کراچی —
پہلے نیوزی لینڈ اور اب انگلینڈ، ورلڈ کپ 2019 کے فائنل میں شرکت کرنے والی دونوں ٹیموں نے پاکستان آنے سے معذرت کر لی۔ انگلش کرکٹ بورڈ (ای سی بی) نے تو دورے سے تقریباً ایک ماہ قبل خطے کی صورتِ حال اور کھلاڑیوں کی ذہنی تھکاوٹ کو وجہ بنا کر پی سی بی کو پیشگی اطلاع دی، لیکن نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے پہلا ون ڈے میچ شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیموں کے دورۂ پاکستان کی منسوخی پر جہاں پاکستانی شائقین کرکٹ مایوس ہیں وہیں پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی یہ معاملہ آئی سی سی میں اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹام لیتھم کی قیادت میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی، یہاں سخت سیکیورٹی میں انہوں نے پریکٹس کی اور میچ سے ایک دن پہلے بھی ان کے کھلاڑی اور حکام ہر طرف سے مطمئن تھے کہ اچانک میچ سے قبل کیوی ٹیم نے اسٹیڈیم جانے کے بجائے وطن واپس جانے کو ترجیح دی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نو منتخب چیئرمین اور سابق کپتان رمیز راجا نے جہاں نیوزی لینڈ کے اس فیصلے کو پاکستان کرکٹ کے لیے دھچکہ قرار دیا وہیں اس بات کا بھی اعلان کیا کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس معاملے کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں اٹھائیں گے۔
Crazy day it has been! Feel so sorry for the fans and our players. Walking out of the tour by taking a unilateral approach on a security threat is very frustrating. Especially when it’s not shared!! Which world is NZ living in??NZ will hear us at ICC.— Ramiz Raja (@iramizraja) September 17, 2021
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کا دورہ ختم ہونا افسوسناک تھا جس کے بعد انگلینڈ سے اسی قسم کے فیصلے کی توقع تھی، کیوں کہ ان حالات میں ویسٹرن بلاک ایک ہو جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیوزی لینڈ کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف پاکستان نے خط و کتابت شروع کر دی ہے اور اس دورے میں ہونے والے مالی نقصان کا ازالہ چاہے گا۔
رمیز راجا کے آئی سی سی میں معاملہ اُٹھانے کے اعلان کے باوجود ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی سے کم ہی ریلیف ملا ہے۔
‘ماضی میں آئی سی سی میں ہمیشہ پاکستان ہی کی وکٹ گری’
یہ پہلا موقع نہیں ہو گا جب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ثالثی کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے رجوع کیا ہو، اس سے قبل سن 2006 میں اوول کے مقام پر ہونے والے نامکمل ٹیسٹ میچ کے نتیجے کو پہلے ڈرا اور بعد میں انگلینڈ کی جیت میں بدلا گیا تو پاکستان کے مؤقف کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔
میچ کے دوران جب آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے پاکستانی بالرز پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگا کر مخالف ٹیم کو پانچ اضافی رنز دیے تو اس وقت ان کے پاس بال ٹیمپرنگ کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اس وقت پاکستانی کپتان انضمام الحق نے احتجاجاً ٹیم کو وقفے کے بعد میدان میں اُتارنے سے انکار کر دیا تھا جس پر امپائرز نے میچ میں انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا تھا۔
تحقیقات کے بعد میچ ریفری رنجن مدوگالے نے پاکستانی کپتان انضمام الحق کو بال ٹیمپرنگ کے الزام سے تو بری کر دیا لیکن کرکٹ کی اسپرٹ کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے ان پر چار میچز کی پابندی لگا دی گئی۔
دو سال بعد آئی سی سی نے اس میچ کے نتیجے کو انگلینڈ کے حق میں کرنے کا فیصلہ واپس لے کر اس میچ کو ڈرا قرار دے دیا تھا۔
تاہم کرکٹ کے قوانین بنانے والے میری لیبون کرکٹ کلب نے اس نتیجے کو انگلینڈ کی فتح میں تبدیل کرنے کی سفارش کی اور آئی سی سی نے ایک ایسے میچ کو جس میں انگلش ٹیم شکست کے دہانے پر تھی میچ انگلینڈ کی جھولی میں ڈال دیا۔
دوسری بار معاملہ تھا سات کروڑ ڈالرز کا جو سن 2018 میں پاکستان کرکٹ بورڈ بھارتی کرکٹ بورڈ سے طلب کر رہا تھا، وہ سیریز نہ کھیلنے کے لیے جس کے لیے دونوں ممالک نے 2014 میں سمجھوتہ کیا تھا۔
معاملہ جب آئی سی سی کی ڈسپیوٹس ریزولوشن کمیٹی (تنازعات کے حل کی کمیٹی) کے پاس پہنچا تو پاکستان کا مؤقف تھا کہ اس کا نقصان ہوا جس کا بھارت ازالہ کرے۔
دوسری جانب بھارتی کرکٹ بورڈ بضد تھا کہ اس کی حکومت نے پاکستان کے خلاف سیریز کھیلنے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے وہ کوئی جرمانہ نہیں دے گا۔
پاکستان آئی سی سی میں یہ کیس بھی ہار گیا اور اس کیس پر آنے والے اخراجات کی مد میں اسے بھارتی کرکٹ بورڈ کو کروڑوں روپے ادا کرنا پڑے۔
معاملہ کیس جیتنے یا ہارنے کا نہیں، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا ہے، ہارون رشید
پاکستان کرکٹ بورڈ سے کئی برس منسلک رہنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور سابق کوچ ہارون رشید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں پاکستان کا جانا اچھا قدم تو ہے، لیکن معاملہ اب کیس ہارنے یا جیتنے سے آگے نکل چکا ہے۔
اُن کے بقول "لگتا تو یہی ہے کہ نیوزی لینڈ کا یکطرفہ فیصلہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ کو تنہا کرنے کی ایک سازش ہے، معاملہ اب ہار جیت کا نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا ہے۔ اگر مہمان ٹیم کو ‘فائیو آئیز’ نے سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا تھا تو ان کا فرض تھا کہ میزبان بورڈ کو بھی اس بات سے آگاہ کرتے، ایسا نہ کرنے سے یہی لگتا ہے کہ ان کے خدشات درست نہیں تھے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی سی بی کو چاہیے کہ جب آئی سی سی کے سامنے اپنا کیس رکھے، تو اس میں یہ بات واضح کرے کہ اُنہیں مالی نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ اس کا فیصلہ ایسا ہونا چاہیے کہ آئندہ کوئی دوسری ٹیم اس طرح کا رویہ دہرانے کی ہمت نہ کرے۔
ہارون رشید کے بقول "اگر پاکستان آئی سی سی سے ثالثی کے لیے رجوع کرتا ہے تو یہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل دونوں کے لیے امتحان ہو گا۔ پاکستان کو اپنا مؤقف بہترین انداز میں پیش کرنا ہو گا اور آئی سی سی کو دنیا کو بتانا ہو گا کہ وہ تمام کرکٹ بورڈز کو برابر سمجھتی ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کے یکطرفہ فیصلے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ان کوششوں کو ضرور دھچکہ لگا ہے جن سے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی، لیکن اب بورڈ کی کوشش ہونی چاہیے کہ دوسری ٹیموں کو راضی کرے کہ وہ پاکستان آئیں اور دنیا کو بتائے کہ یہ ایک محفوظ ملک ہے اور نیوزی لینڈ کا یکطرفہ فیصلہ غلط تھا۔
بقول ہارون رشید، آئی سی سی کے دوسرے ممبران کو بھی پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے اور ایک ایسی قرارداد منظور کرنی چاہیے جس میں تمام کرکٹ بورڈ کو پابند کیا جائے کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوشش ہونی چاہیے کہ دیگر ٹیموں کو پاکستان لائے، نجم سیٹھی
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی کا بھی یہی کہنا تھا کہ اگر نیوزی لینڈ کے کرکٹ بورڈ کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں سیکیورٹی کے حوالے سے تو انہیں چاہیے تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو آگاہ کرتے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کو ملنے والا مبینہ تھریٹ الرٹ اتنا کمزور تھا کہ اب وہ شرمندگی کے مارے خاموش بیٹھے ہیں۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ "نیوزی لینڈ کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف پاکستان نے آئی سی سی میں جانے کا اعلان تو کر دیا، لیکن اس سے بڑا اعلان نیوٹرل وینیو پر نہ کھیلنے کا ہے جو حالات کے مطابق درست فیصلہ ہے۔”
اُن کا کہنا تھا کہ بورڈ کو چاہیے کہ آئی سی سی کے دیگر ممبران کے سامنے اپنا کیس پیش کر کے حمایت حاصل کرے تاکہ وہ نیوزی لینڈ کے فیصلے پر تنقید کریں، اس سے زیادہ آئی سی سی میں کچھ نہیں ہو سکتا۔
نجم سیٹھی سمجھتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کے فیصلے کو بھلا کر اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیگر کرکٹ بورڈز سے رابطہ کر کے ان کی ٹیموں کو پاکستان بلانا چاہیے تاکہ ہم دنیا کو یہ بتا سکیں کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔
اُن کے بقول اگر آسٹریلیا آئندہ برس پاکستان آ جاتی ہے تو اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو گا۔
نجم سیٹھی نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کچھ نہیں کر سکتا سوائے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو دباؤ میں لانے کے معاملہ دونوں کرکٹ بورڈز کو ہی مل بیٹھ کر حل کرنا ہو گا۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ "نیوزی لینڈ نے جو بھی کیا، اچھا نہیں کیا لیکن اس معاملے کا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے کوئی لینا دینا نہیں، اس معاملے کا حل پاکستان اور نیوزی لینڈ کے کرکٹ بورڈز کو آپس میں ہی مل بیٹھ کر ہی نکالنا ہو گا۔”
اُن کے بقول اگر پاکستان نے اگر آئی سی سی کو قائل کر لیا کہ نیوزی لینڈ کا فیصلہ یکطرفہ تھا اور سیکیورٹی خدشات غیر مصدقہ تھے تو یہی پاکستان کی جیت ہو گی کوئی اور ٹیم مستقبل میں اس قسم کے یکطرفہ فیصلے کرنے سے پہلے سوچے۔