کراچی —
پاکستان میں جب بھی پاپ میوزک کا ذکر ہو گا تو ‘اسٹرنگز’ کا نام ہمیشہ ٹاپ بینڈز میں آئے گا۔ 1988 میں قائم ہونے والے اس میوزک بینڈ نے 2021 تک نہ صرف انڈسٹری پر راج کیا بلکہ لاتعداد ہٹ گانوں سے پاکستان میں پاپ میوزک کو زندہ بھی رکھا۔
اسٹرنگز کے ایک رکن بلال مقصود نے جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے 33 سال بعد اسٹرنگز کو ‘ڈس بینڈ’ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے چاہنے والوں کے دل ٹوٹ گئے۔
انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں بلال مقصود کا کہنا تھا کہ ‘اسٹرنگز’ ٹیکنیکل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ لیکن فیصل کپاڈیا کے ساتھ ان کا رشتہ ایک نہ ٹوٹنے والا ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا، چاہے زندگی انہیں کہیں بھی لے جائے۔
ان کے بقول گزشتہ 33 برس ‘اسٹرنگز’ کے لیے بہترین رہے اور وہ اپنے مداحوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایسا کرنا ممکن بنایا۔
اسٹرنگز کے 33 سال پر محیط سفر
تین دہائیوں تک پاکستان کی پاپ میوزک پر راج کرنے والے اس بینڈ کو 1988 میں کالج کے چار دوستوں بلال مقصود، فیصل کپاڈیا، رفیق وزیر علی اور کریم بشیر بھائی نے بنایا تھا۔
‘اسٹرنگز’ نے پہلا میوزک البم 1990 اور دوسرا 1992 میں ریلیز کیا، جس کے بعد انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔
نوے کی دہائی میں ‘وائٹل سائنز’ کو پاکستان کا ٹاپ بینڈ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسی دور میں ‘اسٹرنگز’ نے اپنا لوہا منوایا اور ایک کے بعد دوسرا ہٹ گانا دیا۔
اسٹرنگز کا گانا ‘سر کیے یہ پہاڑ’ میوزک ٹی وی ایشیا (ایم ٹی وی ایشیا) پر نشر ہونے والا پہلا پاکستانی گانا بھی بنا، جس کے بعد ‘اسٹرنگز’ کی اونچی اڑان کا وقت شروع ہو گیا۔
‘اسٹرنگز’ کے چاروں ارکان نے میوزک پر اپنی پڑھائی کو ترجیح دی اور باہمی رضامندی سے بریک بھی لیا۔ سات برس بعد بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا نے اسٹرنگز کو دوبارہ شروع کرنے کا سوچا اور شاندار انداز میں واپسی کی۔
سن 1999 میں کم بیک کرنے والے اس بینڈ نے ہر چیلنج کو احسن طریقے سے بنھایا۔ بالی وڈ فلموں کے لیے گیت بنانا ہو، پاکستانی فلم ‘مور’ کا ساؤنڈ ٹریک کمپوز کرنا ہو یا کوک اسٹوڈیو کی پروڈکشن۔ ‘اسٹرنگز’ نے ہر میدان پر فتح سمیٹی۔ یہاں تک کہ بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا نے ‘پیپسی بیٹل آف دی بینڈز’ میں بھی ججز کے فرائض انجام دیے۔
سن 2019 میں بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا نے ‘اسٹرنگز’ کے 30 برس مکمل ہونے پر ‘تھرٹی’ کے نام سے ڈیجیٹل البم ریلیز کیا جس کا گانا ‘سجنی’ اور ‘اڑ جاؤں’ بے حد مقبول ہوئے۔
اس کے بعد وہ ‘ویلو ساؤنڈ اسٹیشن’ میں بھی ایکشن میں نظر آئے۔ ان کا گانا ‘پیار کا روگ’ نہ صرف لوگوں نے پسند کیا بلکہ اس سے ‘اسٹرنگز’ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔
پانچ ماہ قبل ہٹ گانا دینے والے بعد بینڈ کا سفر ایک انسٹا گرام پوسٹ کے ذریعے اچانک ختم ہونے پر شائقین جہاں صدمے میں ہیں وہیں انہوں نے حیرت کا اظہار بھی کیا ہے۔
معروف موسیقار اور گلوکار عباس علی خان کا کہنا ہے کہ ‘اسٹرنگز’ کا الگ ہونا ان کے لیے کسی بریکنگ نیوز سے کم نہیں تھا۔ کیوں کہ یہ ایک منظم طریقے سے چلنے والا بینڈ تھا، جس نے تین دہائیوں تک میوزک انڈسٹری پر راج کیا۔
وائس آف امریکہ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا "ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر بینڈ کی لائف ہوتی ہے، سب پر یہ وقت آتا ہے جہاں وہ اپنی انفرادی طور پر کچھ کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں، یا شاید واقعی میں بریک لینا چاہ رہے ہوتے ہیں ، ہوسکتا ہے بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا نے اس لیے اسٹرنگز ڈس بینڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔”
عباس علی خان کے مطابق کبھی کبھار لوگ اپنی ذات کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور بعض اوقات شخصیات اپنے انفرادی کریئر کو لے کر اپنے گروپ سے الگ ہو جاتے ہیں۔
کیا فینز اسے بریک سمجھیں یا بریک اپ؟
یہ پہلا موقع نہیں جب ‘اسٹرنگز’ نے کسی وجہ یا بغیر کسی وجہ کے بریک لیا ہو۔ 1992 میں اپنے دوسرے میوزک البم کی ریلیز کے بعد ہی چاروں دوستوں کی راہیں جدا ہو گئی تھیں اور آٹھ سال تک بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا نے کوئی نیا گانا ریلیز نہیں کیا۔
اس دوران بلال مقصود نے ‘وائٹل سائنز’ کے ملی نغمے ‘مولا’ اور جنید جمشید کے ہٹ سنگل ‘اس راہ پر’ کی میوزک ویڈیوز ڈائریکٹ کیں اور صفِ اول کے میوزک ویڈیو ڈائریکٹرز میں شامل ہو گئے۔
لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ دونوں دوست موسیقی کو چھوڑ بیٹھے تھے لیکن موسیقی انہیں چھوڑنے پر تیار نہ تھی۔ یوں سات برس بعد بلال اور فیصل نے ایک بار پھر ‘اسٹرنگز’ کو فعال کیا اور یہ سلسلہ مزید 21 سال جاری رہا۔
اُن کے تیسرے میوزک البم ‘دور’ اور چوتھے میوزک البم ‘دھانی’ نے انہیں شہرت کی ان بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ نہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ سرحد پار ‘اسٹرنگز’ کے مداح ان کے نئے گانوں اور میوزک ویڈیوز کا انتظار کرنے لگے تھے۔
ان کے ہٹ گانوں ‘میرا بچھڑا یار’ اور ‘کہانی محبت کی ہے مختصر’ کی ہدایت کاری دینے والے ہدایت کار عمر انور کہتے ہیں کہ 2003 میں انہوں نے میوزک ویڈیوز بنانے کا آغاز ‘عادت’ سے کیا تو اس وقت اسٹرنگز ایک بڑا نام تھا۔ ایک نیا ہدایت کار ہونے کے باوجود ‘اسٹرنگز’ نے ان کے آئیڈیا کو سن اور یکے بعد دیگرے تین میوزک ویڈیوز بنائیں۔
عمر انور نے کہا کہ بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا کی شخصیت ہی اتنی سحر انگیز تھی کہ ہر کوئی ان سے متاثر ہو جاتا تھا، چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا اور اسی وجہ سے انہوں نے انڈسٹری پر اتنے عرصے راج کیا۔
‘اندازہ تھا اسٹرنگز کی اننگز ختم ہونے والی تھی’
گزشتہ برس کے اواخر میں بلال مقصود نے بحیثیت میوزک پروڈیوسر ‘ویلو ساؤنڈ اسٹیشن’ کی باگ دوڑ سنبھالی تو لوگوں کو تعجب ہوا۔ کیوں کہ انہوں نے آخری بار فیصل کپاڈیا کے بغیر کوئی کام نوے کے دہائی میں کیا تھا وہ بھی اس وقت جب ان کا بینڈ بریک پر تھا۔
موسیقار اور گلوکار سہیل حیدر کا کہنا تھا کہ ‘ویلو’ کے بعد انہیں بھی تھوڑا اندازہ ہوگیا تھا کہ بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا اب ‘اسٹرنگز’ کو شاید جاری نہ رکھیں۔ لیکن بینڈ ختم ہونے کی خبر جب بھی آتی تو انہیں افسوس ہی ہوتا ہے۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے سہیل حیدر نے کہا کہ انہوں نے بہت سے بینڈز بنتے اور ٹوٹتے دیکھے ہیں لیکن ہمیشہ وہ سب کو اسٹرنگز کی مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ اس بینڈ نے طویل عرصے تک میوزک انڈسٹری کی خدمت کی ہے۔
کیا یہ اسٹرنگز کا آخری الواداع ہے؟
آڈیو کیسٹ سے اپنا سفر شروع کرنے والے اس بینڈ نے سی ڈی کا دور بھی دیکھا اور یوٹیوب کا بھی۔ وہ پاکستان کا پہلا بینڈ بھی بنا جس نے بالی وڈ اور ہالی وڈ سمیت ہر جگہ اپنا لوہا منوایا۔
‘اسپائیڈر مین ٹو’ کے ہندی ورژن میں ان کا گانا ‘نہ جانے کیوں’ استعمال کیا گیا۔ اسی طرح ‘زندہ’ اور ‘شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈوالا’ میں ان کے گیت ‘یہ ہے میری کہانی’ اور ‘آخری الوداع’ کو خوب پذیرائی ملی۔ یہاں تک کہ آج بھی بھارت میں اسٹرنگز کے گانے مقبول ہیں۔
ایک طرف جہاں ان کے مداح ان کے فیصلے سے ناراض ہیں۔ وہیں سہیل حیدر کہتے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ بلال اور فیصل کم بیک ضرور کریں۔ ان کے بقول آگے جا کر اسٹرنگز کو ایک ری یونین کر کے روٹھے فینز کو منانا تو پڑے گا۔