کراچی —
پاکستان میں جہاں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں میوزک اور ٹی وی نے اتار چڑھاؤ دیکھے، وہیں ڈبنگ کا شعبہ بھی پیچھے نہیں رہا۔ لیکن عالمی شہرت یافتہ صدا کاروں، تمام تر ٹیلنٹ اور پوٹینشل کے باوجود آج بھی ڈبنگ کا یہ شعبہ پاکستان میں انڈسٹری کی شکل اختیار نہیں کر سکا ہے۔
ترک ڈراموں ‘میرا سلطان’ اور ‘عشقِ ممنوع’ کی اردو میں ڈبنگ ہو یا پھر ‘ارطغرل غازی’ کی، ان ڈراموں کو مقامی زبان میں نشر کرنے سے مقامی چینلز کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ لیکن ٹی وی پر ڈب شدہ ڈراموں کی مقبولیت کے باوجود پاکستان میں انگریزی اور دیگر زبانوں کی فلموں کی اردو اور مقامی زبانوں میں ڈبنگ کا رجحان فروغ نہیں پا سکا۔
گزشتہ رمضان میں جہاں پاکستان ٹیلی ویژن پر ‘ارطغرل غازی’ کی اردو ڈبنگ نے اس انڈسٹری کو ایک بار پھر بلندی پر پہنچایا، وہیں ایک اور بحث کا آغاز بھی کر دیا کہ آیا دوسرے ممالک کے ڈراموں کو پرائم ٹائم پر نشر کرنا چاہیے یا نہیں۔
کچھ اداکاروں نے اسے اپنے حق پر ڈاکہ قرار دیا تو کچھ نے اسے پاکستان ٹیلی ویژن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔
لیکن گزشتہ سال کے کامیاب تجربے کے بعد رواں برس جیو انٹرٹینمنٹ نے ‘ارطغرل غازی’ کی پریکوئل سیریز ‘عثمان’ اردو میں ڈب کر کے نشر کی ہے۔ جس سے شائقین کو ایک اور معیاری ڈرامہ اور ڈبنگ انڈسٹری کو مزید معیاری کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
ڈبنگ انڈسٹری ہے کیا اور پاکستان میں یہ کتنی پرانی ہے؟
نوے کی دہائی میں جب پاکستان میں لوگ سنیما گھروں کا رخ کرتے تھے تو عوام کی ایک کثیر تعداد انگریزی فلموں کو اردو زبان میں دیکھنے جایا کرتی تھی۔
ہالی وڈ کی بڑی فلمیں ‘جراسک پارک’ سے لے کر ‘دی ممی’ تک جو فلم بھی پاکستانی سنیما میں لگی، اس کا ایک شو لازمی اردو میں بھی ہوتا تھا جو زیادہ تر دوپہر میں لگتا تھا۔
ان فلموں کی اردو ڈبنگ پڑوسی ملک بھارت سے ہو کر آیا کرتی تھی جہاں فلموں کے ساتھ ساتھ ڈبنگ انڈسٹری کا بھی اپنا ایک مقام ہے۔ لیکن پھر جب پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے پہلے اسلامی فلموں اور پھر ترک ڈراموں کو پاکستان میں نشر کرنے کا سوچا تو اس کے ساتھ ہی یہاں بھی ایک ڈبنگ انڈسٹری کی داغ بیل ڈل گئی۔
میوزک پروڈیوسر اور ‘کے جے پروڈکشن’ کے مالک خرم جمشید کا، جو اس شعبے سے کافی عرصے سے وابستہ ہیں، کہنا ہے کہ ‘ارطغرل غازی’ اردو ڈبنگ کی وجہ سے پاکستان میں زیادہ مقبول ہوا کیوں کہ اس سے قبل لوگ اسے صرف انٹرنیٹ پر انگریزی زبان میں دیکھ سکتے تھے۔
پاکستان میں بے حد مقبول ترکش ڈرامے ‘ارطغرل غازی’ کی اردو ڈبنگ میں جتنا اہم کردار آواز کا ہے، اتنا ہی ان الفاظ کا جو یہ صداکار مائیک کے سامنے ادا کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خرم جمشید نے بتایا کہ ان سے اس تاریخی سیریل کی ڈبنگ کے لیے ماضی میں بھی رابطہ کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی سال پہلے ایک پرائیویٹ چینل نے ‘ارطغرل غازی’ کے لیے ان سے رجوع کیا تھا لیکن انہیں تھوڑی ‘جلدی’ تھی اس لیے اُس وقت انہوں نے منع کر دیا تھا۔
خرم جمشید نے بتایا کہ کچھ ہی عرصے بعد سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن نے انہیں ‘ارطغرل غازی’ کی ڈبنگ کے آڈیشن کے لیے بلایا اور ان کا ڈب کیا ہوا پائلٹ انہیں پسند آیا جس کی وجہ سے انہیں یہ ڈرامہ ملا۔
اُن کے بقول پہلی بار منع کرنے کی وجہ ٹیکنیکل تھی، ذاتی نہیں۔ ڈرامہ وزیرِ اعظم پاکستان کی خواہش پر ڈب ہو رہا تھا جس کو جلدی میں کر کے خراب نہیں کیا جاسکتا تھا۔
خرم جمشید بتاتے ہیں کہ ‘ارطغرل غازی’ کی ڈبنگ پر انہیں صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے پذیرائی ملی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نئے لوگوں کو سامنے لا کر انہیں موقع دینا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے نہ صرف اسکرپٹ کا ترجمہ اپنی ٹیم سے کرایا بلکہ ان کی کوشش تھی کہ جب ڈرامہ نشر ہو تو لوگ اس کی ڈبنگ، اس کی اسکرپٹ اور پروڈکشن دیکھ کر یہ بھول جائیں کہ یہ ڈبنگ ہوئی ہے۔
ان کے بقول، "فیلڈ میں بہت سے لوگ ڈبنگ کو آسان سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا ہے نہیں۔”
‘ارطغرل غازی’ میں مرکزی کردار کی آواز ڈب کرنے والے صداکار اعتصام الحق نے اپنے ڈبنگ کریئر کا آغاز 2008 میں نجی ٹی وی جیو انٹرٹینمنٹ کی فلموں سے کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف ٹی وی چینلز اور ریڈیو پاکستان میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ارطغرل غازی میں مرکزی کردار کی آواز ڈب کرنے سے پہلے انہیں صرف اتنا معلوم تھا کہ یہ ڈرامہ تاریخی ہے۔
اعتصام الحق کے مطابق جب ارطغرل غازی کی آواز کے لیے انہیں منتخب کیا گیا تو ان کے علم میں صرف یہ تھا کہ یہ تاریخی ڈرامے کے ہیرو کا رول ہے، نیٹ فلکس پر بہت پسند کیا جارہا ہے اور وزیرِ اعظم عمران خان نے اس کا ذکر کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کریکٹر ملنے کے بعد انہوں نے اس کردار پر تحقیق کی جس کے بعد انہیں پتا چلا کہ یہ کتنا بڑا پراجیکٹ ہے اور اسے مسلم ممالک میں کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ارطغرل جیسی مقبولیت کسی اور کو کیوں نہ ملی؟
ڈرامے کی اسکرپٹ ٹیم کا حصہ بننے والی لکھاری نازش علوی کہتی ہیں کہ چوں کہ پروڈیوسرز نے تین نئے لوگوں پر مشتمل ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپی، اس لیے سب نے دل لگا کر توجہ کے ساتھ کام کیا۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ارطغرل غازی’ جیسا پراجیکٹ ملنا ہی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب آپ کا کوئی خاص تجربہ نہ ہو۔ اس ڈرامے کے ذریعے اردو کی ترویج کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کو بھی لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے جن کی جگہ انگریزی الفاظ نے لے لی ہے۔
ان کے بقول "ارطغرل کا ترجمہ کرتے ہوئے سب سے مشکل کام جملے کو ایسے ترتیب دینا ہے کہ ترک اداکاروں کے بولے گئے ڈائیلاگ کا دورانیہ، رفتار، لپ سنک سب میچ ہو جائے۔”
نازش علوی کہتی ہیں وہ جملوں کے مفہوم پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ اس میں سب سے مشکل کام جملے کو ایسے ترتیب دینا ہوتا ہے کہ ترک اداکاروں کے بولے گئے ڈائیلاگ اردو میں کہے گئے لگیں اور ایسا کرنے کے لیے ایک لائن بار بار سننا پڑتی ہے۔
نازش بتاتی ہیں کہ کئی بار محض مترجم ہی نہیں ریسرچر بھی بننا پڑتا ہے کیوں کہ ترکی کے تاریخی و مذہبی حوالوں اور قرآنی آیات کو پوری معلومات کے بغیر شامل نہیں کیا جا سکتا۔
اداکاری اور ڈبنگ میں فرق
ارطغرل غازی میں حلیمہ سلطان کا وائس اوور کرنے والی اداکارہ رابعہ کرن راجپوت نے ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ نیوز اینکرنگ بھی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کردار کی آواز کے لیے آڈیشن کا عمل ضروری ہے، پیاری سی شکل کی اداکارہ پر پیاری سی شکل کی اداکارہ کی آواز کا فٹ بیٹھنا ضروری نہیں۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کسی بھی کردار کو نبھانے کے لیے اداکار کو اس طرح کی اداکاری کرنا ہوتی ہے، اسی طرح وائس اوور کے لیے بھی ہدایت کار کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کی آواز، باڈی لینگویج اس کردار کے لیے موزوں ہو۔
ڈبنگ ہی سے اپنے کریئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ کا کہنا تھا کہ حلیمہ سلطان کی طرح وہ اپنے ہر کردار کو نئے کردار کے طور پر لیتی ہیں اور اگر ان کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کرداروں کو پسند کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول ڈبنگ بھی ایک سخت محنت کا کام ہے جس میں آپ کو ہر وقت اپنا دماغ چلانے کی ضرورت ہے، نئے کردار کرتے ہوئے کبھی کسی پرانے کردار کی کوئی چیز ذہن میں رہ جاتی ہے یا ہم خود رکھ لیتے ہیں، کبھی کسی حوالے کو بھی زیرِ غور لے آتے ہیں، کون سا عنصر ڈالنا ہے اور کس طرح کی ڈیلیوری دینی چاہیے، یہ ایک اجتماعی کوشش ہوتی ہے جو اسکرین پر نظر آجائے تو کردار پسند کیا جانے لگتا ہے۔
‘پاکستان میں ڈبنگ انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں وقت لگے گا’
پاکستان میں ڈبنگ انڈسٹری کو پروان چڑھانے سے متعلق اعتصام الحق کہتے ہیں کہ اس صنعت کو پروان چڑھانے کے لیے اتنا ہی وقت درکار ہو گا جتنا گیم شوز، ری اِنیکٹمنٹ اور دیگر شعبوں کو آن اسکرین دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو چار اچھے پروجیکٹس کے بعد چینلز، اسپانسرز اور تجزیہ کار ڈبنگ کو فضول قرار دے کر بھول جاتے ہیں لیکن جب کچھ عرصے بعد اس کا دور واپس آتا ہے تو پھر اس کی تعریف کرنے لگتے ہیں۔ انہیں اگلے ہٹ سیریل سے پہلے اس شعبے کے معاملات کو سمجھنا ہوگا اور اسے مناسب وقت دینے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول آواز کی دنیا کے لوگوں کے مالی حالات زیادہ اچھے نہیں ہوتے اور یہ کام ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں۔ کئی بڑے اداکاروں نے صداکاری کر کے چھوڑ دی کیوں کہ انہیں اداکاری میں بہتر معاوضہ ملتا ہے۔
اعتصام کے خیال میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ نئے لوگوں کو اس فیلڈ میں لائیں اور اس انڈسٹری کو وسیع کریں تو اس کے لیے وائس اوور کے شعبے کو مالی طور پر پُرکشش بنانا ہو گا۔ جب نئے لوگوں کو بہتر معاوضہ ملے گا تب ہی وہ اس فیلڈ کا رخ کریں گے۔
پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری ڈبنگ سے خوفزدہ کیوں؟
پروڈیوسر خرم جمشید کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ڈبنگ انڈسٹری ٹی وی اور فلم انڈسٹری کو سپورٹ کرتی ہے جب کہ پاکستان میں یہی دونوں انڈسٹریاں ڈبنگ سے ڈرتی ہیں۔ ان کے بقول جس طرح قوالی آنے کے بعد نعت خوانی ختم نہیں ہوئی، ویسے ہی ڈبنگ انڈسٹری کے پروان چڑھنے سے مقامی ڈرامہ انڈسٹری کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
ان کے بقول ان کا پہلا پراجیکٹ ‘عشق ممنوع’ تھا جس کے بعد ڈبنگ انڈسٹری میں ان کی دلچسپی بڑھی اور انہوں نے 17 سے 18 پراجیکٹس پروڈیوس کیے جو لوگوں کو بے حد پسند آئے۔
خرم کا کہنا تھا کہ ‘ارطغرل غازی’ کی ہر قسط کے ترجمے سے لے کر ڈبنگ تک کے فرائض ان کی ٹیم نے ادا کیے لیکن انہیں سپورٹ ملنے کے بجائے پاکستان میں فن کاروں نے اس نئی انڈسٹری سے بلاوجہ ڈرنا شروع کر دیا ہے۔
خرم کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ڈبنگ انڈسٹری کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔
اعتصام الحق بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں انٹرٹینمنٹ چینلز کو یہ بات سجھنا ہوگی کہ ڈبنگ انڈسٹری کے فروغ سے انہیں کوئی نقصان نہیں بلکہ اس سے تو انہیں فائدہ ہی ہوگا۔
کیا پاکستان کی ڈبنگ انڈسٹری بھارت کا مقابلہ کر پائے گی؟
خرم جمشید نے بھارت کے ساتھ موازنے کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور پڑوسی ملک کی ڈبنگ انڈسٹری کا کوئی موازنہ نہیں۔ ان کے بقول بھارت اس فیلڈ میں تین دہائیوں سے ہے اور پاکستان میں ابھی بمشکل 10، 15 سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس علاقائی زبانوں سے لے کر ہالی وڈ کی فلمیں تک ڈب ہوتی ہیں جب کہ ہمارے پاس زیادہ تر اسلامی پروگرامز، کارٹون اور بچوں کے پروگرام ہی ڈب کیے جاتے ہیں۔
ان کے بقول ارطغرل غازی کے بعد کچھ بین الاقوامی کام ان کے پاس بھی آنے لگا ہے جس میں زیادہ تر کام اردو زبان کے لیے مل رہا ہے۔ لیکن اگر اس انڈسٹری کو آگے بڑھانا ہے تو ہمیں علاقائی زبانوں کی ڈبنگ سے قبل اس زبان کے لوگوں کو اس کام سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اس کام میں آنا چاہ رہے ہیں وہ ضرور آئیں، صداکاری کے ساتھ ساتھ لکھنے اور دیگر شعبوں میں اچھے لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔
اعتصام الحق بھی کہتے ہیں کہ ترک ڈراموں کے کامیاب تجربے کے بعد اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ہمیں ایرانی اور خلیجی ممالک کا مواد سوٹ کر سکتا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جائے گا تو اس سے ڈبنگ انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔
ڈبنگ انڈسٹری میں اتار چڑھاؤ کیوں آتا ہے؟
اعتصام الحق سمجھتے ہیں کہ جس طرح پاکستان میں ٹی وی ڈراموں کے لیے مخصوص وقت مقرر ہے، اسی طرح ڈب ڈراموں کے لیے بھی ٹائم سلاٹ ہونا چاہیے تاکہ کوالٹی کا معیار برقرار رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈبنگ انڈسٹری میں جب بھی بوم آیا ہے تو اس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ عشق ممنوع، میرا سلطان، مناہل اور خلیل جیسے ڈراموں کو عوام میں پذیرائی ملی لیکن ایک وقت ایسا آیا جب ہر کوئی ڈب ڈرامے کی طرف آگیا اور انہی تجربات کی وجہ سے کوالٹی خراب ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں زیادہ کام کرنے کی کوشش کے بجائے اچھا کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان ڈراموں کے لیے ایک مخصوص وقت مقرر کیا جائے گا۔