فلمی جائزے فلمیں

اینی میٹڈ فلم ‘اسپائیڈر مین اکروس دی اسپائیڈر ورس’ میں ملالہ کا کردار کیوں ڈالا گیا؟

Written by ceditor

کراچی — ہالی وڈ کی نئی اینیمیٹڈ فلم ‘اسپائیڈر مین، اکروس دی اسپائیڈر ورس’ نے ریلیز ہوتے ہی باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا ہے۔ پہلے ہی ویک اینڈ پر نہ صرف اس نے امریکہ بلکہ دیگر کئی ممالک میں بھی شاندار بزنس کیا۔ ایک سے زائد اسپائیڈر مین کے گرد گھومنے والی اس فرینچائز کی یہ دوسری فلم ہے جس کو دو حصوں میں ریلیز کیا جارہا ہے۔

پہلا حصہ ‘اسپائیڈر مین، اکروس دی اسپائیڈر ورس’ دو جون کو دنیا بھر کے سنیما گھروں میں ریلیز کیا گیا جب کہ اس کا اگلا حصہ ‘اسپائیڈر مین، بیونڈ دی اسپائیڈر ورس’ اگلے سال مارچ میں ریلیز کیا جائے گا۔

فلم کی کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں 2018 میں ریلیز ہونے والی’اسپائیڈر مین، انٹو دی اسپائیڈر ورس’ کی کہانی ختم ہوئی تھی لیکن پاکستان میں اس فلم کو دیکھنے والے شائقین اس وقت خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے جب اس میں ایک کردار ملالہ ونڈسر تھوڑی دیر کو نظر آیا۔

حجاب پہنی ہوئی اس اسپائیڈر ورس کی رکن کو نوبیل انعام جیتنے والی پاکستانی ملالہ یوسف زئی سے متاثر ہوکر تخلیق کیا گیا ہے۔ گو کہ اس کردار کے پاس فلم میں کچھ زیادہ کرنے کو نہیں تھا لیکن ایک مشہور پاکستانی شخصیت پر اسپائیڈر مین کا ویریئنٹ بنا ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں بھارت کی بھی اس فلم میں بھرپور انداز میں نمائندگی ہوئی ہے اور ایک پورا فائٹ سیکوینس ممبا ٹین نامی فرضی شہر میں دکھایا گیا۔ جو ممبئی اور مین ہیٹن کا ملاپ لگتا ہے۔

ایک الگ دنیا میں اس شہر کا اپنا ایک اسپائیڈر مین ہوتا ہے جس کا نام پاویتر پربھارکر ہوتا ہے۔ اس کردار کا نام نہ صرف اصلی اسپائیڈر مین پیٹر پارکر سے مشابہت رکھتا ہے بلکہ اس کی سپر پاور بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں۔

جس سیکوئنس میں بھارتی اسپائیڈر مین کی انٹری ہوتی ہے وہ فلم کا سب سے اہم سیکوینس ہوتا ہے اور کہانی کا سارا دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔

شائقین اس کے چائے کو چائے ٹی کہنے والے ڈائیلاگ پر خوب ہنستے ہیں جب کہ ممبئی و کراچی سے اس شہر کی مشابہت بھی ان کو مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے۔

سال کی سب سے کامیاب اوپننگ

بزنس کے لحاظ سے بھی ‘اسپائیڈر ورس، اکروس دی اسپائیڈر ورس’ کے باکس آفس اعداد و شمار بھی حیران کرنے کے لیے کافی ہیں۔

امریکی جریدے ورائٹی کے مطابق ‘اسپائیڈر مین، اکروس دی اسپائیڈر ورس’ نے پہلے ہی دن 51 عشاریہ سات پانچ ملین ڈالرز کا بزنس کرکے اس سال کی سب سے کامیاب فلم ہونے کا نیا ریکارڈ بنایا۔

اس سے قبل ‘گارڈینز آف دی گیلکسی والیوم تھری ‘نے گزشتہ ماہ 48 عشاریہ ایک ملین ڈالرز کا بزنس کرکے یہ ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔ آج تک ریلیز ہونے والی اسپائیڈر مین کی فلموں میں بزنس کے لحاظ سے ‘اکروس دی اسپائیڈر ورس ‘کا فی الحال تیسرا نمبر ہے۔

دو ہزار اکیس میں ریلیز ہونے والی ‘اسپائیڈر مین نو وے ہوم’ آج بھی 121 عشاریہ نو ملین ڈالرز کے ساتھ اوپننگ ویک اینڈ پر سب سے کامیاب اسپائیڈر مین کی فلم ہے جب کہ 2007 میں ریلیز ہونے والی ‘اسپائیڈر مین تھری’ نے پہلے ویک اینڈ پر ساٹھ ملین ڈالرز کمائے تھے۔

امکان ہے کہ پہلے ویک اینڈ پر ‘اسپائیڈر مین، اکروس دی اسپائیڈر ورس ‘کا 113 عشاریہ پانچ ملین ڈالرز کے قریب کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔یہی نہیں، فلم ریویوز کی ویب سائٹ روٹین ٹوماٹوز پر اس کی 95 فی صد ریٹنگ ہے، جب کہ فلموں کی سب سے مستند ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر یہ سب سے زیادہ ریٹنگ والی سپر ہیرو فلم ہے۔

ایک طرف مائلز موریلس ،دوسری جانب باقی اسپائیڈر مین

فلم کی کہانی ایک سیاہ فام امریکی نوجوان مائلز موریلس کے گرد گھومتی ہے جو ایک ریڈیو ایکٹیو مکڑی کے کانٹنے کے بعد اسپائیڈر مین بن جاتا ہے۔ گزشتہ فلم میں اگر مائلز موریلس کو ایک عام لڑکے سے اسپائیڈر مین بنتے دکھایا گیا تھا تو یہاں اس کا سب سے بہتر اسپائیڈر مین بننےکا سفر دکھایا گیا ہے۔

‘اکروس دی اسپائیڈر ورس’ میں مائلز موریلس کو پچھلی فلم سے زیادہ میچور دکھایا گیا ہے لیکن اپنے اسپائیڈ رفرینڈز اور بالخصوص گوین اسٹیسی کی غیر موجودگی میں وہ سب سے الگ تھلک رہتا ہے، ایسے میں جب گوین اسٹیسی اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہتی ہے تو وہ منع نہیں کرپاتا لیکن اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ آگے کیا ہونے والا تھا۔

جب مائلز موریلس کو پتا چلتا ہے کہ ملٹی ورس کو بچانے کے لیے اسپائیڈر سوسائٹی میں اس کے سوا باقی تمام اسپائیڈر مین ہیں ، تو وہ اس کا حصہ بننا چاہتا ہے، ابھی وہ اس سوسائٹی میں شامل ہوتا نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے واقعے میں ردوبدل کردیتا ہے جس کا اثر مستقبل پر پڑجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔

جب اسپائیڈر سوسائٹی کا سربراہ میگل او ہیرا مائلز کی سرزنش کرنے کے بعد قید کردیتا ہے، تو مائلز وہاں سے بھاگ جانے کو ترجیح دیتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچ جائے تاکہ وہ کسی مصیبت کا حصہ نہ بن سکیں، لیکن اس کا تعاقب پوری اسپائیڈر سوسائٹی کررہی ہوتی ہے۔

کیا مائلز اپنے گھر والوں کو خطرے سے آگاہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے یا پھر اسپائیڈر سوسائٹی اسے پکڑ کر دوبارہ قید کردیتی ہے، اس دو گھنٹے بیس منٹ کی فلم کا آخری گھنٹہ اسی جدوجہد میں گزر جاتا ہے۔

فلم کا اختتام ابھی نہیں ہوا کیوں کہ کہانی کو مارچ 2024 میں ریلیز ہونے والے دوسرے حصے میں ختم کیا جائے گا، فلم میں جہاں اسپائیڈر سوسائٹی کے لوگوں کو مائلز کے خلاف دکھایا گیا ہے وہیں دی اسپاٹ نامی ایک ولن کی بھی انٹری ہوئی ہے جو اسپائیڈر مین کو اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔

فلم درمیان میں کمزور پڑ جاتی ہے

کچھ مبصرین کی رائے میں سونی پکچرز کی ‘اسپائیڈر مین، اکروس دی اسپائیڈر ورس ‘ میں وہ سب کچھ ہے جو مارول اسٹوڈیوزکی فلموں میں اب نہیں ہوتا، جیسے اس میں کہانی بھی بڑی ہے، اور کردار بھی جاندار ہیں، جب کہ کرداروں کے درمیان کیمسٹری اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔

اگر فلم کو تین حصوں میں بانٹا جائے تو پہلا حصہ گزشتہ فلم سے کہانی کو آگے لے کر آتا ہے اور آخری حصہ اس کہانی کو آگے بڑھاتا ہے، لیکن درمیان کا حصہ اس کا سب سے کمزور پہلو ہے، نہ صرف یہ شائقین کو بور کرتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے آگے آنے والے لمحات بھی ماند پڑجاتے ہیں۔

اگر آپ نے اس سیریز کی پہلی فلم حال ہی میں دیکھی ہے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس فلم میں مومنٹس یعنی یادگار لمحات کی سخت کمی ہے، اور جب تک ایسے مومنٹس آتے ہیں، بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

فلم میں جس معیار کی اینی میشن ہوئی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، فلم تھری ڈی میں تو ریلیز میں نہیں ہوئی لیکن اس کو دیکھ کر تاثر یہی ملتا ہے کہ جیسے یہ تھری ڈی میں بنی ہے، جب جب اس میں ایکشن سین آئے، فلم نے شائقین کو اپنی طرف کھینچ کررکھا۔

ایک اور خاص بات جو اس فلم کو دیکھنے کے بعد سمجھ آتی ہے وہ گوین اسٹیسی کا کردار ہے، جس کو مائلز سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

فلم کا آغاز بھی گوین اسٹیسی کی اسپائیڈر وومن سے ہوا اور اختتام بھی، اس طرح کی پروڈکشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی میل اسپن آف کی خبریں غلط نہیں۔

‘اکروس دی اسپائیڈر ورس’ کا پلاٹ گزشتہ فلم کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے جب کہ اس میں اسپائیڈر مین و وومن کی بہتات بھی اسے بورنگ بناتی ہے پچھلی فلم میں کردار کم تھے اور ان کے پاس مارجن زیادہ، جب کہ یہاں کردار بے تحاشہ ہیں، لیکن ان کے پاس پرفارمنس کا مارجن کم۔

اداکارہ پہلی اسٹین فیلڈ اور شیمک مور نے فلم میں گوین اسٹیسی اور مائلز موریلس کے کرداروں کو اپنی آواز سے سجایا ہے اور دونوں کی کارکردگی بہترین رہی، تاہم اسکر آئیزیک کا کردار میگل او ہارا اس فلم کا مرکزی کردار ہے۔

وہ مائلز موریلس کے خلاف ضرور ہے لیکن اس کی وجوہات ایک میچور انسان کی وجوہات ہیں، جو چاہتا کہ یونی ورس کا نظام ٹھیک طرح چلتا رہے اور کسی بھی قسم کی اس میں اونچ نیچ ان کا کام بڑھاسکتی ہے۔

گزشتہ فلم میں چند ایسے لمحات تھے جو شائقین کے دماغ پر گہرے نقوش چھاڑ گئے تھے، جس میں سپر ولن پراؤلر کی اصلیت اور کنگ پن کے خلاف مائلز ا کا شولڈر ٹچ شامل تھا لیکن اس فلم میں جب جب ایسے مومنٹس آتے ہیں، تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

یہی اس فلم کو گزشتہ فلم کے مقابلے میں کمزور بناتی ہے، فلم بری نہیں لیکن بہت لمبی ہے۔حال ہی میں ریلیز ہونے والا کیانو ریوز کی جان وک کا چوتھا پارٹ تقریبا تین گھنٹے طویل تھا لیکن وہاں ایکشن کی بہتات نے فلم کو بچایا، اور یہاں ایکشن کے دیر سے آنے کی وجہ سے شائقین کا دھیان بٹ سکتا ہے۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor