- یہ پہلا موقع ہے جاپان اذلان شاہ کپ کے فائنل میں پہنچا ہے جب کہ پاکستان ٹیم اس سے قبل نو مرتبہ ایونٹ کا فائنل کھیل چکی ہے۔
- گرین شرٹس اب تک ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست ہے جس نے ایونٹ کے دوران میزبان ملائیشیا کو چار کے مقابلے میں پانچ، جنوبی کوریا کو چار صفر اور کینیڈا کو چار کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دی۔
- دو،دو گول کھا کر کم بیک کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کھلاڑیوں میں صلاحیت ہے، سابق کپتان شہباز احمد سینئر
- پاکستان ٹیم میں بعض کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر لیگ کھیلنے انگلینڈ چلے گئے تھے، سابق کپتان و کوچ شکیل عباسی
- اس بار اذلان شاہ کپ میں ٹیموں کا معیار ماضی جیسا نہیں، لیکن پاکستان کی اچھی کارکردگی خوش آئند ہے، سابق کھلاڑی سمیع اللہ خان
ملائیشیا کے شہر ایپوہ میں جاری تیسویں اذلان شاہ ہاکی کپ میں ہفتے کو پاکستان اور جاپان کے درمیان ایونٹ کا فائنل کھیلا جائے گا۔ گرین شرٹس 13 سال بعد ایونٹ کے فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
جمعے کو پاکستان اور جاپان کی ٹیمیں بالترتیب نیوزی لینڈ اور کینیڈا جب کہ میزبان ملائیشیا کی ٹیم جنوبی کوریا کے خلاف میچ کھیلیں گی۔ لیکن ان میچز کے نتیجے کا پوائنٹس ٹیبل پر کوئی نہیں پڑے گا۔
پاکستان اور جاپان کی ٹیمیں دس، دس پوائنٹس کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر سرِ فہرست ہیں جس کی وجہ سے دونوں ٹیمیں فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
میزبان ملائیشیا اور نیوزی لینڈ کے چار چار میچوں کے بعد چھ چھ پوائنٹس ہیں جب کہ جنوبی کوریا کے اتنے ہی میچز کے بعد پوائنٹس کی تعداد تین ہے۔ کینیڈا کی ٹیم ایونٹ میں ایک بھی میچ نہ جیتنے کی وجہ سے اپنا کھاتا کھولنے سے قاصر ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جاپان اذلان شاہ کپ کے فائنل میں پہنچا ہے جب کہ پاکستان ٹیم اس سے قبل نو مرتبہ ایونٹ کا فائنل کھیل چکی ہے۔
گرین شرٹس اب تک ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست بھی رہی ہے، انہوں نے ایونٹ کے دوران میزبان ملائیشیا کو چار کے مقابلے میں پانچ، جنوبی کوریا کو چار صفر اور کینیڈا کو چار کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دی۔
فائنل میں پہنچنے والی جاپانی ٹیم کے خلاف پاکستان کا میچ ایک ایک گول سے برابر رہا۔ گرین شرٹس کی ان کامیابیوں کے پیچھے سفیان خان کے چار گولز کا بڑا ہاتھ ہے جو اس وقت ایونٹ کے ٹاپ پانچ اسکوررز میں سے ایک ہیں۔
اگر ہفتے کو پاکستان ٹیم ایونٹ کا فائنل جیتنے میں کامیاب ہوئی تو نہ صرف ایونٹ کی تاریخ میں یہ اس کی چوتھی فتح ہو گی بلکہ 21 سال کے طویل عرصے بعد گولڈ میڈل اپنے نام کرے گی۔
اذلان شاہ ہاکی کپ کا آغاز اکتالیس سال قبل 1983 میں ہوا تھا۔ جس کے پہلے ہی فائنل میں پاکستان نے کوالی فائی کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
آغاز میں یہ ٹورنامنٹ ہر دو سال بعد ہوتا تھا لیکن آگے جاکر اس کا انعقاد ہر سال ہونے لگا، پھر بھی گرین شرٹس کو اس میں پہلا گولڈ میڈل جیتنے کے لیے 16 سال مزید انتظار کرنا پڑا تھا۔
پاکستان ٹیم نے پہلی بار 1999 میں اذلان شاہ کپ کا فائنل جیتا جس کے بعد 2000 اور 2003 میں بھی ٹرافی اپنے نام کی۔ تب سے لے کر اب تک گرین شرٹس نے دو مرتبہ 2004 اور 2011 میں فائنل میں جگہ بنائی جب کہ دو ہی بار 2005 اور 2022 میں کانسی کا تمغہ بھی جیتا لیکن ٹرافی جیتنے سے محروم رہی۔
اس مرتبہ پاکستان کی عمدہ کارکردگی کا سہرا جہاں نوجوان کھلاڑیوں کو جاتا ہے وہیں کوچ رولینٹ اولٹمینز بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ماضی میں پاکستان اور ڈچ ٹیموں کی کوچنگ کرنے والے ہیڈ کوچ نے اس بار ایک ایسی ٹیم منتخب کی جس میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ تجربہ کار کھلاڑی بھی شامل تھے۔
سابق کپتان شہباز احمد سینیئر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مرتبہ پاکستان ٹیم اس لیے اچھا کھیلی کیوں کہ کھلاڑیوں کا فٹنس لیول اور اسکل لیول دونوں ہی بیلنس تھے۔
انہوں نے کھلاڑیوں کے متحد ہوکر کھیلنے کی کوشش کو سراہتے ہوئے کہا کہ دو،دو گول کھا کر کم بیک کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کھلاڑیوں میں صلاحیت ہے۔ اگر انہیں مزید سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ مزید اچھا پرفارم کرسکتے ہیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان و کوچ شکیل عباسی کہتے ہیں پاکستان ٹیم کی کامیابیوں میں کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ سابق کوچز کی محنت بھی شامل ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ موجودہ ٹیم میں بعض کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر لیگ کھیلنے انگلینڈ چلے گئے تھے اور دو سال سے پاکستان سے نہیں کھیل رہے تھے۔
ان کے مطابق سابق کوچز نہ صرف ایسے کھلاڑیوں کو لیگ سے واپس پاکستان لائے بلکہ پابندیوں کے شکار کھلاڑیوں کو بھی انہوں نے سزائیں ختم کر کے ٹیم میں شامل کروایا۔ جس کی وجہ سے ٹیم نے پہلے اولمپک کوالی فائرز میں، اور اب اذلان شاہ کپ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔
شکیل عباسی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹیم کو اذلان شاہ کپ جیتنے کا اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے کھلاڑی جاپان کے خلاف فائنل میں اچھا کھیل پیش کریں اور ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔
‘ٹورنامنٹ بی گریڈ ضرور ہے، لیکن کھلاڑیوں کو جانچنے کا موقع مل گیا’
پاکستان کے لیے ماضی میں ورلڈ کپ اور ایشین گیمز جیسے لاتعداد ٹورنامنٹ جیتنے والے کپتان و کھلاڑی سمیع اللہ خان کے خیال میں اس بار اذلان شاہ کپ میں ٹیموں کا معیار ماضی جیسا نہیں، لیکن پاکستان کی اچھی کارکردگی خوش آئند ہے۔
ان کے بقول، "اس ٹورنامنٹ میں سب سے بہتر رینکنگ کی ٹیم نیوزی لینڈ ہے جس کا انٹرنیشنل رینکنگ میں دسواں نمبر ہے، باقی تمام نچلے نمبرز کی ٹیمیں ہیں، جس کا فائدہ پاکستان کو اس لیے ہوا کیوں کہ مینجمنٹ کو کھلاڑی جانچنے کا موقع مل گیا۔”
فلائنگ ہارس کے نام سے پہچانے جانے والے سابق کھلاڑی سمیع الل خان نے کہا ‘میں پرامید ہوں کہ پندرہویں نمبر پر موجود پاکستان ٹیم کا مقابلہ سولہویں پوزیشن پر موجود جاپان سے ہو رہا ہے، جسے میں ایک ایڈوانٹیج کہوں گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے جہاں پاکستان ٹیم کے گول کیپر، فل بیک، ہاف لائن اور فارورڈ لائن کی تعریف کی، وہیں میچز کے ہائی اسکور نگ ہونے کو بھی سراہا۔
سمیع اللہ خان نے کہا کہ جب پاکستان ٹیم نے ملائیشیا کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر ہوم کراؤڈ کے سامنے چار کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دی، تب ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لڑکے ایونٹ سے پہلے پیش آنے والے واقعات اور تمام شکوک و شبہات کو بھلا کر متحد ہوکر آگے بڑھ رہے ہیں۔
ان کا اشارہ ایونٹ سے قبل لگنے والے دو ٹریننگ کیمپس اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ان دو دھڑوں کی جانب تھا جن کی وجہ سے ایک وقت میں پاکستان ٹیم کی اذلان شاہ کپ میں شرکت تک مشکوک ہوگئی تھی۔
سمیع اللہ خان نے پاکستان اسپورٹس بورڈ اور دونوں فیڈریشنز کا اختلافات بھلا کر ہاکی کی بہتری کے لیے متحد ہونے کے فیصلے کو اچھا قدم قرار دیا۔