کراچی —
ویسے تو پاکستان نے دنیائے کرکٹ کو کئی ورلڈ کلاس وکٹ کیپر دیے، لیکن محمد رضوان میں جو بات ہے وہ کسی اور میں نہیں۔ نہ صرف وہ وکٹ کے عقب میں چاق و چوبند رہتے ہیں بلکہ وکٹ کے آگے بھی اپنا ٹیلنٹ منوا چکے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اننگز کا آغاز کرنا ہو یا ٹیسٹ کرکٹ میں نچلے نمبروں پر رنز اسکور کرنا، محمد رضوان ہر امتحان پر پورا اترے۔اسی لیے ‘کرکٹ کی بائبل’ مانے جانے والے ‘وزڈن کرکٹرز المناک’ کے مدیر نے انہیں 2021 کے ‘وزڈن فائیو کرکٹرز آف دی ائیر’ میں شامل کر کے انہیں ایک اور اعزاز سے نوازا۔
محمد رضوان نے گزشتہ سال انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں بہترین کھیل پیش کیا۔ انہوں نے نہ صرف 40 کی اوسط سے 161 رنز اسکور کیے، بلکہ اپنی شان دار وکٹ کیپنگ سے سب کو متاثر کیا۔ انہوں نے وکٹ کے پیچھے پانچ کیچز لیے جب کہ بیٹنگ کرتے ہوئے دو نصف سینچریاں اسکور کیں۔
وزڈن کرکٹرز المناک کیا ہے اور یہ کن کھلاڑیوں کا انتخاب کرتی ہے؟
‘وزڈن کرکٹ المناک’ کرکٹ کا ایک سالانہ رسالہ ہے جس کا اجرا پہلی مرتبہ 1864 میں انگلینڈ سے ہوا. اسے کچھ لوگ کرکٹ کی بائبل مانتے ہیں جب کہ باقی اس میں اپنا نام دیکھنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اب تک اس کے 156 ایڈیشن آ چکے ہیں جن میں گزشتہ سال ہونے والے انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک کرکٹ میچز کے اسکور کارڈ، تجزیے اور فیچرز شامل کیے جاتے ہیں۔
سن 1889 میں ‘وزڈن کرکٹرز المناک’ نے ‘وزڈن فائیو کرکٹرز آف دی ایئر’ کا آغاز کیا، اس لسٹ میں شامل ہونے والے کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان انگلش سیزن کے اختتام پر کیا جاتا ہے۔ اس فہرست میں زیادہ تر وہ کھلاڑی شامل ہوتے ہیں جو حال ہی میں ختم ہونے والے انگلش سیزن کے ٹاپ پرفارمر ہوں جن کی کارکردگی سے کھیل پر اچھا اثر پڑا ہو یا پھر انہوں نے کوئی انوکھا کارنامہ انجام دیا ہو۔
فہرست کو منتخب کرنے کی ذمے داری میگزین کے ایڈیٹر پر ہوتی ہے جو انگلینڈ میں کھیلے گئے میچز اور ان میں بہترین کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز کو پہلے شارٹ لسٹ کرتا ہے اور پھر ان میں سے پانچ بہترین کھلاڑیوں کے نام کا اعلان کرتا ہے۔
کبھی کبھی اس فہرست میں کچھ ایسے کھلاڑی بھی شامل کر لیے جاتے ہیں جن کی کارکردگی کھیل کو بہتری کی طرف لے کر جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک کھلاڑی تھے سری لنکا کے سنتھ جے سوریا جنہوں نے انگلش سیزن میں نہ تو کسی کاؤنٹی کی نمائندگی کی تھی نہ ہی اپنے ملک کی۔ لیکن چوں کہ ورلڈ کپ 1996 میں ان کی بیٹنگ نے کرکٹ کو ایک نئی جہت دی اس لیے انہیں اس ایوارڈ کے لیے موزوں سمجھا گیا۔
سن 2000 سے 2003 کے درمیان وزڈن کرکٹرز المناک نے انگلش سیزن کے بجائے انٹرنیشنل کرکٹ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو شامل تو کیا۔ لیکن 2004 میں اس فیصلے کو واپس لے لیا۔ اسی سال سے وزڈن نے ‘لیڈنگ کرکٹر ان دی ورلڈ’ کی فہرست متعارف کی جس میں ان کھلاڑیوں کو شامل کیا جانے لگا جن کی کارکردگی انٹرنیشنل کرکٹ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی۔
وزڈن فائیو کرکٹرز آف دی ایئر میں کس کس پاکستانی نے جگہ بنائی؟
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محمد رضوان ‘وزڈن کرکٹر آف دی ایئر’ میں منتخب ہونے والے اٹھارہویں پاکستانی کھلاڑی تو ہیں۔ لیکن ان سے قبل کسی پاکستانی وکٹ کیپر نے یہ اعزاز حاصل نہیں کیا۔
ان سے پہلے یا تو بلے باز، بالرز یا پھر آل راؤنڈرز کو ان کی پرفارمنس پر اس فہرست میں شامل کیا جاتا تھا، لیکن ان کے آنے سے ایک وکٹ کیپر کا بھی اضافہ ہو گیا۔
سب سے پہلے ‘وزڈن فائیو کرکٹرز آف دی ایئر’ میں جگہ بنانے والے پاکستانی کھلاڑی فضل محمود تھے جنہوں نے یہ اعزاز 1955 میں حاصل کیا۔ اس سے قبل 1954 میں اُنہوں نے اوول کے میدان میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میں 12 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف پہلی کامیابی دلائی۔
سن 1963 میں اسی لسٹ میں مشتاق محمد کو بھی شامل کیا گیا۔ انہوں نے 1962 میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ پر شان دار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سینچری اور تین نصف سینچریوں کی مدد سے 401 رنز اسکور کیے تھے۔
سن 1968 میں مشتاق محمد کے بڑے بھائی حنیف محمد اور آصف اقبال کو انگلینڈ کے خلاف سیریز میں شان دار کارکردگی دکھانے پر اسی فہرست میں شامل کیا گیا۔
حنیف محمد نے تین میچوں کی سیریز میں 57 کی اوسط سے 228 رنز اسکور کیے جس میں 187 ناٹ آؤٹ ان کا سب سے نمایاں اسکور تھا۔ آصف اقبال نے ایک سینچری اور ایک نصف سنچری کی مدد سے اسی دورے پر 53.40 کی اوسط سے 267 رنز اسکور کیے تھے جس میں اوول کے مقام پر انتخاب عالم کے ساتھ نویں وکٹ پر 190 رنز کی پارٹنر شپ شامل تھی۔
اسی طرح 1970 میں ماجد خان اور 1972 میں ظہیر عباس کو بھی انگلینڈ میں شان دار کارکردگی دکھانے پر اس لسٹ میں شامل کیا گیا۔ ظہیر عباس کی 274 رنز کی اننگز آج بھی شائقینِ کرکٹ کو یاد ہے۔
سن 1982 اور 1983 میں وزڈن نے بالترتیب جاوید میانداد اور عمران خان کو جب کہ 1988 میں سلیم ملک کو ان کی شان دار کارکردگی کے عوض اس فہرست میں جگہ دی۔ نہ صرف یہ تینوں کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ میں مقبول تھے بلکہ دورۂ انگلینڈ پر پاکستان کے لیے بھی رنز کے انبار لگاتے تھے۔
وسیم اکرم اور وقار یونس
اور پھر ٹو ڈبلیوز کا دور آیا جنہوں نے کاؤنٹی اور کنٹری کرکٹ میں انگلینڈ میں دھوم مچا دی۔ 1992 میں وقار یونس اور 1993 میں وسیم اکرم کو ‘وزڈن فائیو کرکٹرز آف دی ایئر’ میں جگہ ملی تو کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔
سن 1996 میں پاکستان کو انگلینڈ میں کامیابی دلوانے والے سعید انور اور مشتاق احمد بھی 1997 میں وزڈن کی لسٹ کا حصہ بن گئے۔ اس دورے پر سعید انور نے ایک سینچری اور دو نصف سینچریوں کی مدد سے 60.33 کی اوسط سے 362 رنز اسکور کیے تھے جب کہ مشتاق احمد نے تین ٹیسٹ میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
سن 2000 میں ثقلین مشتاق کو انٹرنیشنل کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے پر اس فہرست میں شامل کیا گیا جب کہ 2007 میں محمد یوسف کو انگلینڈ کے خلاف چار میچز کی ٹیسٹ سیریز میں 90 کی اوسط سے 631 رنز بنانے پر فہرست میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے اس دورے پر تین سینچریاں اسکور کیں جس میں ایک ڈبل سینچری بھی شامل تھی۔
سن 2016 میں پاکستان کا دورۂ انگلینڈ کون بھول سکتا ہے جس میں مصباح الحق نے پہلے ٹیسٹ میں سینچری اسکور کر کے پش اپس کی تھیں۔ یہ دورۂ مصباح الحق اور یونس خان دونوں کا آخری دورۂ انگلینڈ تھا اور دونوں نے اس پر شان دار کارکردگی دکھا کروزڈن کی توجہ حاصل کی۔
سن 2017 میں جب یونس خان اور مصباح الحق کو اس فہرست میں جگہ ملی تو اس کی وجہ چار میچز کی سیریز میں ان کے بالترتیب 340 اور 282 رنز شامل تھے۔ آخری ٹیسٹ میں یونس خان کے 218 رنز نے پاکستان کی سیریز برابر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔