کراچی —
حال ہی میں بھارتی بیڈمنٹن اسٹار سائنہ نہوال کی بائیو پک سنیما گھروں کی زینت بنی ہے۔ اس فلم میں جہاں ایک معمولی علاقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے عالمی نمبر ایک بننے تک کے سفر کو فلمایا گیا ہے وہیں یہ فلم سرحد کے اس پار موجود پاکستانیوں کے لیے بھی ایک سوال چھوڑتی ہے۔
وہ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اسپورٹس لیجنڈز کی کمی نہ ہونے کے باوجود ملک میں ‘اسپورٹس بائیو پک’ کا فقدان کیوں ہے۔
‘لگان ‘اور ‘اقبال’ جیسی اسپورٹس فلموں کی کامیابی کی بعد بالی وڈ نے سال 2010 میں اسپورٹس بائیو پک کی جانب قدم بڑھایا۔ ‘پان سنگھ تومر’، ‘بھاگ ملکھا بھاگ’، ‘میری کوم ‘، ‘ایم ایس دھونی دی ان ٹولڈ اسٹوری’، ‘اظہر’ اور اب ‘سائنہ’۔
بھارت کی مذکورہ ہر فلم میں مقامی ہیرو کو ایک سپر ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جس کے لیے دنیا فتح کرنا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں آج تک صرف ایک ہی اسپورٹس بائیو پک ‘شاہ’ بنی ہے جو سن 1988 کے اولمپک مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے سید حسین شاہ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔
دو ہزار پندرہ میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے ہدایت کار عدنان سرور تھے اور انہوں نے ہی اس میں مرکزی کردار بھی نبھایا تھا۔ تاہم فلم باکس آفس پر توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔
عدنان سرور ان دنوں ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لیے اسپورٹس سیریز ‘بارہواں کھلاڑی’ پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فلمیں تو بنتی ہیں لیکن یہاں فلم انڈسٹری نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ جس ملک میں سال میں 10 سے 12 فلمیں بنتی ہوں، وہاں اسپورٹس فلم اور بائیو پکس کے آئیڈیاز اسکرپٹ کے مرحلے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
ان کے بقول، ‘پاکستان میں دُھوم دھڑاکا، معمولی ایکشن یا کامیڈی فلموں کو زیادہ اہمیت ملتی ہے۔ لیکن ہر شخص کی اپنی پسند ہوتی ہے اور یہ میری پسند ہے کہ میں کم بجٹ کی فلمیں بناتا ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘باکس آفس پر اسپورٹس بائیو پک طرز کی فلموں کے ریکارڈ نہ بننے کی وجہ سے انہیں وہ پذیرائی نہیں مل پاتی جس کی وہ حق دار ہوتی ہیں’۔
پاکستان میں اسپورٹس بائیو پکس نہ بننے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ لالی وڈ کے فلم ساز شاید رومانوی یا کامیڈی فلم کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اسپورٹس بائیو پک کا خطرہ نہیں لیتے۔
عدنان سرور نے کہا کہ اگر پاکستان میں کوئی ‘دنگل’ جیسی فلم بنائے یا پھر ‘طوفان’ جیسا تجربہ کرے تو انہیں خوشی ہو گی لیکن ابھی ہم شناخت ہی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں اسپورٹس بائیو پک بننا اتنا مشکل کیوں؟
پاکستان میں بیشتر گھرانوں میں کرکٹ کے شوقین مل جائیں گے لیکن اسپورٹس سے متعلق صرف ایک ہی فلم ‘میں ہوں شاہد آفریدی’ کے نام سے بنی ہے۔
‘میں ہوں شاہد آفریدی’ پاکستان کی فلمی تاریخ کی پہلی فلم ہے جو 2013 میں ریلیز ہوئی تھی جس کے دو برس بعد بائیو پک ‘شاہ’ ریلیز ہوئی تھی۔
لالی وڈ کی پہلی اسپورٹس فلم کی کاسٹ میں ہمایوں سعید، ماہ نور بلوچ، جاوید شیخ، ندیم بیگ، حمزہ علی عباسی اور نعمان حبیب جیسے اداکار شامل تھے۔ فلم کی ہدایت کاری سید علی رضا اسامہ نے دی تھی جب کہ اسے واسع چوہدری نے تحریر کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے واسع چوہدری کہتے ہیں اسپورٹس فلموں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے، شاید اسی وجہ سے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔
ان کے بقول اسپورٹس بائیو پک بہت مہنگی پڑتی ہیں جس کے لیے اتنا کراؤڈ اور سیٹ دکھانا، کسی بھی پروڈکشن ٹیم کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے پروڈیوسرز اس جانب نہیں جاتے۔
دوسری جانب معروف ہدایت کار اور فلم ‘مور’ کے ڈائریکٹر جمشید محمود جامی نے سن 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے بارے میں فلم بنانے کی کوشش تو کی لیکن یہ فلم شوٹنگ سے پہلے ہی دم توڑ گئی تھی۔
وی او اے سے گفتگو میں جامی نے بتایا کہ جب اسپانسرز ہی اہم فلموں سے دور بھاگیں گے تو تاریخ کی یہ کامیاب کہانیاں فلموں کی ناکام کہانیاں ہی بن جائیں گی۔
جامی کے بقول جب تک حکومتِ پاکستان کرکٹ کے سوا دیگر کھیلوں میں فنڈز تقسیم نہیں کرے گی اور ایسا نظام نہیں بنائے گی جس سے صوبائی سطح پر، فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز میں سمجھ دار لوگ آئیں یہ نظام کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سائیکلنگ، فٹ بال، باکسنگ جیسے کھیلوں کی نچلی سطح پر بے تحاشہ کہاںیاں ہیں۔ جب تک انہیں سامنے نہیں لایا جائے گا یہ باتیں صرف ایلیٹ (اشرافیہ) طبقوں میں ہوتی رہیں گی۔
جامی کہتے ہیں کہ ‘پاکستان میں اسپورٹس کی فلمیں بنانا ایک مایوس کن عمل رہ گیا ہے کیوں کہ ہر مرتبہ یہ رونا پیٹنا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس یہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم اسپورٹس میں کامیاب کہانیاں رکھنے کے باوجود بھی ناکام ہیں، 1992 کے ورلڈ کپ پر بننے والی فلم کا انجام بھی کچھ یہی ہوا۔ جب بجٹ درکار تھا تو سب نے ہاتھ اٹھا لیے اور کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ لہٰذا ایسے میں لوگوں میں اسپورٹس فلمیں بنانے کا شوق کس طرح پیدا ہوگا۔’
جہانگیر خان سے عبدالخالق، ہر کھلاڑی کی کہانی کسی فلم سے کم نہیں!
پاکستان نے دنیائے کھیل کو کچھ تو ایسے کھلاڑی دیے ہیں جن کی اپنی کہانیاں کسی فلم سے کم نہیں۔ اسکواش کورٹ کے بے تاج بادشاہ جہانگیر خان نے 1980 کی دہائی میں مسلسل 555 میچز جیت کر جو ریکارڈ بنایا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی طورسم خان کی 1979 میں اسکواش کورٹ میں موت کے بعد کھیل کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا تھا؟ یا پھر ان کا ٹریننگ پروگرام کیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے زیادہ میچز جیتے اور کم میچز میں انہیں شکست ہوئی؟ یہ سب کچھ اور بہت کچھ ان کی بائیو پک میں بہتر انداز میں دکھایا جاسکتا ہے، لیکن اگر کوئی ہمت کرے تو!
دوسری جانب ٹریک اسٹار عبدالخالق تھے جنہیں ‘ایشیا کا تیز ترین اسٹار’ کہا جاتا تھا۔ وہ بھارت کے ملکھا سنگھ سے بھی تیز تھے لیکن بالی وڈ نے اپنے اسٹار پر فلم بنانے میں تیزی دکھائی لیکن لالی وڈ آج بھی اسٹارٹنگ لائن پر ہے۔
‘بھاگ ملکھا بھاگ’ میں عبدالخالق کے کردار کو آخر میں ایک ولن کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن اصل میں یہ وہی کھلاڑی تھا جو ‘بھاگ ملکھا بھاگ’ کی صدا لگاتا تھا اور اگر ریلے ریس میں اس کے ‘مخالف’ کو آنے میں دیر ہوجائے تو اس کا انتظار کرتا تھا۔
سن 1950 اور 60 کی دہائی میں عبدالخالق نے عالمی سطح پر 36 سونے، 15 چاندی اور 12 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے۔ بھارت کے سابق وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے انہیں ‘دی فلائنگ برڈ آف ایشیا’ کا خطاب بھی دیا تھا۔ 1954 کے ایشین گیمز کے دوران انہوں نے بھارت کے لاوی پنٹو کا 10 اعشاریہ آٹھ سیکنڈ کا ریکارڈ توڑ کر نیا 10 اعشاریہ چھ سیکنڈ کا ریکارڈ بھی بنایا تھا۔
وہ پاکستانی کھلاڑی جن پر فلم بن سکتی ہے
دنیا میں کتنے ایسے کرکٹرز گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کریئر کا بھیانک آغاز کیا۔ پھر محنت سے آل راؤنڈر بنے، پھر ورلڈ کپ میں شکست کے بعد ریٹائر ہوئے لیکن واپس آکر اگلا ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوئے؟
یہ کہانی عمران خان کی ہے جنہوں نے 1992 میں کھیلے گئے کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد کینسر اسپتال بنایا، ایک برطانوی خاتون سے شادی کی، سیاست میں قدم رکھا اور آج پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں۔
ان کی زندگی پر ایک فلم بن تو رہی تھی لیکن وہ مکمل ہو گی یا نہیں اس بارے میں شاید فلم بنانے والوں کو بھی اندازہ نہیں۔
دوسری جانب 1992 ورلڈ کپ میں ٹیم کے نائب کپتان جاوید میانداد ہیں، جنہوں نے شارجہ میں آخری گیند پر چھکا مار کر بھارت کو شکست سے دوچار کیا تھا۔
ان کی بائیو پک میں بہت کچھ بتایا جاسکتا ہے جو ان کی سوانح حیات میں موجود نہیں، جیسے کہ ‘سنگل ڈبل’ سے ان کی محبت، بھارت سے ان کی نفرت کی وجہ، اپنے کریئر کے دوران بغاوت کا سامنا اور سب سے بڑھ کر گلی محلے کی کرکٹ کا وہ تجربہ جس نے انہیں دنیا کا بہترین کھلاڑی بنایا۔
اسی طرح شاہد آفریدی ہیں جو جتنے مشہور تھے اتنے ہی متنازع بھی تھے۔ ‘بوم بوم’ کے نام سے دنیا میں مقبول اس کرکٹر نے 16 برس کی عمر میں تیز ترین سینچری بنائی۔ آسٹریلوی سر زمین پر پاکستان کو تین ملکی سیریز میں کامیابی بھی دلوائی لیکن پھر اسی آسٹریلیا میں میچ کے دوران گیند بھی چبائی۔
تماشائی کی بیٹ سے پٹائی سے لے کر شعیب اختر اور محمد آصف کے درمیان لڑائی تک۔ شاہد آفریدی نے آن دی فیلڈ اور آف دی فیلڈ کئی ایسے ‘کارنامے’ سر انجام دیے جنہیں یاد کر کے تعجب ہوتا ہے۔
لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کی کپتانی سے استعفیٰ دینا تھا جس کا ذکر وہ اپنی سوانح حیات میں کر چکے ہیں۔
جس طرح ہالی وڈ اسپورٹس کامیڈی فلم ‘مسٹر 3000’ میں برنی میک کا کردار جو صرف دو ہوم رنز کے لیے برسوں بعد کم بیک کرتا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر بھی تیز ترین گیند کا ریکارڈ واپس حاصل کرنے کے لیے فلم میں کم بیک کر سکتے ہیں، آخر ان دونوں کرداروں میں کافی مشابہت ہے۔
ہاکی پر راج کرنے والے پاکستانی کھلاڑیوں پر بائیو بک تو بنتی ہے!
پاکستان ہاکی ٹیم میں چند ہی ایسے کھلاڑی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی سوانح حیات لکھی ہو۔ اصلاح االدین نے اپنی زندگی کے اہم واقعات اپنی بائیو گرافی ‘ڈیش تھرو مائی لائف’ میں درج کیے ہیں اور کسی بھی ہدایت کار کے لیے انہیں فلمی پردے تک لانا کوئی مسئلہ نہیں۔
اصلاح الدین کی کہانی میں وہ سب کچھ ہے جو ایک ‘فلم’ میں ہونا چاہیے۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے انہیں 1968 اولمپکس کے اسکواڈ سے باہر کیا گیا اور ٹیم نے سونے کا تمغہ جیتا۔ انہوں نے بعد میں 1972 میں چاندی اور 1976 میں کانسی کا تمغہ تو جیتا لیکن اولمپک گولڈ کبھی سینے پر نہیں سجا سکے۔
انہیں کامیاب کریئر کے دوران کپتانی سے ہٹانا ہو، 1992 میں ان کی کوچنگ کے دوران اولمپک گیمز میں ٹیم کی تیسری پوزیشن لینا ہو یا پھر ان کی تیز رفتاری اور اس کے پیچھے چھپا راز۔ اصلاح الدین کی کہانی پر فلم بنا کر پاکستان ہاکی کی خدمت بھی کی جاسکتی ہے اور کھیل میں ایک نئی جان بھی ڈالی جاسکتی ہے۔
اگر عبدالخالق کو ‘فلائنگ برڈ’ کا خطاب ملا تھا تو سمیع اللہ کو ‘فلائنگ ہارس’ کہتے تھے۔ ان کی تیز رفتاری کی وجہ سے سن 1972 میں ان کا انٹرنیشنل ڈیبیو اس وقت ہوا تھا جب پاکستان ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں پر اولمپک پوڈیم پر احتجاج کی وجہ سے ‘پابندی’ لگا دی گئی تھی۔
لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمیع اللہ نے ہاکی کی دنیا میں جو مقام بنایا وہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی، ایشین گیمز، شاید ہی کوئی ایسی ٹرافی ہو جو سمیع اللہ نے نہ اٹھائی ہو۔ اپنے سابق کپتان اصلاح الدین کی طرح ان کے کریئر کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ اولمپک گیمز میں سونے کا تمغہ نہیں جیت سکے لیکن 1976 میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی ٹیم کا وہ حصہ ضرور تھے۔ 1980 میں پاکستان کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کے چار سال ضائع ہوئے،اور جب پاکستان نے 1984 میں اولمپک گیمز میں میڈل جیتا تو سمیع اللہ لاس اینجلس میں وہیں تھے، لیکن تب وہ ایک سابق کھلاڑی، مبصر اور اولمپیئن ہوچکے تھے۔
شہبار احمد سینئر کی کہانی بھی کسی ‘ریونج’ فلم سے کم نہیں۔ 1990 کے ورلڈ کپ فائنل میں مقامی کراؤڈ کے سامنے شکست کے بعد کس طرح انہوں نے چار سال میں ٹیم کو ورلڈ چیمپئن بنایا۔
بعد ازاں حکام بالا کے خلاف بغاوت کی اور کریئر کے اواخر میں جب بھارت کھیلنے گئے تو ان کا کیسا استقبال ہوا، یہ سب کچھ اور بہت کچھ ان کی بائیو پک کا حصہ ہوسکتا ہے۔