سن 1991 میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ‘حنا’ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی زیبا بختیار کا کہنا ہے کہ جب انہیں اسکرین ٹیسٹ کے لیے بھارت بلایا تھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس کردار کے لیے منتخب ہو جائیں گی۔
کراچی —
سن 1991 میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ‘حنا’ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ زیبا بختیار کا کہنا ہے کہ جب انہیں اسکرین ٹیسٹ کے لیے بھارت بلایا گیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کردار کے لیے ان کا انتخاب ہوجائے گا۔
فلم ‘حنا’ کو 30 برس مکمل ہونے کے موقعے پر زیبا بختیار نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اس فلم کے مرکزی کردار کے لیے کافی عرصے سے تلاش جاری تھی۔
ان کے بقول اداکار سعید جعفری نے پاکستان ٹیلی ویژن پر میرے پہلے ڈرامے ‘انارکلی’ کا ویڈیو کیسٹ راج کپور کو دکھایا تھا جب کہ حسینہ معین اس پراجیکٹ سے جڑیں تو ان کے کہنے پر مجھے ہدایت کار رندھیر کپور نے اسکرین ٹیسٹ کے لیے بلایا۔ فلم کا یہ مںصوبہ معروف فلم ساز اور اداکار راج کپور کا تھا اور ان کی موت کے بعد ان کے بیٹے رندھیر کپور فلم ’حنا‘ مکمل کررہے تھے۔
زیبا بختیار نے بتایا کہ ان دنوں وہ لندن ویک اینڈ ٹیلی ویژن کی سیریز ‘اسٹولن’ میں کام کر رہی تھیں اور جب اس کی شوٹنگ ختم ہوئی اور وہ واپس پاکستان آئیں تو حسینہ معین نے انہیں ٹیلی فون کر کے ممبئی آنے کا کہا۔
وہ بتاتی ہیں کہ حسینہ معین کو معلوم تھا کہ میرے والد نے کتنی مشکل سے مجھے ٹی وی ڈرامے میں کام کرنے کی اجازت دی تھی لیکن چوں کہ میں ان کی بہت عزت کرتی تھی اور اس وقت میں نے ان کا ڈرامہ ‘تان سین’ سائن کیا ہوا تھا اس لیے میں نے ان سے کچھ وقت مانگا۔
زیبا بختیار نے بتایا کہ میں نے اپنی والدہ سے مشورہ کیا اور پھر ہم نے یہی سوچا کہ تین دن کے لیے ممبئی جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسکرین ٹیسٹ دیتے ہیں، اسٹوڈیوز دیکھیں گے اور اداکاروں سے مل لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن پھر ہوا وہی جس کی امید نہیں تھی اور توقع کے برخلاف ’حنا‘ کے مرکزی کردار کے لیے ان کا انتخاب کرلیا گیا۔
‘نامور ادکاروں کے ساتھ کام کرنا کسی خواب سے کم نہیں تھا‘
پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے ‘حنا’ میں رشی کپور، سعید جعفری، رضا مراد، کرن کمار، فریدہ جلال سمیت بھارت کے کئی نامور اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن اداکاروں کو وہ اسکرین پر دیکھتی تھیں ان کے ساتھ کام کرنا کسی خواب سے کم نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ رشی کپور کو ‘کبھی کبھی’ اور ‘قرض’ میں دیکھ چکی تھیں اور ان کے ساتھ کام کرکے بہت کچھ سیکھا۔ ایک تو وہ شان دار شخصیت کے مالک تھے دوسرا وہ اداکاری کرتے وقت مشکل سے مشکل سین کو اتنے آرام سے عکس بند کرادیتے تھے کہ یقین ہی نہیں آتا تھا۔
زیبا بختیاز کا مزید کہنا تھا کہ میں نے باقی اداکاروں سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھا اور سب ہی کے ساتھ کام کرنے میں لطف آیا۔
‘لتا جی آپ سے ملنا چاہتی ہیں’
فلم ‘حنا’ کے تمام گانے گلوکارہ لتا منگیشکر نے گائے تھے۔ زیبا بختیار نے ان سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ میں ممبئی میں ایک میوزک البم کی لانچنگ کی تقریب کے لیے مدعو تھی جس میں لتا منگیشکر اور جگجیت سنگھ بھی شریک تھے۔
ان کے بقول تقریب کے دوران ایک منتظم نے مجھ سے کہا کہ لتا جی آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔
زیبا بختیار نے بتایا کہ ملاقات کرنے پر مجھے لتا جی نے بتایا کہ وہ یہ دیکھنا چاہ رہی تھیں کہ جس لڑکی پر ان کا گانا فلمایا جائے گا۔ اس کے چہرے کے تاثرات کیسے ہیں تا کہ وہ پلے بیک کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جاسکے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ جب پہلی بار وہ بھارت گئیں تو انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ویزا بھی لگتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں ایئرپورٹ پر چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ ویزا لگوانے کے بعد میرے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا اسے آج کل کی زبان میں ‘ہراسمنٹ’ کہا جائے گا۔
زیبا بختیار کا کہنا تھا کہ بھارت کی نسبت پاکستان میں زیادہ پریشر ہوتا تھا اور ایئرپورٹ پر کبھی کبھار پوچھ گچھ ہو جاتی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بات جو انہیں نہ اس وقت سمجھ آئی تھی اور نہ ہی اب آتی ہے کہ جب دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان پیار اور اپنا پن ہے تو پھر سرحد پار کرنے کے لیے اتنی مشکلات کیوں کھڑی کی جاتی ہیں۔
‘بے نظیر بھٹو نے فوراً اجازت دے دی‘
بھارتی فلم ‘حنا’ کے کچھ سین پاکستان میں بھی عکس بند ہوئے تھے اور زیبا بختیار کے بقول اس کا سہرا سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے سر جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو فلموں کا بہت شوق تھا اور جب رشی کپور اور رندھیر کپور ان سے پاکستان میں فلم شوٹنگ کی اجازت مانگنے کے لیے گئے تو انہوں نے فوراً اجازت دے دی۔
فلم ‘حنا’ کو پاکستان میں ریلیز کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
زیبا بختیار کہتی ہیں کہ انہیں اندازہ تھا کہ پاکستان میں ایک دو پرائیوٹ اسکریننگ سے زیادہ بات آگے نہیں بڑھے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1991 میں جب ‘حنا’ ریلیز ہوئی تو پاکستان میں سنیما کا کلچر نہیں تھا۔ ملک تازہ تازہ ضیا الحق کے دور سے نکلا تھا اور اس لیے یہ امید بھی نہیں تھی کہ فلم پاکستان میں ریلیز ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں تو شکر کر رہی تھی کہ مجھے جیتے جی واپس آنے دیا گیا ورنہ ایک تو بھارتی فلم اور دوسرا راج کپور کی فلم میں کام کرنا یہاں کے لوگوں کی نظر میں کسی گناہ سے کم نہیں تھا۔
زیبا بختیار کا کہنا تھا کہ راج کپور کی فلمیں حقیقت سے قریب ہوتی تھیں لیکن یہاں لوگ فلم کی کہانی جانے بغیر اس پر تنقید کرتے تھے۔ جس کو بھی پتا چلتا تھا کہ میں راج کپور کی فلم میں کام کر رہی ہوں اس کا انداز یہی ہوتا تھا کہ نہ جانے کہاں منہ چھپائے گی۔
اگر سوشل میڈیا ہوتا۔۔۔
زیبا بختیار کے بقول حنا کی شوٹنگ کے دوران آئے دن یہاں کے وفاقی وزیر و اطلاعات و نشریات مجھ پر پابندی لگا دیتے تھے۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میں کوئی غلط قسم کا ڈائیلاگ بھی نہ بولوں اور نہ ہی کوئی ایسا لباس پہنوں جس پر اعتراض ہوسکے لیکن پھر بھی میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس زمانے میں ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام نہیں تھا ورنہ اس پر لوگوں کے کمنٹس پڑھ پڑھ کر شاید ہر ہفتے میرا نروس بریک ڈاؤن ہوجاتا۔