اسپورٹس

وہ بڑے ‘اپ سیٹ’ جنہوں نے کرکٹ شائقین کو حیران کر دی

Written by Omair Alavi

کراچی — 

ٹیسٹ کرکٹ کو اصل کرکٹ اس لیے نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ سب سے پرانی طرز کی کرکٹ ہے بلکہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہر دن ایک جیسا نہیں رہتا، کبھی کسی ٹیم کا پلڑا بھاری ہوتا ہے تو کبھی کسی اور ٹیم کا۔

آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کی فاتح نیوزی لینڈ کو اس کے ہوم گراؤنڈ میں، ہوم کراؤڈ کے سامنے شکست دے کر جہاں بنگلہ دیش نے تاریخی کامیابی حاصل کی وہیں ان عظیم کامیابیوں میں بھی جگہ بنائی جنہیں کرکٹ کی اصطلاح میں ‘اپ سیٹ’ کہا جاتا ہے۔

سن 1954 میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی فتح ہو یا ویسٹ انڈیز کی ڈان بریڈمین کی آسٹریلیا کو شکست، ہر ٹیم کے حصے میں ایک ایسی کامیابی آئی جس نے انہیں یقین دلایا کہ اگر کھلاڑی متحد ہو کر کھیلیں تو سب کچھ ممکن ہے اور کامیابی صرف اس ٹیم کے قدم چومتی ہے جو اس دن بہادری سے کھیلتی ہے۔

سن 1954 میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی فتح ہو یا ویسٹ انڈیز کی ڈان بریڈمین کی آسٹریلیا کو شکست، ہر ٹیم کے حصے میں ایک ایسی کامیابی آئی جس نے انہیں یقین دلایا کہ اگر کھلاڑی متحد ہو کر کھیلیں تو سب کچھ ممکن ہے اور کامیابی صرف اس ٹیم کے قدم چومتی ہے جو اس دن بہادری سے کھیلتی ہے۔

ایسی ہی چند کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے اس ٹیم کی قسمت بدلی اور اس میں سب سے پہلا میچ وہی ہو گا جس میں پہلی بار کسی میزبان ٹیم کو اپنی ہی سر زمین پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جب مہمان انگلینڈ نے میزبان آسٹریلیا کو شکست دے کر اولین ٹیسٹ سیریز برابر کی

سن 1877 میں جب انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان پہلی ٹیسٹ سیریز کھیلی جا رہی تھی تو نہ اس وقت ٹیموں کو معلوم تھا کہ وہ ‘ٹیسٹ’ میچ کھیل رہے ہیں اور نہ ہی یہ کہ ان میچز کو آگے جا کر وہ اہمیت ملے گی جو انہیں آج ملتی ہے۔

اس وقت دو ممالک سے تعلق رکھنے والی ٹیمیں ایک دوسرے کے مدِمقابل تھیں، چونکہ یہ سیریز آسٹریلیا میں کھیلی جا رہی تھی۔ اس لیے آسٹریلیا کا پلڑا بھاری تھا۔ میزبان ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کا اولین میچ جیت کر اپنی بالادستی تو قائم کر دی تھی، لیکن دوسرا میچ مہمان ٹیم نے جیت کر پہلی مرتبہ ‘اوے ٹیسٹ’ جیتا۔

میلبرن میں کھیلے گئے اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ نہ اس میں کسی کھلاڑی نے سینچری اسکور کی اور نہ ہی کسی بالر نے ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں، لیکن پھر بھی انگلش ٹیم پانچ وکٹوں سے میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔

اس میچ کے اسٹار پرفارمر انگلینڈ کے جارج یولیئٹ رہے جنہوں نے دونوں اننگز میں نصف سینچریاں اسکور کیں جب کہ آسٹریلیا کے ٹام کینڈل اور انگلش کپتان جیمز للی وائٹ اور بالرز ایلن ہل اور جیمز سدرٹن اننگز میں چار چار شکار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس میچ میں کامیابی نے انگلینڈ کو سیریز برابر کرنے کا موقع تو دیا ہی،ساتھ یہ ایک ایسی کہانی بھی شروع کی جسے آگے جا کر ایشز کا نام دیا گیا۔

جب ویسٹ انڈیز نے سر ڈان بریڈمین کی آسٹریلیا کو اپ سیٹ شکست دی

سن 1931 میں آسٹریلیا کی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا تھا جب کہ ویسٹ انڈین ٹیم کو انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھے تین برس ہی ہوئے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان پہلی کرکٹ سیریز میں میزبان آسٹریلیا کو چار صفر کی برتری حاصل تھی جب دونوں ٹیمیں سڈنی میں مدِمقابل ہوئیں۔ اس میچ میں مہمان ٹیم نے آسٹریلیا کو اپ سیٹ شکست دے کر دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا۔

اگر آسٹریلیا کی ٹیم میں سر ڈان بریڈمین تھے تو ویسٹ انڈیز کے پاس بھی ‘بلیک بریڈمین’ جارج ہیڈلی تھے جنہوں نے میچ کی پہلی اننگز میں 105 رنز بنا کر اوپنر فریڈی مارٹن کے ساتھ دوسری وکٹ کی شراکت میں 152 رنز جوڑے۔

میچ کی خاص بات دوسری اننگز میں ہرمین گرفتھ کی چار وکٹیں تھیں جس نے میزبان ٹیم کو 251 رنز کے تعاقب میں 220 تک محدود تو کیا ہی ساتھ ہی ساتھ سر ڈان بریڈمین کو دوسری اننگز میں رنز ہی نہیں بنانے دیے۔

جب انگلینڈ کو پاکستان نے اولین دورے پر شکست سے دو چار کیا

سن 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے پاکستان کو 1952 میں ٹیسٹ اسٹیٹس ملا اور دو سال کے اندر ہی عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ اس دورے پر پاکستان نے چار ٹیسٹ میچز کھیلے اور جہاں اسے ایک میچ میں شکست ہوئی وہیں ایک میں اس نے کامیابی سمیٹی۔

اوول کے مقام پر کھیلا گیا میچ پاکستان کرکٹ کے یادگار میچوں میں سے ایک ہے، جس میں مضبوط انگلش سائیڈ کو ایک ایسی ٹیم نے شکست دی جس کا کچھ سال قبل تک کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ میچ کے ہیرو پاکستانی پیسر فضل محمود رہے جنہوں نے دونوں اننگز میں چھ چھ انگلش بلے بازوں کا شکار کیا۔

چوتھی اننگز میں 168 رنز کے تعاقب میں انگلش ٹیم صرف 143 رنز پر ڈھیر ہو گئی، کپتان لین ہٹن، ڈینس کومپٹن اور گوڈفی ایونز کی موجودگی میں صرف پیٹر مے کا نصف سینچری اسکور کرنا پاکستانی بالرز کی بالادستی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

میچ میں فضل محمود نے مجموعی طور پر 12 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف اولین سیریز ڈرا کر کے دنیائے کرکٹ کو حیرت زدہ کر دیا۔

جب سنیل گواسکر نے سر گیری سوبرز کی ویسٹ انڈیز کو دھول چٹا دی

ایک زمانہ تھا جب ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں جا کر ہرانا کسی ایشیائی ٹیم کے لیے ناممکن تھا۔ لیکن پھر بھارتی ٹیم کو سنیل گواسکر کی شکل میں ایک ایسا بلے باز ملا جس نے چھوٹا قد ہونے کے باوجود دراز قد والوں کے دیس میں اپنا لوہا منوایا۔

کپتان اجیت واڈیکر کی قیادت میں بھارتی ٹیم نے نہ صرف سر گیری سوبرز کی ٹیم کو ٹیسٹ میچ ہرایا بلکہ سیریز میں بھی شکست سے دو چار کیا۔

ا۔پورٹ آف اسپین میں کھیلے گئے میچ میں بھارت نے دلیپ سردیسائی کی سینچری اور نوجوان اوپنر سنیل گواسکر کی دونوں اننگز میں نصف سینچریوں کی بدولت سات وکٹ سے میچ اپنے نام کیا۔

سر گیری سوبرز، روہن کنہائی، روئے فریڈریکس اور کلائیو لائیڈ کی موجودگی میں ویسٹ انڈین ٹیم کی شکست پر جتنے تجزیہ کار حیران تھے، اتنا بھارتی شائقین خوش، ویسٹ انڈین اسپنر جیک نوریئگا کی ایک اننگز میں نو وکٹیں بھی میزبان ٹیم کو شکست سے نہ بچا سکیں۔

بھارت کی فتح میں آف اسپنر سری نواس وینکٹ راگھون کی پانچ وکٹوں کا بھی اہم کردار تھا۔ اس سیریز کے باقی چار میچز ڈرا ہو جانے کی وجہ سے بھارت نے ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں شکست دے کر سیریز کو یادگار بنایا۔

جب نیوزی لینڈ نے طاقت ور آسٹریلین ٹیم کو ان کے گھر میں جا کر ہرایا

مانا کہ سن 1985 میں آسٹریلوی ٹیم تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی تھی، لیکن کپتان ایلن بارڈر، کیپلر ویسلز، ڈیوڈ بون، جیف لاسن اور کریگ مک ڈرمٹ کی موجودگی میں اسے کسی بھی لحاظ سے کمزور نہیں کہا جا سکتا تھا۔

ایسے میں جیریمی کونی کی قیادت میں نیوزی لینڈ کا پڑوسی ملک میں جا کر صرف برسبین ٹیسٹ ہی نہیں بلکہ دو ایک سے سیریز جیتنا کرکٹ شائقین کے لیے حیران کن تھا اور میزبان ملک کے لیے پریشان کن۔

آنجہانی مارٹن کرو کے 188، جان ریڈ کے 108 اور سر رچرڈ ہیڈلی کے 54 رنز نے جہاں کیویز کا اسکور سات وکٹ پر 553 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا وہیں رچرڈ ہیڈلی کی پہلی اننگز میں نو وکٹوں نے میزبان ٹیم کی کمر توڑ دی۔

پہلی اننگز میں تباہی مچانے والے رچرڈ ہیڈلی نے دوسری اننگز میں چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے مجموعی طور پر میچ میں 15 وکٹیں حاصل کیں۔ کپتان ایلن بارڈر کے ناقابلِ شکست 152 اور گریگ میتھیوز کے 115 بھی میزبان ٹیم کو ایک اننگز اور 41 رنز کی شرمناک شکست سے نہ بچا سکے۔

جب ٹیسٹ کرکٹ میں واپس آنے والی جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کے خلاف فتح سمیٹی

سابق بلے باز کیپلر ویسلز نیوزی لینڈ کے خلاف شکست میں آسٹریلوی ٹیم کا تو حصہ تھے ہی۔ لیکن نو سال بعد جنوبی افریقہ کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے آسٹریلیا کو ایک اور اپ سیٹ شکست سے دو چار کیا۔ سڈنی میں کھیلے گئے میچ میں ٹیسٹ کرکٹ میں واپس آنے والی جنوبی افریقی ٹیم نے میزبان ٹیم کو صرف پانچ رنز سے ہرا کر تاریخ رقم کی۔

میچ کے ہیرو فاسٹ بالر فینی ڈی ویلیئرز تھے جو اپنا دوسرا ٹیسٹ کھیل رہے تھے، انہوں نے دوسری اننگز میں چھ اور میچ میں مجموعی طور پر 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے اس کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مائیکل سلیٹر اور ڈیمئین مارٹن کی نصف سینچریاں بھی آسٹریلوی ٹیم کو شکست سے نہ بچا سکیں۔

جب سری لنکا نے نیوزی لینڈ میں ہرا کر دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کی جانب پہلا قدم بڑھایا

نوے کی دہائی میں اگر کسی ٹیم نے اپنی کارکردگی سے شائقین کرکٹ کو اپنا مداح بنایا تو وہ تھی ارجنا راناٹنگا کی سری لنکن ٹیم، کہنے کو تو ان کی دنیائے کرکٹ پر حکمرانی 1996 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی۔ لیکن کرکٹ پر ان کی بالادستی کا آغاز ایک سال قبل ہوا جب انہوں نے نیوزی لینڈ اور پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہوم ٹیم کے ہوم گراؤنڈ ہر جیتی۔

سن 1995 میں میں نیپئر کے مقام پر کھیلے گئے میچ میں چمندا واس کی تباہ کن بالنگ، اور ارجنا راناٹنگا، ارویندا ڈی سلوا، ہشان تلکرتنے اور وکٹ کیپر چمارا دونوسنگھے کی نصف سینچریوں کی بدولت سری لنکا نے میزبان ٹیم کو 241 رنز سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کی۔

اسٹیفن فلیمنگ، مارک گریٹ بیچ، اور ایڈم پرورے کی موجودگی میں کوئی بھی کیوی بلے باز 50 کا ہندسہ تک عبور نہ کر سکا۔

لیفٹ آرم پیسر چمندا واس نے میچ میں مجموعی طور پر 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جب کہ آف اسپنر مرلی دھرن نے بھی دوسری اننگز میں پانچ کھلاڑیوں کا شکار کیا۔

جب اسٹارز سے سجی پاکستان ٹیم کو زمبابوے نے پشاور میں اپ سیٹ شکست دی

نوے کی دہائی میں جہاں پاکستان کی ون ڈے ٹیم نے دو ورلڈ کپ فائنل کھیلے، وہیں ٹیسٹ کرکٹ میں بھی انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو ان کی سرزمین پر شکست دی۔ اسی لیے جب اسٹارز سے لیس پاکستان ٹیم کو زمبابوے کے ہاتھوں پشاور میں شکست ہوئی تو شائقین کو یقین نہ آیا۔

اگر پاکستان کی ٹیم میں اس وقت کے تمام بڑے نام شامل تھے تو زمبابوے کے پاس بھی کم اسٹار پاور نہیں تھی۔ لیکن وسیم اکرم، وقار یونس اور مشتاق احمد کی موجودگی میں نیل جانسن سینچری بنالیں گے اور سعید انور، عامر سہیل، انضمام الحق اور محمد یوسف کی موجودگی میں پاکستان ٹیم 103 رنز پر ڈھیر ہو جائے گی، یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔

سن 1998 میں کھیلے گئے اس میچ میں جہاں سات وکٹ سے فتح نے باقی تمام ٹیموں کو مجبور کیا کہ وہ زمبابو ے کو کمزور نہ سمجھیں وہیں فاسٹ بالر عاقب جاوید کا ٹیسٹ کریئر بھی اس سیریز نے ختم کر دیا۔ انہیں اس سیریز کے بعد ڈراپ کر کے شعیب اختر کو موقع دیا گیا جو آگے جا کر راولپنڈ ی ایکسپریس کے نام سے مشہور ہوئے۔

جب افغانستان نے بنگلہ دیش کو مات دے کر ٹیسٹ کرکٹ میں آمد کا اعلان کیا

ویسے تو بنگلہ دیش نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر تاریخ رقم کی، لیکن دو سال قبل یہی بنگلہ دیشی ٹیم افغانستان کی تاریخ ساز کامیابی کا حصہ تھی۔ سن 2019 میں چٹاگانگ میں کھیلے گئے میچ میں افغانستان نے بنگلہ دیش کو اس کے گھر میں 224 رنز سے شکست دے کر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی آمد کا اعلان کیا۔

اس میچ کے ہیرو افغان کپتان راشد خان تھے جنہوں نے 10 وکٹیں لینے کے ساتھ ساتھ پہلی اننگز میں نصف سینچری اسکور کر کے اپنی آل راؤنڈ صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔

رحمت شاہ کی سینچری، ابراہیم زدران کے 87 اور اصغر افغان کے 92 اور 50 رنز نے اس تاریخی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ یاد رہے بنگلہ دیش کی ٹیم میں زیادہ تر وہی کھلاڑی شامل تھے جو نیوزی لینڈ کے خلاف فتح کا حصہ ہیں۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔