کراچی —
سیاہ فام اداکاروں نے ہالی وڈ میں کیسے جگہ بنائی، یہ تو آپ نے ہمارے گزشتہ مضمون میں جان ہی لیا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہالی وڈ میں پہلی سیاہ فام اداکارہ کو اکیڈمی ایوارڈ مرد سیاہ فام اداکار سے 24 سال پہلے ملا تھا؟ اور اکیڈمی ایوارڈز کے لیے پہلے سیاہ فام بہترین اداکارہ نامزد ہوئی تھی اور اس کے چار سال بعد سیاہ فام اداکار۔
سڈنی پوٹیے 1958 میں آسکر کی دوڑ میں آنے والے پہلے سیاہ فام امریکی اداکار تھے اور انہیں آسکر پانچ سال بعد 1963 میں ‘للیز آف دی فیلڈ’ میں بہترین اداکاری پر ملا تھا۔ لیکن ان سے قبل 1939 میں ہیٹی مک ڈینیل ‘گون ود دے ونڈ’ پر بہترین معاون اداکارہ کے لیے نہ صرف نامزد ہو چکی تھیں بلکہ اولیویا ڈی ہیولینڈ جیسی مضبوط امیدوار کے سامنے ایوارڈ جیتنے میں کامیاب بھی رہی تھیں۔
بہترین اداکارہ کی کیٹیگری میں نامزد ہونے والے پہلی سیاہ فام اداکارہ ڈوروتھی ڈیرڈرج تھیں جو 1954 میں ‘کار مین جونز’ نامی فلم میں ٹائٹل رول نبھانے کی وجہ سے نامزد ہوئی تھیں۔
ویسے تو ہالی وڈ کی تاریخ میں سیاہ فام اداکاروں نے زیادہ آسکرز جیتے ہیں، لیکن سیاہ فام اداکاراؤں کی جدوجہد اس لیے زیادہ مشکل تھی کیوں کہ "گوروں” کی دنیا میں ان کے لیے مقام بنانا زیادہ مشکل تھا۔
آسکرز کی 92 سالہ تاریخ میں آج تک بہترین اداکارہ کا ایوارڈ صرف ایک سیاہ فام اداکارہ کو ہی ملا ہے۔ لیکن اس ایوارڈ تک پہنچنے میں کئی اداکاراؤں کی محنت شامل ہے۔ ان میں سے کئی آسکرز کے لیے نامزد ہوئیں، کئی نے معاون اداکارہ کا آسکر جیتا اور کئی کی کوششوں نے آنے والوں کے لیے آسکرز تک رسائی کو آسان بنایا۔ آئیے ایسی ہی کچھ تاریخ ساز اداکاراؤں کے کریئر پر نظر ڈالتے ہیں:
ہیٹی مک ڈینئل (1893 – 1952)
ہالی وڈ میں سیاہ فام اداکاراؤں کی تاریخ ہیٹی مک ڈینئل کے بغیر ادھوری ہے۔ نہ صرف وہ امریکی ریڈیو پر اپنی آواز کا جادو جگانے والی پہلی سیاہ فام گلوکارہ تھیں بلکہ انہوں نے ہالی وڈ میں تقریباً 300 کے قریب فلموں میں کام کیا۔ لیکن معمولی کردار ادا کرنے کی وجہ سے ان کا نام صرف 83 فلموں میں ہی نظر آیا۔ لیکن بہترین معاون اداکارہ کے آسکر کے ساتھ ان کی شان میں جو اضافہ ہوا وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے۔
اپنے زمانے کی مشہور ترین فلم ‘گون ود دے ونڈ’ میں ملازمہ میمی کا کردار ادا کرنے پر ان کو اس وقت کی مقبول ترین اداکارہ اولیویا ڈی ہیولینڈ کی جگہ آسکر کے قابل سمجھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان جیسے سیاہ فام لڑکے اور لڑکیوں کو یقین ہوگیا کہ ہالی وڈ میں ان کا نمبر بھی آسکتا ہے۔
لیکن مک ڈینئیل کو یہ کامیابی بڑی جدوجہد کے بعد ملی۔ وہ نسلی امتیاز کی وجہ سے نہ صرف ‘گون ود دے ونڈ’ کے پریمئیر میں شرکت سے محروم رہیں بلکہ فلم کی شان دار کامیابی کے باوجود بھی انہیں آئندہ کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں ملا۔
جس وقت انہوں نے تاریخ رقم کی، ان کی عمر 45 سال تھی۔ ان کا انتقال 59 سال کی عمر میں ہوا۔ انہیں ‘ہالی وڈ واک آف فیم’ میں جگہ بھی ملی اور امریکی حکومت نے ان کے اعزاز میں 2006 میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
نینا مے مک کنی (1912 – 1967)
نینا مے مک کنی کا شمار ہالی وڈ کی خوب صورت ترین اداکاراؤں میں ہوتا تھا۔ اس سے قطعِ نظر کہ وہ سیاہ فام تھیں اور اس زمانے میں سیاہ فام فن کاروں کو مرکزی رول نہیں ملتے تھے، نینا نے نہ صرف اپنی خوب صورتی اور اپنی اداکاری سے شائقین کے دلوں میں جگہ بنائی بلکہ وہ برطانوی ٹی وی پرکام کرنے والی پہلی امریکی سیاہ فام اداکارہ بھی بنیں۔
سن 1929 میں فلم ‘ہیلے لویا’ میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کرکے ہالی وڈ میں تہلکہ مچا دیا۔ فلم کے ہدایت کار کنگ ویڈور کو بہترین ہدایت کار کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا اور انہوں نے مک کنی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔
یوں تو یہ فلم صرف سیاہ فام شائقین کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن اس کی کامیابی نے نینا کے لیے ہالی وڈ میں دروازے کھول دیے۔ اس کے بعد انہیں مشہور اسٹوڈیو ‘ایم جی ایم’ کے ساتھ پانچ سالہ معاہدے کی پیش کش ہوئی اور وہ یہ معاہدہ کرنے والی پہلی سیاہ فام اداکارہ بنیں۔
اسی عرصے میں ہالی وڈ میں سیاہ فام اداکاراؤں کے لیے مرکزی کرداروں کی کمی نے انہیں یورپ کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا جہاں انہیں ٹی وی، اسٹیج اور فلموں میں کام تو ملا، لیکن خاطر خواہ پذیرائی نہیں مل سکی۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد انہوں نے یونان میں سکونت اختیار کرلی اور 1960 میں واپس امریکہ کا رخ کیا۔ لیکن صرف سات سال بعد ‘بلیک مووی گوڈیس’ کے لقب سے پہچانی جانے والی اس اداکارہ کا 54 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔
ڈوروتھی ڈینڈرج (1922 – 1965)
جس زمانے میں نسلی امتیاز کا شکار سیاہ فام اداکاروں کو ہالی وڈ میں ملازمین اور ایسے ہی چھوٹے کرداروں کے قابل سمجھا جاتا تھا، اسی زمانے میں ایک ایسا ستارہ ہالی وڈ کے افق پر چمکا کہ سب دنگ رہ گئے۔ اس ستارے کا نام تھا ڈوروتھی ڈینڈرج۔
ان کی خوب صورتی کے چرچے دنیا بھر میں ایسے ہی ہوئے جیسے اس زمانے کی دیگر سفید فام ہالی وڈ اداکاراؤں کے ہوتے تھے۔
مارلن منرو سے پہلے اگر کسی کو ہالی وڈ میں سب سے دلکش تصور کیا جاتا تھا تو وہ ڈوروتھی ڈینڈرج تھیں۔ وہ ‘لائف’ میگزین کے سرورق پر شائع ہونے والی پہلی سیاہ فام اداکارہ بھی تھیں۔
چالیس اور 50 کی دہائی میں انہوں نے ہالی وڈ کی صفِ اول کی فلموں میں چھوٹے چھوٹے رولز سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ لیکن شائقین کی پسندیدگی کی وجہ سے انہیں پروڈیوسرز فلموں میں کاسٹ کرتے رہے۔
سن 1950 کے آغاز میں انہوں نے فلموں کو چھوڑ کر نائٹ کلبز میں گلوکاری شروع کردی تھی اور اس میں بھی خوب نام کمایا۔ اسی وجہ سے فلم ‘کارمین جونز’ میں انہیں سنگر کا مرکزی رول بھی ملا۔
جب 1954 میں فلم کامیاب ہوئی تو آسکر کے لیے بہترین اداکارہ کی کیٹیگری میں انہیں نامزد بھی کیا گیا۔ حیران کن طور پر اس فلم میں انہوں نے کسی اور کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے گانے پر پرفارم کیا تھا۔ حالاں کہ وہ خود بھی ایک کمال کی گلوکارہ تھیں۔
بعد میں فلموں اور نجی زندگی کے حوالے سے ان کے متنازع فیصلوں کی وجہ سے ان کا کریئر اوپر جانے کے بجائے نیچے جانے لگا۔ ‘آئی لینڈ ان دی سن’ اور ‘پورگی اینڈ بیس’ میں ان کی اداکاری کو لوگوں نے پسند کیا۔ جب صرف 42 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو ان کی موت پر ہالی وڈ میں باقاعدہ سوگ کا سا سماں تھا۔
جاتے جاتے بھی وہ 1960 کی دہائی میں پیدا ہونے والی اداکاراؤں کو ایسا متاثر کرگئیں کہ جیڈا پنکٹ اسمتھ، ہیلے بیری، جینٹ جیکسن اور اینجلا بیسیٹ بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں۔
ووپی گولڈبرگ (1955)
اور اب آتے ہیں سیاہ فام اداکاراؤں کے لیے تاریخ ساز سمجھی جانے والی دہائی 1980 میں جہاں ووپی گولڈبرگ جیسی اداکارہ نے ہالی وڈ کے افق پر قدم رکھا۔ اپنی پہلی ہی فلم ‘دے کلر پرپل’ میں اداکاری کے جوہر دکھا کر وہ سیدھا بہترین اداکارہ کی آسکر کیٹیگری میں وارد ہوگئیں۔
اسی فلم میں ان کی ساتھی اداکارہ اوپرا ونفری اور مارگریٹ ایوری نے بھی بہترین کارکردگی دکھائی۔ فلم کو اکیڈمی ایوارڈز میں 11 کیٹگریز میں نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن ایوارڈ ایک بھی نہیں ملا۔
لیکن آج 35 سال بعد بھی اسٹیون اسپل برگ کی اس آف بیٹ فلم کو جو مقام سیاہ فام فلموں کی تاریخ میں حاصل ہے، وہ کسی اور فلم کو نہیں۔
ٹھیک پانچ سال بعد ایوارڈ نہ ملنے کا ازالہ ووپی گولڈ برگ نے فلم ‘گھوسٹ’ کے ذریعے کیا۔ فلم میں مرکزی کردار ڈیمی مور اور پیٹرک سوائیزی نے نبھایا تھا۔ لیکن ووپی گولڈ برگ کے ایک ایسی خاتون کا کردار نے جو بھوتوں سے ہم کلام ہوسکتی ہے، سب کے دل جیت لیے اور انہیں بہترین معاون اداکارہ کے آسکر سے نوازا گیا۔
ان کا ایوارڈ جیتنا اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب ہیٹی مک ڈینیل کے بعد کسی سیاہ فام اداکارہ نے اکیڈمی ایوارڈ جیتا تھا۔
اس وقت ووپی گولڈ برگ کا شمار دنیا کے ان 16 فن کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کریئر کے دوران اکیڈمی ایوارڈ، ایمی ایوارڈ، گریمی ایوارڈ اور ٹونی ایوارڈ جیتے۔ یہ ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اوپرا ونفری (1954)
ویسے تو اوپرا ونفری کی وجہ شہرت ان کا ٹاک شو ‘اوپرا ونفری شو’ ہے جو 1986 سے 2011 تک مسلسل 25 سال تک امریکی ٹی وی انڈسٹری کا ٹاپ شو رہا، لیکن ان کے کریئر کا آغاز فلم سے ہوا تھا۔ اسی ‘دی کلر پرپل’ سے جس نے ووپی گولڈ برگ کو آسکر کیٹیگری میں لا کھڑا کیا تھا۔
اس فلم میں اپنی اداکاری پر اوپرا ونفری بھی ساتھی اداکارہ مارگریٹ ایوری کے ہمراہ اکیڈمی ایوارڈز کی بہترین معاون اداکارہ کی کیٹیگری میں نامزد ہوئیں۔
یہ پہلا موقع تھا جب معاون اداکارہ کی کیٹگری میں بیک وقت دو سیاہ فام اداکاراؤں کو نامزد کیا گیا تھا اور مجموعی طور پر ایک ہی سال تین سیاہ فام اداکاراؤں کا آسکرز کی ایکٹنگ کیٹیگری میں نامزد ہونا بھی ایک بڑا سنگِ میل تھا۔
اوپرا ونفری نے اس کے بعد وقفے وقفے سے فلموں اور ٹی وی پر کام جاری رکھا۔ لیکن انہوں نے جو شہرت، عزت اور پیسہ اپنے ٹاک شو، اپنی تصانیف، ویب سائٹ اور محتلف بزنسز سے کمایا اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک وقت میں تو وہ دنیا کی امیر ترین سیاہ فام شخصیات میں سرِ فہرست تھیں اور دنیا کے با اثر ترین لوگوں کی فہرست میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا۔
اینجلا بیسیٹ (1958)
سن 1993 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘واٹس لو گوٹ ٹو ڈو وِد اِٹ’ اس حوالے سے قابلِ ذکر تھی کہ اس کے دونوں مرکزی اداکاروں لارنس فش برن اور اینجلا بیسیٹ کو آسکرز کی بہترین اداکار اور اداکارہ کی کیٹیگری میں نامزد کیا گیا اور یوں اس تبدیلی کی بنیاد پڑی جس نے چند برسوں بعد سیاہ فام فن کاروں کے لیے ایوارڈز جیتنا ایک معمول کی بات بنا دیا۔
اینجلا بیسیٹ نے فلم میں معروف سنگر ٹینا ٹرنر کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ فلمی ناقدین بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ لیکن انہیں ایوارڈ نہ ملنے کی وجہ سے کئی سیاہ فام فن کار دل برداشتہ بھی ہوئے کیوں کہ ان کے خیال میں ہالی وڈ بدل رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان کی قسمت بھی۔
یہ وہ وقت تھا جب سیاہ فام اداکار سفید فام اداکارہ کے مقابل اور سفید فام اداکار سیاہ فام اداکارہ کے مقابل فلموں میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ اینجلا بیسیٹ نے رابرٹ ڈی نیرو اور مارلن برانڈو کے ساتھ ‘دی اسکور’، ڈینزل واشنگٹن کے ساتھ ‘میلکم ایکس’، ٹام کروز کے ساتھ ‘مشن امپاسیبل’ کی دو فلموں اور فالن سیریز کی دو فلموں میں مورگن فری مین اور جیرارڈ بٹلر کے ساتھ بھی کام کیا۔
آج کل وہ ٹی وی سیریز ‘911’ میں اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیتنے میں مصروف ہیں۔
ہیلے بیری (1966)
اکیڈمی ایوارڈ کی 92 سالہ تاریخ میں پہلی اور اب تک کی آخری مرتبہ کسی سیاہ فام اداکارہ نے بہترین اداکارہ کا آسکر ایوارڈ جیتا ہے تو وہ ہیلے بیری ہیں جنہوں نے 2001 میں فلم ‘مونسٹرز بال’ کے لیے یہ اعزاز حاصل کیا۔
اسی سال ڈینزل واشنگٹن کے بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتنے نے اس لطف کو دوبالا کردیا۔
اس فلم کے بعد ہیلے بیری شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ وہ نہ صرف سیاہ فام بانڈ گرل بنیں بلکہ وہ ‘ایکس مین’ سیریز کی بھی متعدد فلموں میں نظر آئیں۔ ‘کنگز مین’ سیریز اور ‘جان وک’ سیریز کی فلموں میں ان کی شمولیت انڈسٹری میں ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وایولا ڈیوس (1965)
اس وقت اگر ہالی وڈ کی صفِ اول کی اداکاراؤں کی فہرست بنائی جائے تو وایولا ڈیوس کا نام سرِ فہرست تین اداکاراؤں میں آئے گا۔ سن 2008 سے 2016 کے درمیان انہوں نے تین ایسی پرفارمنس دیں جنہیں آسکر جیوری نظر انداز نہ کرسکی۔
ڈاؤٹ’ اور ‘دی ہیلپ’ میں انہیں بالترتیب بہترین معاون اداکارہ اور بہترین اداکارہ کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا جب کہ تیسری باری ‘فینسز’ میں بہترین اداکاری پر انہیں معاون اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔
لیکن وایولا ڈیوس کا مؤقف تھا کہ ‘فینسز’ میں ان کا کردار مرکزی تھا جسے جیوری نے غلطی سے معاون سمجھ لیا۔ اس واقعے کی وجہ سے وہ فلموں سے دل برداشتہ ہو کر ٹی وی کی طرف آئیں اور دورِ حاضر کے چند کامیاب ترین ٹی وی ڈراموں میں سے ایک ‘ہاؤ ٹو گیٹ اوے ود مرڈر’ کے ذریعے اپنے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔
آج تک سیاہ فام اداکاراؤں میں آسکرز کے لیے سب سے زیادہ تین نامزدگیاں وایولا ڈیوس اور اوکٹیویا اسپنسر کے پاس ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں میں سے چوتھی بار کون سی اداکارہ اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہوتی ہے۔
اوکٹیویا اسپینسر (1972)
گزشتہ 10 برسوں میں اگر کسی سیاہ فام اداکارہ نے ہالی وڈ میں اپنا نام بنایا ہے تو وہ ہیں اوکٹیویا اسپینسر۔ آسکر کی بہترین اداکارہ اور معاون ادکارہ کی کیٹیگری میں تین بار نامزد ہونے کے لیے لوگوں کو کئی کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں لیکن اوکٹیویا اسپینسر نے یہ کارنامہ صرف سات برسوں میں کر دکھایا۔
اور تو اور انہوں نے ‘دی ہیلپ’ (2011) کے لیے بہترین معاون اداکارہ کا اکیڈمی ایوارڈ جیت کر انڈسٹری میں اپنی موجودگی کا جو اعلان کیا اس کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔
‘ہڈن فگرز’ اور ‘دے شیپ آف واٹر’ میں بہترین اداکاری پر انہیں مسلسل دو سال معاون اداکارہ کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
ایک بار ایوارڈ جیتنے کے بعد عام طور پر اداکار اس لیول کی پرفارمنس نہیں دے پاتے۔ لیکن اوکٹیویا اسپینسر آسکر کی تاریخ کی وہ واحد سیاہ فام اداکارہ ہیں جو اکیڈمی ایوارڈ جیتنے کے بعد بھی دو بار ایوارڈ کے لیے نامزد ہو چکی ہیں۔
دیگر نام ور سیاہ فام اداکارائیں جنہوں نے ہالی وڈ میں اپنا سکہ جمایا، ایوارڈز جیتے اور شائقین کو محظوظ کیا، ان میں ایتھل واٹرز، لینا ہارن، روبی ڈی، سیسیلی ٹائی سن، بیاہ رچرڈز، پیم گرائر، ڈائنا روس، جیڈا پنکٹ اسمتھ، وٹنی ہیوسٹن، ٹائیلر پیری، بیونسے نوئلرز، کوئین لاتیفہ، جینیفر ہڈسن، مونیک، تاراجی پی ہینسن، ریجینا ہال اور ناؤمی ہیرس شامل ہیں۔