کراچی —
- نیویارک کی کورٹ آف اپیلز نے جنسی جرائم کے الزامات میں مجرم قرار دیے جانے والے ہالی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹین کی سزا کالعدم قرار دے دی۔
- جمعرات کو سنائے جانے والے فیصلے کے بعد کیس کا ری ٹرائل ہو گا، یعنی مقدمہ از سرِ نو شروع کیا جائے گا۔
- جنسی زیادتی کے ایک اور مقدمے میں لاس اینجلس کی عدالت ہاروی وائنسٹین کو 16 سال قید کی سزا سنا چکی ہے جس کی وجہ سے وہ بدستور جیل میں ہی رہیں گے۔
امریکہ کہ ایک اعلیٰ عدالت نے ‘می ٹو’ مہم کی وجہ بننے والے ہالی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹین کی سزا چار سال بعد کالعدم قرار دے دی ہے۔
جمعرات کو نیویارک کی کورٹ آف اپیلز کے سات میں سے چار ججز نے کہا کہ پروڈیوسر کو جس ٹرائل کے بعد 23 سال کی سزا ہوئی وہ اس کی شفافیت سے مطمئن نہیں۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ججز نے مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار میں متعدد غلطیوں کا حوالہ دیا ہے۔ غلطیوں میں ان خواتین کی گواہی قبول کرنا بھی شامل تھا جو ہاروی وائنسٹین کے خلاف الزامات کا حصہ نہیں تھیں۔
ججز کے خیال میں ملزم کی کردار کشی کی وجہ سے ان کے خلاف کیس کمزور ہوا ہے جس کے ازالے کے لیے اب مقدمے کا ازسرِ نو آغاز ہو گا۔
جن تین ججز نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے اس میں سے ایک نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ کورٹ آف اپیلز کا اس فیصلے سے خواتین کی حفاظت کی تحریک کو ایک دھچکا لگا ہے۔
فیصلے پر ہاروی وائنسٹین کی وکیل کا کہنا تھا کہ اب وہ اپنے کلائنٹ کا کیس بہتر انداز میں پیش کر سکیں گی۔ وہ پُرامید ہیں کہ اب ہاروی وائن اسٹین کا مؤقف بھی جیوری کے سامنے رکھا جائے گا۔
یاد رہے کہ جنسی زیادتی کے ایک اور مقدمے میں لاس اینجلس کی عدالت ہاروی وائنسٹین کو 16 سال قید کی سزا سنا چکی ہے جس کی وجہ سے وہ بدستور جیل میں ہی رہیں گے۔
ہاروی وائنسٹین کیس: می ٹو مہم کے آغاز کی وجہ کیسے بنا؟
سن 2017 میں اکیڈمی ایوارڈ یافتہ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹین کے خلاف 80 سے زائد خواتین کی جانب سے جنسی زیادتی کے الزامات سامنے آئے تھے جن میں کئی ہالی وڈ اداکارائیں بھی شامل تھیں۔
ان الزامات سے پہلے ہاروی وائنسٹین کا شمار ہالی وڈ کے بڑے پروڈیوسرز میں ہوتا تھا جن کی کمپنی نے ‘شیکسپیئر ان لو’ اور ‘پلپ فکشن’ جیسی کامیاب فلمیں بنائی تھیں۔
تاہم ان الزامات کے سامنے آتے ہی دنیا بھر میں ‘می ٹو مہم’ کا آغاز ہوا تھا۔ اس مہم کا ذریعے سینکڑوں خواتین کے لیے ورک پلیس ہیراسمنٹ یعنی ملازمت کی جگہ پر جنسی تشدد کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔
ہاروی وائنسٹین کے خلاف کئی خواتین نے جنسی زیادتی کے الزام لگائے تھے۔ لیکن جن دو کیسز میں انہیں نیو یارک کی عدالت نے جنسی زیادتی اور ریپ کا مرتکب پایا تھا اس کا الزام سابقہ پروڈکشن اسسٹنٹ مریم ہیلی اور اداکارہ جیسیکا مین نے لگایا تھا۔
پروڈیوسر کا شروع دن سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ انہوں نے کسی بھی خاتون کے ساتھ زیادتی نہیں کی اور جو کچھ بھی ہوا وہ دونوں افراد کی باہمی رضا مندی سے ہوا۔
نیویارک کی عدالت کے فیصلے کو جہاں وائنسٹین کے وکلا ایک تاریخی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں ان کے خلاف آٹھ خواتین کی نمائندگی کرنے والے وکیل ڈگلس ایچ وگڈر اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔
وکیل ڈگلس ایچ وگڈر کے مطابق فیصلہ سے اُن تمام افراد کی دل آزاری ہوئی جو اس کیس کا حصہ تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سزا کو کالعدم قرار دیا جانا انہیں ایک قدم پیچھے ضرور لے جاتا ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ ری ٹرائل میں سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
ایک اور وکیل ڈیبرا کیٹز سمجھتی ہیں کہ وہ تمام خواتین جنہوں نے ہاروی وائنسٹین کے خلاف گواہی دی انہیں اس فیصلے سے افسوس ہو گا۔ لیکن وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو سکتی ہیں کہ ان کی گواہی نے دنیا تبدیل کی۔