کراچی — پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کا پانچواں اور آخری میچ مہمان ٹیم نے 47 رنز سے جیت کر نہ صرف خود کو وائٹ واش سے بچالیا بلکہ پاکستان کو بھی ون ڈے رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن سے محروم کردیا۔
پاکستان کو آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے سیریز کا پانچوں میچ جیتنا لازمی تھا لیکن آخری میچ میں شکست کی وجہ سے سیریز کا اختتام چار ایک پر ہوا اجب کہ آخری میچ میں شکست نے گرین شرٹس کو پہلی سے تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا۔
پاکستان نے آئی سی سی کی ون ڈے انٹرنیشنل رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن سیریز کے چوتھے میچ میں کامیابی حاصل کرکے اپنے نام کی تھی۔ اس سیریز کے آخری میچ میں شکست کے ساتھ ہی 113 پوائنٹس کے ساتھ آسٹریلیا نے ون ڈے رینکنگ میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن واپس لے لی۔
بھارت کی ٹیم113 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ ایک پوائنٹ کے فر ق سے 112 پوائنٹس کے ساتھ پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔
ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی موجودہ ورلڈ چیمپئن انگلش ٹیم111 پوائنٹس کے ساتھ اس فہرست میں چوتھی پوزیشن پر ہے جب کہ سیریز میں چار ایک سے شکست کھانے والی نیوزی لینڈ بدستور پانچویں پوزیشن پرموجود ہے۔
More changes in the @MRFWorldwide ICC Men's ODI Team Rankings as New Zealand win the fifth #PAKvNZ ODI.
— ICC (@ICC) May 8, 2023
Details ⬇️https://t.co/kQ1OBHjCyg
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے سیریز کے پہلے چار میچ تو جیتے تھے لیکن کیوی بالرز کی نپی تلی بالنگ کی وجہ سے گرین شرٹس 20 سال بعد ون ڈے سیریز پانچ صفر سے جیتنے میں ناکام رہے۔
انضمام الحق کی قیادت میں پاکستان نے 2003 میں نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ میچز کی ون ڈے سیریز وائٹ واش کی تھی۔
ول ینگ اور کپتان ٹام لیتھم کی نصف سینچریاں
کراچی میں کھیلے گئے سیریز کے آخری میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کو 300 رنز کا ہدف دیاتھا۔ کیوی اننگز کی خاص بات اوپننگ بلے باز ول ینگ اور کپتان ٹام لیتھم کی نصف سینچریاں تھیں جن کی بدولت مہمان ٹیم ایک بڑا اسکور کرنے میں کامیاب ہوئی۔
ول ینگ جنہوں نے ون ڈے سیریز کے پہلے میچ میں 86 رنز کی اننگز کھیلی تھی، آخری میچ میں 91 گیندوں پر 87 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے، ان کی اننگز میں آٹھ چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔
کپتان ٹام لیتھم نے ان کے جانے کے بعد اننگز کو سنبھالا اور 58 گیندوں پر 59 قیمتی رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ مارک چیپمین نے 43 رنز بناکر ان کا بھرپور ساتھ دیا جب کہ نچلے نمبرز پر کول مکونکی اور رچن رویندرا کی جارح مزاجی بھی ٹیم کے کام آئی اور پوری ٹیم 49 عشاریہ تین اوورز میں 299 رنز بناکر آؤٹ ہوئی۔
پاکستان کی جانب سے سب سے کامیاب بالر شاہین شاہ آفریدی رہے جنہوں نے 46 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ لیگ اسپنرز اسامہ میر اور شاداب خان نے دو دو وکٹیں حاصل کیں جب کہ حارث رؤف اور محمد وسیم جونیئر کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔
پاکستان کی فیلڈنگ کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وکٹ کیپر محمد رضوان کی وکٹوں کے عقب میں کارکردگی اچھی رہی، انہوں نے مجموعی طور پر تین اہم کیچ پکڑے۔
تین سو رنز کے تعاقب میں پاکستان کا ٹاپ آرڈر سیریز میں پہلی بار فیل ہوا جس کی وجہ سے مڈل آرڈر اور نچلے نمبروں پر آنے والے بلے بازوں پر پریشر بڑھا۔ سیریز میں دو سینچریاں اسکور کرنے والے فخر زمان نے 19ویں اوور تک وکٹ پر قیام تو کیا لیکن 64 گیندوں پر صرف 33 رنز ہی بناسکے۔
دوسرے اینڈ پر نہ تو 20 گیندوں پر سات رنز بنانے والے شان مسعود نے ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی اپنا 100واں ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اسکور میں زیادہ اضافہ کرسکے۔
ان فارم بابر اعظم کے صرف ایک رن پر آؤٹ ہوجانے کے بعد محمد رضوان سے شائقین نے امیدیں باندھ لیں لیکن وہ بھی 15 گیندوں کا سامنا کرکے صرف نو رنز بناسکے۔
ایسے میں سلمان علی آغا اور افتخار احمد نے ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچویں وکٹ کی شراکت میں 97 رنز بناکر ٹیم کو مشکل سے نکالا۔
سلمان علی آغا نے سیریز میں اپنی دوسری نصف سینچری صرف 46 گیندوں پر بناکر مہمان ٹیم کے سامنے مزاحمت کی۔ انہوں نے 57 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے چھ چوکے اور ایک چھکے کی مدد سے 57 رنز بنائے۔
سلمان علی آغا کے ساتھ وکٹ پر ٹھہر کر پاکستان کو میچ میں واپس لانے والے افتخار احمد نے بھی میچ میں اپنے کریئر کی پہلی نصف سینچری اسکور کی۔ 48 گیندوں پر 50 بنانے والے افتخار نے دوسرے اینڈ پر وکٹیں گرنے کے باوجود جارحانہ انداز جاری رکھا اور آخر تک وکٹ پر ٹھہرے رہے۔
نائب کپتان شاداب خان نے 14 گیندوں پر 14 رنز اور اسامہ میر نے 15 گیندوں پر 20 رنز بناکر ان کا ساتھ تو دیا لیکن زیادہ اسکور نہ کرسکے۔شاہین شاہ آفریدی اور محمد وسیم بھی زیادہ مزاحمت نہ کرسکے جس کی وجہ سے میزبان ٹیم 47ویں اوور میں 252 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
صرف چھ رنز کی کمی کی وجہ سے افتخار احمد اپنے ون ڈے کریئر کی پہلی سینچری بنانے سے محروم رہے لیکن انہوں نے 72 گیندوں پر آٹھ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 94 رنز بنائے۔
نیوزی لینڈ کی جانب سے فاسٹ بالر ہنری شپلی 34 رنز دے کر تین وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بالر رہے۔ انہوں نے نہ صرف بابر اعظم کو آؤٹ کیا بلکہ محمد رضوان اور سلمان علی آغا کو بھی واپس پویلین بھیج کر پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔
لیفٹ آرم اسپنر رچن رویندرا نے بھی تین ہی وکٹیں حاصل کیں لیکن اس کے لیے انہوں نے 65 رنز دیے، جب کہ ایڈم ملن، میٹ ہنری اور ایش سودھی کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔
پانچ میچز پر مشتمل سیریز کے اختتام پر فخر زمان کو ان کی شاندار پرفارمنس پر پلیئر آف دی سیریز کا ایوارڈ دیا گیا۔ بائیں ہاتھ سے اننگز کا آغاز کرنے والے کھلاڑی نے پانچ اننگز میں 90 عشاریہ سات پانچ کی اوسط سے 363 رنز اسکور کیے جو دوسرے نمبر پر آنے والے نیوزی لینڈ کے ڈیرل مچل سے 66 رنز زیادہ ہیں۔
فخر زمان نے سیریز میں دو سینچریاں اسکور کیں جس میں سیریز کا سب سے بڑا انفرادی اسکور 180 ناٹ آؤٹ شامل ہے جو انہوں نے دوسرے میچ میں اسکور کیا تھا۔
نیوزی لینڈ کے ڈیرل مچل کی سینچریوں کی تعداد بھی فخر زمان کی طرح دو تھی لیکن انہوں نے ایک میچ کم کھیلا اور 74 عشاریہ دو پانچ کی اوسط سے چار اننگز میں 297 رنز بنائے۔
نیوزی لینڈ کے کپتان ٹام لیتھم 282 اور پاکستانی قائد بابر اعظم 276 رنز کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ ٹام لیتھم نے سیریز میں مجموعی طور پر تین نصف سینچریاں اسکور کیں جب کہ بابر اعظم نے ایک سینچری اور دو نصف سینچریاں بنائیں۔
اگر بالرز کی بات کی جائے تو ٹی ٹوئنٹی سیریز کی طرح یہاں بھی حارث رؤف سب سے کامیاب بالر ثابت ہوئے۔ انہوں نے چار میچز میں 25 کی اوسط سے نو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
پاکستان کے شاہین شاہ آفریدی اور نیوزی لینڈ کے میٹ ہنری 8، 8 شکاروں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے جب کہ محمد وسیم اور اسامہ میر چھ چھ وکٹوں کے ساتھ نمایاں رہے۔
حارث رؤف اور اسامہ میر کے سوا کوئی بھی بالر ایک اننگز میں چار یا اس سے زائد کھلاڑیوں کو آؤٹ نہ کر سکا۔
اس وقت بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ کا میلہ سجنے کی وجہ سے اس سیریز میں مہمان ٹیم کے کئی نامور کھلاڑی شریک نہیں ہوئے تھے جن میں وائٹ بال کپتان کین ولیمسن، اوپننگ بلے باز ڈیون کونوے، فن ایلن، آل راؤنڈر لوکی فرگوسن اور بالرز ٹم ساؤتھی اور مچل سینٹنر کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
ان کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں کیویز کا پاکستان کی فل اسٹرینتھ سائیڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز دو دو سے برابر کرنا اور پھر ون ڈے سیریز میں کلین سوئیپ سے بچنے کو بہتر کارکردگی سمجھا جائے گا۔