسرز نے اپنے کپتان کے اس پلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پانچ ٹیسٹ میچوں کے دوران شارٹ پچ گیندیں پھینکیں جس سے یا تو کئی آسٹریلوی بلے باز زخمی ہوئے یا پھر اپنے جسم کو بیٹ سے بچاتے بچاتے کیچ آؤٹ ہوئے۔

سیریز تو انگلینڈ نے چار ایک سے جیت لی لیکن ان پانچ میچز کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کافی حد تک خراب ہوگئے ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کرکٹ میں ہیلمٹ کا استعمال نہیں ہوتا تھا اور ایک معروف آسٹریلوی کرکٹر نے یہ کہہ کر اس سیریز کو امر کردیا تھا کہ گراؤنڈ میں ایک ٹیم کرکٹ کھیلنے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری نہیں۔

اسی سیریز کے بعد کرکٹ کے قوانین میں تبدیلی کرکے باڈی لائن کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا گیا لیکن آج بھی اسے کرکٹ کا سیاہ ترین تنازع قرار دیا جاتا ہے۔

5۔ جب ڈینس للی اور راڈ مارش نے اپنی ہی ٹیم کے خلاف ‘سٹہ’ کھیلا

المونیم بیٹ کے تنازع کے دو سال بعد ڈینس للی ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنے۔ اس بار ایشز کا معرکہ انگلینڈ میں ہورہا تھا جس میں بظاہر آسٹریلیا کا پلڑا بھاری تھا لیکن ہینڈنگلے میں کھیلے گئے میچ میں انگلش آل راؤنڈر این بوتھم نے ایسی کارکردگی دکھائی کہ انگلش ٹیم نے سیریز میں کم بیک بھی کیا اور سیریز بھی اپنے نام کی۔

اس تاریخی میچ کو ختم ہوئے ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک اخبار نے الزام لگایا کہ ڈینس للی اور ان کے ساتھی وکٹ کیپر راڈ مارش نے اس میچ پر سٹہ کھیلا ا ور اپنی ٹیم کے بجائے انگلینڈ کی جیت پر پیسہ لگایا۔

دونوں کھلاڑیوں اور ٹیم انتظامیہ نے اس الزام کی تردید کی لیکن آسٹریلوی قائد کم ہیوز نے اس پر ایک دلچسپ تبصرہ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ناممکن ‘آڈز’ دیکھ کر ان دونوں نے سٹہ کھیل لیا ہو۔

سال2003 میں ڈینس للی نے بالآخر اپنی سوانح حیات میں اس الزام کو قبول کیا کہ انہوں نے راڈ مارش کے ساتھ میچ پر سٹہ کھیلا تھا اور انگلینڈ کی جیت پر پیسہ لگایا تھا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor