اسپورٹس

ورلڈکپ کے وہ مقابلے جن کے نتائج شائقین کے لیے حیران کن ثابت ہوئے

Written by ceditor

کراچی — 

پانچ اکتوبر سے بھارت میں شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں دنیا کی دس بہترین ٹیمیں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوں گی اور ہر ٹیم کی کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ میچز جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرے۔

ایسے میں اپ سیٹ شکست کا کردار کسی بھی ٹیم کو آگے بڑھانے میں سب سے زیادہ اہم ہوگا۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ اپ سیٹ شکستوں کی وجہ سے بڑی بڑی ٹیموں کا ایونٹ میں سفر ختم ہوا اور اس بار بھی بیٹنگ وکٹوں پر اس بات کے امکانات موجود ہیں۔

کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں ایسے میچزپر نظر ڈالتے ہیں جن کے نتائج کا اندازہ نہ تو ہارنے والی ٹیم کو تھا اور نہ ہی شائقین کو، لیکن جیتنے والی ٹیم اس کے لیے پرامید ضرور تھی۔

1۔ بنگلہ دیش بمقابلہ جنوبی افریقہ (2019)

چار سال قبل کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقی ٹیم کو بنگلہ دیش کے ہاتھوں 21 رنز سے اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایونٹ کے پانچویں میچ میں اوول کے تاریخی مقام پر بنگلہ دیش نے شکیب الحسن اور مشفق الرحیم کی نصف سینچریوں کی مدد سے چھ وکٹ پر 330 رنز بنائے تھے۔

ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقی ٹیم 50 اوورز میں آٹھ وکٹ پر صرف 309 رنز بناسکی تھی۔ کپتان فاف ڈوپلیسی کے 62 رنز بھی ان کی ٹیم کے کام نہ آسکے۔

2۔آئرلینڈبمقابلہ انگلینڈ (2011)

آئرلینڈ نے 2011 کے ورلڈ کپ میں اینڈریو اسٹراس کی انگلش ٹیم کو شکست دے کر اپ سیٹ کردیا تھا۔

انگلینڈ نے جوناتھن ٹروٹ کے 92، این بیل کے 81 اور کیون پیٹرسن کے 59 رنز کی بدولت آٹھ وکٹ پر 327 رنز بنائے تھے، جسے آئرلینڈ نے آخری اوور میں سات وکٹ کے نقصان پر حاصل کرلیا تھا۔

اس میچ کی خاص بات کیون او برائن کی ریکارڈ تیز ترین سینچری تھی جو انہوں نے صرف 50 گیندوں پر اسکور کی تھی۔ انہوں نے صرف 63 گیندوں پر 113 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی جس میں چھ چھکوں کے ساتھ ساتھ 13 چوکے بھی شامل تھے۔

3۔ آئرلینڈ بمقابلہ پاکستان (2007)

نوے کی دہائی میں دو بار فائنل میں پہنچنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے اگلے دونوں ورلڈ کپ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھے جس میں وہ دوسرے راؤنڈ میں بھی جگہ نہ بناسکی۔

سن 2007 کے ورلڈ کپ میں آئرلینڈ نے اس وقت تاریخ رقم کی جب اس نے انضمام الحق کی قیادت والی گرین شرٹس کو تین وکٹ سے شکست دے کر ایونٹ سے باہر کردیا تھا۔

میچ میں آئرش بالرز کے سامنے پہلے پوری پاکستانی ٹیم 132 رنز پر ڈھیر ہوئی، اس کے بعد آئرش بلے بازوں نے ہدف سات وکٹ کے نقصان پر حاصل کیا۔

اسی میچ کے بعد پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ باب وولمر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔

4۔بنگلہ دیش بمقابلہ بھارت (2007)

اس ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش نے بھی اسٹارز سے بھری بھارتی ٹیم کو اپ سیٹ شکست دے کر ایونٹ سے باہر کردیا تھا اور خود دوسرے راؤنڈ میں جگہ بنالی تھی۔

پورٹ آف اسپین میں ہونے والے میچ میں بنگلہ دیشی بالرز نے بھارتی ٹیم کو 191 رنز پر آؤٹ کیا، اور اس کے بعد 49ویں اوور میں ہدف حاصل کیا تھا۔

سارو گنگولی کے 66 اور یوراج سنگھ کے 47 رنز بھی بھارتی ٹیم کو شکست سے نہ بچاسکی۔ بنگلہ دیش کی جانب سے مشرفی مرتضی نے چار اور محمد رفیق نے تین وکٹیں حاصل کیں۔

تمیم اقبال، شکیب الحسن اور مشفق الرحیم کی نصف سینچریو ں نے بھی بنگلہ دیش کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

5۔کینیا بمقابلہ سری لنکا (2003)

سال 2003 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے کینیا کی ٹیم نے متاثر کن پرفارمنس دکھائی لیکن سابق چیمپئنز سری لنکا کو 53 رنز سے ہرانا ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔

نیروبی جم خانہ میں ہونے والے اس میچ میں کینیا نے 211 رنز کے ہدف کا بہترین انداز میں دفاع کیا۔ کولنز ابویا کی پانچ وکٹوں کی بدولت میزبان ٹیم سری لنکا کو 157 رنز پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئی۔

اس شکست کے باوجود سری لنکا نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی جہاں اسے آسٹریلیا نے شکست دی جب کہ کینیا کو دوسرے سیمی فائنل میں بھارت نے زیر کرکے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔

6۔بنگلہ دیش بمقابلہ پاکستان (1999)

اسی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کی ٹیم نے پاکستان کو بھی اپ سیٹ شکست سے دوچار کیا تھا جس کے بعد انہیں بھی ٹیسٹ اسٹیٹس کے لیے موزوں سمجھ لیا گیا تھا۔

نارتھ ہیمپٹن میں کھیلے گئے میچ میں بنگلہ دیش نے نو وکٹ پر 223 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں پاکستان کی ٹیم صرف 161 رنز ہی بناسکی تھی۔

بنگلہ دیشی بالر خالد محمود نے اس کامیابی میں سب سے اہم کردار ادا کیا، انہوں نے صرف 21 رنز کے عوض شاہد آفریدی، انضمام الحق اور سلیم ملک کو واپس پویلین بھیجا، جب کہ فیلڈرز نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

7۔زمبابوے بمقابلہ جنوبی افریقہ (1999)

سال 1999 کا کرکٹ ورلڈ کپ زمبابوے کے لیے یادگار رہا، جس نے شاندار کھیل پیش کرکے پہلی مرتبہ اگلے مرحلے میں جگہ بنائی۔

سپر سکس کے اہم میچ میں زمبابوے نے جنوبی افریقہ کو 48 رنز سے شکست دے کر اپ سیٹ کا سلسلہ جاری رکھا، اس سے پہلے وہ بھارتی ٹیم کو بھی ایونٹ میں شکست دے چکے تھے۔

زمبابوے کی جیت کی خاص بات آل راؤنڈر نیل جانسن کی شاندار پرفارمنس تھی جس نے بیٹنگ و بالنگ دونوں کا آغاز بھی کیا اور نصف سینچری بنانے کے ساتھ ساتھ تین وکٹیں بھی حاصل کیں۔

8۔کینیا بمقابلہ ویسٹ انڈیز (1996)

ورلڈ کپ کے چھٹے ایڈیشن کی میزبانی پاکستان، بھارت اور سری لنکا نےمشترکہ طور پر کی تھی لیکن کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس میں دو بار کی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو نووارد کینیا کےہاتھوں شکست ہوگی۔

بھارتی شہر پونا میں کھیلے گئے میچ میں ویسٹ انڈیز نے کینیا کو 166 رنز پر آؤٹ کردیاتھا لیکن جواب میں کینیا کی ٹیم نے ایسی مزاحمت کی کہ رچی رچرڈسن سمیت تمام ویسٹ انڈین بلے باز حیران ہوگئے۔

برائن لارا، شیونارائن چندرپال اور جمی ایڈمز کی موجودگی میں کینیا کی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو صرف 93 رنز پر آؤٹ کرکے اپ سیٹ شکست دی۔

کینیا کی جانب سے رجب علی اور موریس اوڈمبے تین تین وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بالر رہے۔

9۔زمبابوے بمقابلہ انگلینڈ (1992)

زمبابوے کی ٹیم نے اپ سیٹ کے سلسلے کو 1992 میں بھی جاری رکھا اور فائنل میں جگہ بنانے والی انگلینڈ کو شکست دے کر سب کو حیران کردیا تھا۔

انگلش ٹیم کی قیادت گراہم گوچ کررہے تھے اور اس میں این بوتھم، ایلک اسٹورٹ، اور گریم ہک جیسے کھلاڑی موجود تھے، لیکن ایلبری کے مقام پر زمبابوین بالر ایڈو برینڈز کے سامنے کوئی بھی نہ چل سکا۔

دائیں ہاتھ سے میڈیم پیس گیند کرنے والے برینڈیز نے 21 رنز دے کرچار وکٹیں حاصل کیں۔

اس فتح سے انگلینڈ کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا البتہ زمبابوے کو ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے کے چانس بڑھ گئے اور اسی سال اکتوبر میں انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔

10۔ زمبابوے بمقابلہ آسٹریلیا (1983)

ورلڈ کپ کرکٹ کا سب سے پہلا اپ سیٹ 1983 کے ایڈیشن میں اس وقت سامنے آیا جب اسٹارز سے بھری آسٹریلوی ٹیم کو نووارد زمبابوے نے شکست دے دی۔

انگلینڈ کے شہر ناٹنگھم میں کھیلے گئے میچ میں کپتان ڈنکن فلیچر کی آل راؤنڈ کارکردگی کی وجہ سے زمبابوے نے اس ٹیم کو شکست دی جس میں ایلن بارڈر، ، ڈینس للی، اور جیف تھامسن موجود تھے۔

زمبابوین قائد نے پہلے 69 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر ٹیم کا اسکور 239 تک پہنچایا۔ اس کے بعد صرف 42 رنز دے کر 4 آسٹریلوی بلے بازوں کو واپس پویلین بھیجا۔

بعد میں اسی ڈنکن فلیچر نے نوے کی دہائی کے آخر میں انگلینڈ کے کوچ کا چارج سنبھالا اور آسٹریلیا کو ٹف ٹائم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

عمیر علوی – وائس آف امریکا

About the author

ceditor