کراچی —
دنیا کے مختلف ملکوں میں آج کل نسلی امتیاز کے خلاف ‘بلیک لائیوز میٹر’ کے عنوان سے تحریک چل رہی ہے۔ لیکن امریکہ میں مقیم سیاہ فام افراد کے لیے یہ کوئی نئی تحریک نہیں۔ سیاہ فام امریکی صدیوں سے نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کرتے آئے ہیں۔
افریقی امریکیوں نے سولہویں صدی کے بعد لگ بھگ تین صدیاں غلامی میں گزاریں اور پھر سفید فام امریکیوں کے برابر حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑتے رہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہالی وڈ میں بھی رہی ہے جہاں پہلے سیاہ فام اداکاروں کو ان کی قابلیت سے قطعِ نظر نسلی امتیاز کی وجہ سے نوکر یا بٹلر کے رول میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔
پھر خاص طور پر سیاہ فام شائقین کے لیے بننے والی فلموں میں انہیں معتبر رول ملنے لگے۔ بڑی جدوجہد کے بعد بالآخر سیاہ فام افراد کو ہالی وڈ کی ‘اے لسٹ’ فلموں میں ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا گیا۔
ہالی وڈ سے نسلی امتیاز کے خاتمے کی اس جدوجہد کے پیچھے کون کون سے اداکار تھے، آئیے ان میں سے چند ایک پر نظر ڈالتے ہیں۔
سڈنی پوٹیے
امریکا میں سیاہ فام اداکاروں کا اگر کوئی صحیح معنوں میں روحِ رواں ہوسکتا ہے، تو وہ ہیں سڈنی پوٹیے۔ وہ پیدا تو ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں ہوئے تھے لیکن پلے بڑھے بہاماس میں۔
اسی لیے سڈنی نے جب دوبارہ امریکہ جا کر اداکاری کرنے کی ٹھانی تو ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار امریکی شہریت تھی۔ پچاس کی دہائی میں سڈنی پوٹیے نے ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اداکاری کی، لیکن جو شہرت انہیں ‘دی ڈیفائنٹ وَنز’ میں ٹونی کرٹس کے مدِ مقابل اداکاری کرنے سے ملی، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس فلم میں دونوں اداکاروں نے ایسے قیدیوں کا کردار نبھایا تھا جو بندھے تو ایک ہی ہتھکڑی سے تھے، لیکن تھے ایک دوسرے کے دشمن۔ دونوں اداکاروں کو ان کی شان دار کارکردگی پر اکیڈمی ایوارڈز نے بہترین اداکار کی کیٹگری میں نامزد کیا تھا۔
یہ ایوارڈ تو دونوں میں سے کسی کو نہیں ملا لیکن سڈنی پوٹیے کے لیے یہ لمحہ بہت یادگار تھا، کیوں کہ اس سے قبل کسی بھی سیاہ فام اداکار کو اس کیٹگری کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا تھا۔
اس فلم کے بعد سڈنی پوٹیے نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور یکے بعد دیگرے شائقین کو کئی ہِٹ فلمیں دیں۔ سن 1963 میں ریلیز ہونے والی ‘للیز آف دی فیلڈ’ میں انہیں بہترین اداکاری پر پہلا آسکر دیا گیا جو سیاہ فام اداکاروں اور تیکنیکی ماہرین کے لیے کسی سنگِ میل سے کم نہیں تھا۔
سڈنی پوٹیے نے 1967 میں تین ہٹ فلمیں ‘گیس ہوز کمنگ فار ڈنر’، ‘اِن دی ہیٹ آف دی نائٹ’ اور ‘ٹو سرو وِد لَو’ میں کام کر کے شائقین کو حیران کر دیا اور اس کے بعد ان کو ہالی وڈ کے صفِ اوّل کے اداکاروں کی فہرست میں شامل کیا جانے لگا۔
سڈنی پوٹیے نے ستر اور اسی کی دہائی میں فلموں میں ہدایت کاری بھی کی اور اسی وجہ سے وہ اداکاری سے دور رہے۔ لیکن پھر 1988 میں ٹام بیرینجز کے ساتھ ‘شوٹ ٹو کِل’، 1990 کے آغاز میں رابرٹ ریڈفرڈ کے ساتھ ‘اسنیکرز’، بروس ولِس اور رچرڈ گیئر کے ساتھ ‘دی جیکل’ نامی فلموں میں کام کر کے انہوں نے اداکاری میں دوبارہ قدم رکھا۔
‘دی جیکل’ کی کامیابی کے ساتھ ہی سڈنی پوٹیے نے 70 سال کی عمر میں فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور کچھ عرصہ ٹی وی پر گزارا۔ پوٹیے 1997 سے 2007 تک جاپان میں بہاماس کے سفیر بھی رہے۔
آج کل ان کی بیٹی سڈنی ٹمیا پوٹیے ہالی وڈ میں اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں جب کہ 93 سالہ سڈنی پوٹیے کئی سیاہ فام اداکاروں کی قسمت بدلنے میں مدد کرنے کے بعد ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔
جیمز ایرل جونز
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ ‘دی لائن کنگ’ میں مفاسا اور ‘اسٹار وارز’ میں ڈارتھ ویڈر کی آواز میں کیا چیز مشترک ہے، تو کچھ لوگوں کا جواب یقیناً جیمز ایرل جونز ہو گا۔ ساٹھ کی دہائی میں فلموں میں قدم رکھنے والے اس نوجوان نے آغاز تو چھوٹے چھوٹے کرداروں سے کیا تھا، لیکن 1970 میں بننے والی فلم ‘دی گریٹ ہوپ’ میں انہوں نے ایک ایسے ناقابلِ تسخیر باکسر کا کردار ادا کیا جسے باکسنگ رنگ میں تو کوئی نہیں ہرا سکا، البتہ رنگ سے باہر اسے سب سے شکست ہوئی۔
اس فلم میں لازوال اداکاری پر جونز کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا اور سڈنی پوٹیے کے بعد وہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والے دوسرے سیاہ فام اداکار بن گئے۔
جیمز ایرل جونز نے اس کے بعد متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جس میں ‘کونن دی باربیرین’، ‘کمنگ ٹو امریکہ’، ‘فیلڈ آف ڈریمز’، ‘دی ہنٹ فار ریڈ اکتوبر’، ‘پیٹریٹ گیمز’ اور ‘کلیئر اینڈ پریزینٹ ڈینجر’ شامل ہیں۔
جونز کو جو شہرت اسٹار وارز فرنچائز میں پہلے ‘ڈارتھ ویڈر’ اور پھر ‘دی لائن کنگ’ کی اینی میٹڈ فلم اور پھر لائن ایکشن فلم میں مفاسا کے کرداروں نے دی، اس کا کوئی مقابل نہیں۔ ان دونوں کرداروں میں انہیں صرف وائس ایکٹنگ کرنا تھی لیکن انہوں نے جس مہارت سے یہ کارنامہ انجام دیا، اس نے جونز کو کئی نسلوں کا پسندیدہ اداکار بنا دیا۔
آج بھی ‘مفاسا’ کی موت کا سین جب نظروں کے سامنے آتا ہے تو کئی لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بے ساختہ رو دیتے ہیں۔ رواں سال جیمز ایرل جونز ‘کمنگ ٹو امریکہ’ کے سیکوئل کی تیاری میں مصروف ہیں اور 89 سال کی عمر میں بھی تھکے نہیں ہیں۔
ایڈی مرفی
‘کمنگ ٹو امریکہ’ کی بات ہو اور ایڈی مرفی کا ذکر نہ ہو، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں ایڈی مرفی نے سیاہ فام امریکی اداکار ہونے کے باوجود مزاحیہ فلموں میں مرکزی کردار نبھائے اور اپنی کامیابی سے ایک پوری نسل کو کامیڈی فلموں کی طرف متوجہ کیا۔
ایڈی مرفی نے اپنے کریئر کا آغاز 1980 میں ‘سیٹرڈے نائٹ لائیو’ سے کیا تھا۔ اپنی میزبانی اور اداکاری سے انہوں نے اتنی شہرت کمائی کہ صرف دو سال میں ہی انہیں ہالی وڈ سے آفرز آنا شروع ہو گئیں۔
پہلے نک نولٹی کے ساتھ ’48 آورز’ ہٹ ہوئی، پھر ڈین ایکروئڈ کے ساتھ ‘ٹریڈنگ پلیسز’، اور اس کے بعد ‘بیورلی ہلز کوپ’ سیریز کی پہلی فلم آئی اور چھا گئی۔ سن 1987 میں جب ایڈی مرفی نے ‘بیورلی ہلز کوپ ٹو’ میں کام کیا تو ان کا شمار اس وقت کے صفِ اوّل کے اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔ یکے بعد دیگرے ہٹ فلموں نے مرفی کو باکس آفس کا بادشاہ بنا دیا تھا۔
پھر 1988 میں ‘کمنگ ٹو امریکہ’ آئی اور ایڈی مرفی کے کریئر کو مزید چار چاند لگ گئے۔ اس کے بعد ’48 آورز’ کا سیکویل ‘این ادر 48 آورز’ آیا۔ ایڈی مرفی کو جو کامیابی 1980 کی دہائی میں حاصل ہوئی تھی وہ اسی کے ساتھ نوے کی دہائی میں داخل ہوئے۔
‘بیورلی ہلز کوپ تھری’ ہو یا ‘دی نٹی پروفیسر’، یا پھر ‘ڈاکٹر ڈولیٹل’ کا ری میک۔ سن 1990 کی دہائی میں بھی ایڈی مرفی کا طوطی بولتا رہا۔ لیکن پھر بیسویں صدی کے آخر میں نئے سیاہ فام مزاحیہ اداکاروں کی آمد اور باکس آفس پر متعدد فلموں کی ناکامی نے انہیں کچھ عرصہ فلموں سے دور رہنے پر مجبور کر دیا۔
دنیا نے اکیسویں صدی میں قدم رکھا تو ایڈی مرفی کی اینی میٹڈ فلم ‘شریک’ کی کامیابی اور اس کے بعد اس کے سیکولز نے ان کے کریئر کو طول دینے میں مدد دی۔ سال 2006 میں ‘ڈریم گرلز’ میں سنجیدہ اداکاری کرنے پر انہیں اکیڈمی ایوارڈز نے بہترین معاون اداکار کے لیے نامزد کیا جو ایک مزاحیہ اداکار کے لیے خود کسی ایوارڈ سے کم نہیں۔
اس کے بعد ‘ٹاور ہائیسٹ’ اور ‘مسٹر چرچ’ میں بھی لوگوں نے ان کی اداکاری کو خاصا پسند کیا۔ رواں سال ایڈی مرفی ‘کمنگ ٹو امریکہ’ کے سیکول پر کام کر رہے ہیں جو پہلی فلم کی ریلیز کے 32 سال بعد سنیما کی زینت بنے گی۔
مورگن فری مین
‘دیر آید درست آید’۔ یہ کہاوت مورگن فری مین کے بارے میں بالکل ٹھیک ہے۔ اس وقت مورگن فری مین کا شمار ہالی وڈ کے بہترین اور منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا ہے لیکن 1937 میں پیدا ہونے والے فری مین نے جس وقت اپنی پہلی بڑی فلم ‘اسٹریٹ اسمارٹ’ میں کام کیا تھا، ان کی عمر 50 برس ہو چکی تھی۔
اس فلم میں شان دار اداکاری پر اکیڈمی ایوارڈز نے انہیں بہترین معاون اداکار کے لیے نامزد کیا تھا۔ ٹھیک دو سال بعد انہیں ‘ڈرائیونگ مس ڈیزی’ کے لیے بہترین اداکار کی کیٹگری میں نامزد کیا گیا۔
سن 1994 میں آنے والی ‘دی شوشینک ریڈیمپشن’ ہو یا پھر 2009 میں آنے والی فلم ‘اِنوکٹس’ میں نبھایا گیا نیلسن منڈیلا کا کردار، مورگن فری مین کبھی بہترین اداکار کی کیٹیگری میں ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے تو کبھی بہترین معاون اداکار کی کیٹگری میں۔ لیکن اس دوران وہ سن 2004 میں ‘ملین ڈالر بے بی’ میں ایک ریٹائرڈ باکسر کا کردار نبھانے پر اپنا پہلا آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
فلم ‘بروس المائٹی’ میں گاڈ کا کردار ہو، ‘بیٹ مین’ سیریز میں لوشیس فاکس کا اہم رول یا پھر ‘رابن ہڈ پرنس آف تھیوز’ اور ‘ان فارگیون’ میں ہیرو کے ساتھی کا کردار، مورگن فری مین نے ہر رول کو اپنی جان دار اداکاری سے یادگار بنایا۔
کرونا وائرس سے ملتی جلتی وبا پر بنی فلم ‘آؤٹ بریک’ اور پھر ‘سیون’، ‘الونگ کیم اے اسپائیڈر’، ‘وانٹڈ’ اور ‘فالن’ فلم سیریز میں کی گئی اداکاری نے مورگن فری مین کو دنیا کے کامیاب ترین اداکاروں کی فہرست میں کھڑا کر دیا ہے۔ آج کل وہ ٹی وی پر تھوڑا زیادہ مصروف ہیں جہاں ان کی ڈاکیومنٹری سیریز دنیا بھر میں بے حد پسند کی جا رہی ہے۔
ڈینزل واشنگٹن
جس سال مورگن فری مین کو ‘اسٹریٹ اسمارٹ’ میں اداکاری پر آسکر کے لیے پہلی بار نامزد کیا گیا تھا، اسی سال ایک اور نوجوان سیاہ فام اداکار ڈینزل واشنگٹن بھی اسی کیٹیگری میں شامل تھے۔ انہیں سر رچرڈ ایٹنبرو کی فلم ‘کرائی فریڈم’ میں شان دار کارکردگی دکھانے پر آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
اس وقت ڈینزل کی عمر 33 سال تھی اور وہ ایوارڈ نہیں جیت سکے تھے۔ لیکن ڈینزل واشنگٹن کی خوش قسمتی کہیے یا پھر ان کی بہترین اداکاری کا نتیجہ کہ وہ اپنی 35 ویں سالگرہ سے قبل ہی دوسری مرتبہ آسکرز ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے اور اس بار ‘گلوری’ نامی فلم کی وجہ سے معاون اداکار کا ایوارڈ جیتنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔
اس کے بعد ڈینزل واشنگٹن نے متواتر کامیاب فلمیں دے کر اپنی اداکاری اور باکس آفس پر حکمرانی کا لوہا منوایا۔ بھارتی نژاد امریکی ہدایت کارہ میرا نائر کی فلم ‘مسی سپی مصالحہ’ ہو یا پھر جولیا رابرٹس کے ساتھ ‘دی پیلیکن بریف’، ٹام ہینکس کے ساتھ ‘فلاڈیلفیا’ ہو یا جین ہیکمن کے مدِمقابل ‘کرمسن ٹائیڈ’، ایکشن سے بھرپور فلم ‘فالن’ ہو یا پھر اینجلینا جولی کے ساتھ ‘دی بون کلکٹر’، ڈینزل واشنگٹن نے نوے کی دہائی میں جس فلم میں بھی کام کیا، کامیابی ان کا مقدر ٹھہری۔
سن 2001 میں ‘ٹریننگ ڈے’ نامی فلم میں ایک کرپٹ پولیس والے کے رول نے انہیں آسکرز کی تاریخ میں وہ مقام دلا دیا جو بہت کم اداکاروں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس فلم میں بہترین اداکاری پر انہیں بیسٹ ایکٹر کا آسکر ایوارڈ ملا اور یوں وہ بہترین اداکار اور بہترین معاون اداکار کی ٹرافی اپنے نام کرنے والے پہلے سیاہ فام امریکی اداکار بن گئے۔
کامیابی کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد انہوں نے ‘مین آن فائر’، ‘انسائیڈ مین’، ‘ڈے جا وو’، ‘اَن اسٹاپ ایبل’، ‘سیف ہاؤس’، ‘فلائٹ’، ‘دی میگنی فیسینٹ سیون’ اور ‘ایکوالائزر’ سیریز جیسی کامیاب فلموں میں کام کر کے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس وقت ڈینزل واشنگٹن کا شمار ہالی وڈ کے ان اداکاروں میں ہوتا ہے جن کا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
ڈینزل کو سن 2017 میں ‘رومن جے ازرائیل اسکوائر’ میں بہترین اداکاری دکھانے پر ایک مرتبہ پھر آسکرز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ یہ ان کی بہترین اداکار کی کیٹیگری میں چھٹی اور مجموعی طور پر آٹھویں نامزدگی تھی۔ یہ ریکارڈ اب تک کسی اور سیاہ فام اداکار نے نہیں توڑا ہے لیکن اگر آنے والے اداکاروں نے ڈینزل واشنگٹن کی طرح محنت کی تو کوئی شک نہیں کہ یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
وِل اسمتھ
نوے کی دہائی کے آغاز میں وِل اسمتھ نے ٹی وی پر ‘فریش پرنس آف بیل ایئر’ نامی سیریز سے شہرت کمائی لیکن اس وقت خود انہیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اگلے چند برسوں میں وہ دنیا کے سب سے بڑے فلم اسٹارز میں سے ایک ہوں گے۔
اپنا کریئر بحیثیت ‘ریپر’ شروع کرنے والے اور پھر ٹی وی اسٹار کی حیثیت سے شائقین کے دل میں گھر کرنے والے وِل اسمتھ کی پہلی سپر ہٹ فلم ‘بیڈ بوائز’ تھی جس میں ساتھی اداکار مارٹن لارنس کے ساتھ ان کی جوڑی کو اتنا پسند کیا گیا کہ 1995 کے بعد 2003 اور پھر 2020 میں ‘بیڈ بوائز’ کے سیکول بھی بنائے گئے۔
پھر وِل اسمتھ کی فلم ‘انڈی پینڈینس ڈے’ آئی جس میں جیف گولڈبلم کے ساتھ ان کی کیمسٹری کو خوب سراہا گیا۔ ‘مین اِن بلیک’ اور ‘اینیمی آف دی اسٹیٹ’ میں ٹامی لی جونز کے ساتھ ان کی اداکاری نے دونوں فلموں کو کامیاب کیا اور یوں وِل اسمتھ کی صورت میں ہالی وڈ کو سڈنی پوٹیے کا جانشین مل گیا۔
ہدایت کار مائیکل مین نے جب باکسر محمد علی پر فلم ‘علی’ بنانے کا اعلان کیا اور وِل اسمتھ کو اس رول کے لیے منتخب کیا تو شائقین کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ انہیں اندازہ تھا کہ اگر کوئی محمد علی باکسر کے کردار کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے تو وہ صرف وِل اسمتھ ہی ہے۔
‘علی’ میں لاجواب اداکاری پر انہیں اکیڈمی ایوارڈ نے بہترین اداکار کے لیے نامزد کیا لیکن ‘ٹریننگ ڈے’ والے ڈینزل واشنگٹن کے سامنے وہ شکست کھا گئے۔ چھ سال بعد ‘ان پرسوٹ آف ہیپی نیس’ میں ایک شفیق اور محنتی باپ کا کردار ادا کرنے پر انہیں دوسری بار بہترین اداکار نامزد کیا گیا لیکن وہ اس بار بھی ٹرافی نہ جیت سکے۔
وِل اسمتھ نے گزشتہ 25 برسوں کے دوران لاتعداد بلاک بسٹر فلموں میں مختلف کردار ادا کر کے دنیا بھر میں ہالی وڈ فلموں کے شائقین کو اپنا مداح بنا لیا ہے جو ان کے لیے کسی ایوارڈ سے کم نہیں۔ ‘مین ان بلیک’ کی تین فلموں میں ایجنٹ جے کے کردار نے انہیں جہاں شہرت بخشی وہیں ‘مائیک لوری’ نے ‘بیڈ بوائز’ فرنچائز کو کامیابیوں کی راہ پر گامزن کیا۔
‘آئی روبوٹ’، ‘ہچ’، ‘آئی ایم لیجنڈ’، ‘ہینکاک’، ‘کنیکشن’ اور ‘کولیٹرل بیوٹی’ میں بھی انہوں نے اپنی اداکاری سے مداحوں سے داد سمیٹی۔
سن 2019 وِل اسمتھ کے لیے کافی اچھا رہا۔ پہلے فلم ‘الہ دین’ میں جنی کا کردار ادا کر کے انہوں نے اینی میٹڈ فلم میں جنی کو آواز بخشنے والے رابن ولیمز کی یاد تازہ کر دی۔ اسی سال ‘جیمینائی مین’ میں ایک ہی شکل کے نوجوان ٹارگٹ کلر اور ادھیڑ عمر پولیس والے کا رول ادا کر کے انہوں نے ‘پرنس آف بیل ایئر’ والے فریش وِل اسمتھ کی یاد تازہ کر دی۔
اینی میٹڈ فلم ‘اسپائز ان ڈزگائز’ میں بھی وِل اسمتھ کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ول اسمتھ نے خود کو صرف اداکاری تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے کریئر کے دوران کئی فلمیں پروڈیوس بھی کیں اور ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم ‘بیڈ بوائز فور لائف’ بھی ان ہی ہی پروڈکشن ہے۔
سیمیول ایل جیکسن
وہ کون سا اداکار ہے جسے اکیڈمی ایوارڈز نے صرف ایک بار معاون اداکار کی کیٹیگری میں نامزد کیا لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کا سب سے کامیاب اداکار تصور کیا جاتا ہے؟ وہ ‘جراسک پارک’ کی پہلی فلم میں بھی تھا اور ‘مارویل’ کی تمام ایکشن فلموں کا بھی حصہ ہے۔ اس نے ‘ڈائی ہارڈ’ میں بھی کام کیا اور ‘پلپ فکشن’ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
یہ کوئی اور نہیں بلکہ معروف اداکار سیمیول ایل جیکسن ہیں جو نوے کی دہائی کے آغاز تک ایک مختصر نام کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اپنے کریئر کا آغاز انہوں نے سیم جیکسن کے نام سے کیا لیکن آج ان کے نام پر ہی فلمیں سپر ہٹ ہو جاتی ہیں۔
سیمیول جیکسن کو ‘پلپ فکشن’ سے پہلے شاید کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج ہر اداکار کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ کام کر سکے۔
سیمیول ایل جیکسن نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ انہیں ‘ڈائی ہارڈ ود اے وینجینس’ کے بعد تواتر سے بڑی فلمیں ملنے لگیں؟ اس کا جواب ہے صبر اور محنت۔ اس اداکار نے 42 سال تک کامیابی کا انتظار کیا اور جب انہیں موقع ملا تو انہوں نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔
میتھیو مک کونہی اور سینڈرا بلوک کے ساتھ ‘اے ٹائم ٹو کِل’ ہو، کیون اسپیسی کے مدِ مقابل ‘دی نیگوشی ایٹر’، بروس ولِس کے ساتھ ‘ان بریک ایبل’ اور بعد میں اس کا سیکول ‘گلاس’، وِین ڈیزل کے ساتھ ‘ٹرپل ایکس’، کولن فیرل کے ساتھ ‘سواٹ’، ٹام ہیڈلسٹن کے ساتھ ‘کنگ کانگ اسکل آئی لینڈ’ یا پھر رائن رینلڈز کے ساتھ ‘دی ہٹ مینز باڈی گارڈ’، سیمیول ایل جیکسن نے جب اور جو بھی کام کیا پورے دل سے کیا۔
اسٹار وارز کی ‘پریکول’ سیریز میں سیمیول ایل جیکسن کی کارکردگی نے انہیں جہاں دو نسلوں کا پسندیدہ اداکار بنایا، وہیں ‘اوینجرز’ سیریز میں نک فیوری کے کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ حتٰی کہ ان کی جگہ کسی اور اداکار کو کاسٹ کرنے کے بجائے ٹیکنالوجی کی مدد سے انہیں نوجوان کیا گیا اور سیریز میں شامل رکھا گیا۔
سیمیول جیکسن کی فلم ‘شافٹ’ کے ری بوٹ اور سیکیول کو صرف اس لیے شہرت ملی کیوں کہ اس میں جیکسن کے ساتھ کوئی اور ہیرو نہیں تھا اور یہ دونوں فلمیں ان کی سولو ہٹ ثابت ہوئیں۔
اس وقت بزنس کے لحاظ سے سیمیول ایل جیکسن سے زیادہ کامیاب اداکار نہ ہالی وڈ کی تاریخ میں کوئی آیا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی کے آنے کی امید ہے۔
ان کے علاوہ جن دیگر سیاہ فام اداکاروں نے ہالی وڈ میں خوب نام کمایا: ان میں سیمی ڈیوس جونیئر، بل کوسبی، ڈینی گلوور، فاریسٹ ویٹیکر، لارنس فش برن، ویزلی اسنائیپس، کیوبا گوڈنگ جونیئر، مائیکل کلارک ڈنکن، جیمی فاکس، ڈون چیڈل، ٹیرینس ہاورڈ، ادریس ایلبا اور مہرشالا علی شامل ہیں۔