پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، مایہ ناز فاسٹ بالر اور ٹیم کے موجودہ کوچ وقار یونس نے اپنے کیریئر کے دوران کئی ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیجا۔ لیکن گزشتہ دنوں اپنے زمانے کا تیز ترین بالر خود ایک سوشل میڈیا ہیکر کے ہاتھوں کلین بولڈ ہو گیا۔
ایسا کیا ہوا جس نے بورے والا ایکسپریس کو ٹوئٹر جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ چھوڑنے پر مجبور کر دیا؟
چند روز قبل وقار یونس نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سوشل میڈیا کو خیر باد کہنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ وہ اپنی فیملی کی خاطر کر رہے ہیں۔
وقار یونس کے بقول، ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کسی نے ہیک کر کے اس سے نازیبا ویڈیو کو لائیک کیا تھا جس کے بعد وہ سوشل میڈیا کو مذید استعمال کرنا نہیں چاہتے۔
اپنے پیغام میں وقار یونس کا کہنا تھا کہ کہ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ پہلی بار ہیک نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی یہ ‘اللہ کا بندہ’ اسے ہیک کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔
اب تک یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ وقار یونس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کس نے ہیک کیا البتہ ماضی کے بہترین بالر کو اس طرح غمگین دیکھ کر ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کو کافی غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا ہے۔
اسپورٹس جرنلسٹ عالیہ رشید کے مطابق وقار یونس جیسے کھلاڑی کے ساتھ اس قسم کا واقعہ شرمناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز پر ہونے والی اس قسم کی حرکت کا اثر انسان کی نجی زندگی پر پڑتا ہے۔ اس لیے لیجنڈری کھلاڑی کا اس سے دور جانا ہی بہتر فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ وقار یونس کے ساتھ ہوا اور جس طرح انہوں نے ویڈیو شیئر کر کے اپنی صورتِ حال بیان کی، بہت افسوس ناک ہے۔
عالیہ رشید کا مزید کہنا تھا کہ ہیکرز کو یہ سوچنا چاہیے کہ 800 سے زیادہ انٹرنیشنل وکٹیں لینے والا بالر پاکستان کا فخر ہے۔ اس قسم کی حرکتوں سے آپ انہیں سوشل میڈیا سے دور کر رہے ہیں جو کہ بہت ہی بری بات ہے۔
کمنٹری کا میدان ہو یا کرکٹ ٹیم کی کوچنگ۔ سابق کپتان نے ہمیشہ اپنی رائے کا اظہار کھلے الفاظ میں کیا لیکن انہوں نے مشکوک سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے کے بجائے سوشل میڈیا چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اس بارے میں ہم نے رابطہ کیا ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ اور صحافی فریحہ عزیز سے جن کا کہنا ہے کہ ہیکنگ کی صورت میں وقار یونس ٹوئٹر انتظامیہ کے ساتھ ساتھ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے بھی رابطہ کر سکتے تھے۔
‘ہیکنگ کا واقعہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے’
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستان اور بیرونِ ملک میں قوانین موجود ہیں۔
ان کے بقول وقار یونس کے ساتھ ہونے والا واقعہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
فریحہ عزیز نے کہا کہ نازیبا ویڈیو یا برے ٹوئٹس شرمندگی کا باعث بنتے ہیں اور آف لائن بھی اس کا اثر انسان کی زندگی پر پڑتا ہے۔ اگر وقار یونس اکاؤنٹ ڈی ایکٹویٹ کرنے کو ایک بہتر فیصلہ سمجھتے ہیں تو ان کی مرضی ہے۔ تاہم ان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ بنائیں کیونکہ کوئی بھی پلیٹ فارم فول پروف نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا قوانین پر بات کرتے ہوئے فریحہ عزیز نے کہا کہ ‘پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ’ کے تحت متاثرہ شخص اکاونٹ میں مشکوک سرگرمی سے ایف آئی اے کی سائبر کرائم برانچ میں اپنی شکایت درج کرا سکتا ہے۔
ان کے بقول ” اگر اکاوَنٹ ہیک ہوجائے تو کچھ طریقوں سے اسے بازیاب بھی کرایا جاسکتا ہے جیسا کہ ‘ٹو اسٹیپ ویریفکیشن’ وغیرہ۔ ہر کسی کو چاہیے کہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے جتنی زیادہ سیکیورٹی بڑھا سکتے ہیں اپنے اکاونٹس کی وہ بڑھائیں۔ مضبوط پاسورڈ رکھیں، دوسرے کمپیوٹر سے اگر لاگ ان ہوں تو اس کا نوٹی فکیشن آپ کو آ جائے، اسی طرح آپ اپنے اکاؤنٹ کو بچا سکتے ہیں۔”
جیو نیوز سے تعلق رکھنے والے اسپورٹس جرنلسٹ فیضان لاکھانی کا وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیا بھر میں معروف شخصیات کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہمیشہ ‘انڈر دی اسکینر ‘ہوتے ہیں، فینز کی ان پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے اور ان کی ایک ایک ٹوئٹ خبر سمجھی جاتی ہے، ایسے میں وقار یونس کا اکاؤنٹ ہیک ہونا ایک بچگانہ فعل ہے۔
فیضان لاکھانی کے مطابق سوشل میڈیا پر لوگوں کے اکاؤنٹس کا تحفظ صرف پاس ورڈ سے ہی ممکن ہوتا ہے ،ہر شخص کو اپنے اکاؤنٹ کی حفاظت خود کرنی چاہیے۔
ان کے بقول، "ہمارے ہاں ایک ٹرینڈ ہے کہ مشہور لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا تو ان کے مینیجرز دیکھ رہے ہوتے ہیں یا سوشل میڈیا کمپنیز کے متعدد لوگ مل کر اسے چلا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار جس کمپیوٹر سے آپ لاگ ان ہوتے ہیں اس میں وائرس ہونے کی وجہ سے بھی اس قسم کی سرگرمی ہوجاتی ہے۔”
جو کچھ وقار یونس کے ساتھ ہوا، ایسا نہ تو پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی بورے والا ایکسپریس اس ‘سائبر بلیئنگ’ کا شکار ہونے والے آخری پاکستانی ہیں۔ اس سے قبل بھی ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک پر کئی نامور شخصیات کے اکاؤنٹ ہیک ہو چکے ہیں۔