اسپورٹس

مانچسٹر ٹیسٹ: پاکستان کو خود اعتمادی لے ڈوبی؟

Written by Omair Alavi

کراچی — 

انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ میزبان ٹیم کی کامیابی پر ختم ہوا لیکن یہ میچ پاکستان ٹیم کے مداحوں کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔

میچ کے چوتھے دن ایک موقع پر پاکستان نے میزبان ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کو صرف 117 رنز پر پویلین واپس بھیج دیا تھا لیکن 277 رنز کے تعاقب میں انگلش بیٹسمینوں نے بغیر کسی دباؤ کے پیچ کے چاروں طرف اسٹروکس کھیلے اور اپنی ٹیم کو تین وکٹوں سے کامیابی دلا دی حالاں کہ اس میچ میں ان کی جیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔

پاکستان کے بالنگ اٹیک نے پہلی اننگز میں انگلینڈ کی ٹیم کو مشکلات کا شکار کر دیا تھا۔ دوسری اننگز میں صرف سات وکٹیں ہی حاصل کر سکا۔

انگلینڈ کے ہیرو کرس ووکس اور وکٹ کیپر بیٹسمین جوس بٹلر تھے جنہوں نے چھٹی وکٹ کی شراکت میں 139 رنز جوڑے۔ مین آف دی میچ کرس ووکس 84 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے جب کہ بٹلر 75 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے ۔

اس میچ میں یقینی کامیابی سے غیر یقینی شکست تک کھیل کی دنیا سے وابستہ سینئر اسپورٹس جرنلسٹس سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سینئر صحافی عالیہ رشید اور تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ شامل ہیں۔

دونوں ماہرین نے اظہر علی کی دفاعی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دوسری اننگز میں ناقص بیٹنگ پر کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

کیا دو لیگ اسپنر کھلانے کا فیصلے درست تھا؟

عالیہ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دو لیگ اسپنرز کو کھلانے کا تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ نہ تو کپتان نے شاداب خان سے ویسی بالنگ کرائی جس کے سبب انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا تھا، نہ ہی وہ کوئی بہت اچھے آل راؤنڈر ہیں اور نہ ہی وکٹ نے اس طرح پرفارم کیا جیسا کہ کوچ اور کپتان سمجھ رہے تھے ۔

عالیہ رشید کے مطابق ٹاس جیت کر پاکستان نے جس طرح دو لیگ اسپنرز کھلانے کا فیصلہ کیا تھا اس سے تو لگ رہا تھا کہ چوتھے اور پانچویں دن وکٹ ٹرن کرے گی اور دونوں لیگ اسپنرز کام آئیں گے لیکن یہ فیصلہ اس لیے بیک فائر کر گیا کیوں کہ ایک تو پاکستان ٹیم اپنی دوسری اننگز میں صرف 169 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔ دوسرا جو ہدف انہوں نے انگلینڈ کو دیا تھا اس کے حساب سے بالنگ نہیں کی۔ سارا کا سارا دار و مدار جب یاسر شاہ پر ہی ڈالنا تھا تو شاداب خان کو کھلانے کی کیا ضرورت تھی؟

تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ نے بھی مینیجمنٹ کے دو لیگ اسپنرز کھلانے کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان ٹیم کو نقصان پہنچا۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصباح الحق اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہیڈ کوچ ہیں اور چوں کہ شاداب خان اس ٹیم کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے مصباح کے دل میں نرم گوشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاداب خان ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے اچھے کھلاڑی ضرور ہیں لیکن ٹیسٹ کرکٹ کے نہیں۔ 2017 میں ٹیسٹ ڈیبیو کے بعد سے انہوں نے تین سال میں صرف 4 ٹیسٹ کھیلے ہیں۔ ان کی سلیکشن کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ خاص طور پر میچ کے بعد جس میں انہوں نے مجموعی طور پر دونوں اننگز میں صرف 11 اعشاریہ 3 اوورز کیے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر اور انگلینڈ میں کوچنگ سے وابستہ عتیق الزماں کا کہنا تھا کہ دو لیگ اسپنر کھلانے کا جو جواز پیش کیا گیا وہ فضول تھا۔

‘جہاں چار فاسٹ بولرز کچھ نہیں کر سکتے وہاں پانچواں بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر آپکو سیکنڈ اسپنر کے ساتھ جانا ہی تھا تو کاشف بھٹی کو کھلانا چاہیے تھا۔’

انہوں نے میچ میں شکست کی ذمہ داری پاکستان کی ناقص بیٹنگ پر ڈالی۔ ان کے خیال میں 5 بیٹسمینوں کے ساتھ جانا بے وقوفی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کی وہ واحد ٹیم ہے جہاں وکٹ کیپر کے بعد بیٹنگ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یاسر شاہ سے تھوڑے رنز کی امید لگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی لوگ 10 رنز بھی نہیں بناسکتے۔

ان کے بقول شاداب کو اگر بیٹسمین سمجھ کر کھلایا گیا تھا تو وہ ویسی کارکردگی نہیں دکھا سکے اور اگر آل راؤنڈر سمجھ کر کھلایا تو پوری طرح استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔

اظہرعلی کا مسلسل آؤٹ آف فارم ہونا اور ایک بیٹسمین کم کھلانا خود اعتمادی نہیں؟

عالیہ رشید نے کپتان اظہر علی کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو ان سے ان سوئنگ ہینڈل ہو رہی ہے، نہ ہی ان کا فٹ ورک ان کا ساتھ دے رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب ہمیں نظر آ رہا ہے کہ اظہر علی کے ساتھ مسائل ہیں، وہ سیدھے بلے سے بیٹنگ نہیں کر پا رہے۔ تو وہ اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ وہ جس طرح کے کپتان ہیں یہ سب کو معلوم ہی ہے لیکن اس میچ میں ان کی ناقص کپتانی سب نے دیکھ لی۔

ان کے بقول جیسے ہی کرس ووکس اور جوس بٹلر نے اٹیک کرنا شروع کیا کپتان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کس کو کہاں کھڑا کرنا ہے۔ پریشر کیسے ڈالنا ہے اور آؤٹ کرنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس پر انہوں نے توجہ ہی نہیں دی جس سے مایوسی ہوئی۔

مرزا اقبال بیگ سمجھتے ہیں کہ اظہر علی کا مسلسل آؤٹ آف فارم ہونا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں۔ کبھی وہ رنز بناتے ہیں کبھی نہیں۔ پہلے بھی جب انہیں کپتانی ملی تھی تو وہ متاثر نہیں کر سکے تھے اور اب بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ انہیں دوبارہ کپتان کیوں بنایا گیا۔

ان کے خیال میں اظہر علی کو دوبارہ کپتان بنانا ہی غلط فیصلہ تھا۔

مرزا اقبال بیگ کے بقول ایک بیٹسمین کم کرنا خود اعتمادی تھی جس سے ٹیم کو نقصان ہوا۔ پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں چھ بیٹسمین کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ محمد رضوان کو چھٹے نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیج رہے ہیں اس سے اندازہ لگا لیں کہ کیا حکمت عملی تھی۔

اس حوالے سے عتیق الزماں کا کہنا تھا کہ اپنی فارم کے بارے میں تو اظہر علی خود ہی بتا سکتے ہیں۔ جب وہاں مصباح الحق ہیڈ کوچ اور یونس خان بیٹنگ کوچ موجود ہیں جو شان مسعود کی سنچری کا کریڈٹ لے رہے ہیں، تو انہیں اظہر علی کی خراب فارم کی بھی ذمہ داری لینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اظہر علی کی خراب فارم صرف اچھی اور لمبی اننگز سے ہی جا سکتی ہے۔

پاکستان ٹیم نے دوسری اننگز کے لیے تیاری نہیں کی تھی؟

عالیہ رشید سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی دوسری اننگز میں ناقص بیٹنگ کی وجہ سے قومی ٹیم کو شکست ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اصل خرابی بیٹنگ ہے۔ اگر پہلی اننگز میں برتری نہ ہوتی تو پاکستانی بالرز کس ہدف کا دفاع کرتے؟

ان کے بقول دوسری اننگز میں 169 رنز پر پوری ٹیم کا آؤٹ ہونا یہی بتاتا ہے کہ کھلاڑی پہلی اننگز میں 107 رنز کی لیڈ لینے کے بعد مطمئن ہو گئے تھے۔ پہلی اننگز میں بھی اگر شان مسعود 156 رنز نہ بناتے، بابر اعظم ففٹی نہ کرتے اور شاداب 45 رنز کی اننگز نہ کھیلتے تو ہم میچ چار دن سے بھی پہلے ہار جاتے۔ دوسری اننگز میں بابر اعظم جس معمولی دفاع کے ساتھ کھیلے۔ اسد شفیق جس طرح رن آؤٹ ہوئے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو میچ کی تیسری اننگز کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ یہ خود اعتمادی ہی تھی جس کی وجہ سے شان مسعود دوسری اننگز میں صفر پر آوٹ ہوئے۔

ان کے مطابق عابد علی اور اظہر علی دونوں کس ٹینشن میں کھیلے۔ یہ سب نے دیکھا۔ عابد پہلی اننگز میں فیل ہونے کے بعد دوسری اننگز میں جلدی میں نظر آئے اور اسی وجہ سے وہ بے تکے شاٹس کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ اظہر علی کی دبئی اور پاکستان سے باہر جو پرفارمنس ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پھر ان کی دفاعی کپتانی، بالرز کو غلط استعمال کرنا، چائے کے وقفے کے بعد ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔

مرزا اقبال بیگ بھی سمجھتے ہیں کہ دوسری اننگز میں قومی ٹیم بغیر کسی تیاری کے میدان میں اتری۔ دوسری اننگز میں پاکستان کی بیٹنگ فلاپ ہوئی۔ بالنگ میں بھی پانچ وکٹوں کے بعد مشکلات بڑھ گئیں۔ نہ پہلی اننگز کے ہیروز چل سکے اور نہ ہی عابد علی اور اظہرعلی۔

ان کے بقول کپتان میچ میں جب بھی بیٹنگ کر رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ کسی وقت بھی آؤٹ ہو جائیں گے۔

اس حوالے سے عتیق الزماں کہتے ہیں کہ ٹیم کے کوچز کا کام کھلاڑیوں کو سکھانا، سمجھانا اور سختت بنانا ہوتا ہے۔ فیلڈ میں کھلاڑی کیا کرتا ہے اس کا دار و مدار خود کھلاڑی پر ہوتا ہے۔

ان کے بقول دوسری اننگز میں پاکستانی ٹیم خود اعتمادی کا شکار ہوئی۔ کسی بیٹسمین نے کراس شاٹ مارا تو کوئی ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوا۔ ہم یہ میچ بیٹسمینوں کی وجہ سے ہارے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ مینیجمنٹ کی بے وقوفی کی وجہ سے انگلینڈ نے چوتھی اننگز میں جارحانہ حکمت عملی اپنائی ۔

‘ٹیم مینجمنٹ کو سوچ سمجھ کر چوتھی اننگز سے پہلے ہیوی رولر استعمال کرنا چاہیے تھا۔ یہ انگلینڈ ہے پاکستان نہیں۔ جہاں ہیوی رولر سے وکٹ ٹوٹ جائے۔ انہیں اولڈ ٹریفورڈ کو نیشنل اسٹیڈیم یا یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس سمجھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہاں ہیوی رولر سے وکٹ ڈیڈ اور سلو ہو جاتی ہے اور سلو ٹرن کو کھیلنا نسبتا آسان ہوتا ہے۔’

پاکستان کا بولنگ اٹیک کم تجربہ کار

عالیہ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان میچ دو اہم مواقع کی وجہ سے ہارا۔ پہلے تو جب دوسری اننگز میں پوری ٹیم 169 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی اور دوسرا جب بالرز انگلش بیٹسمین کے آگے بے بس نظر آنے لگے۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد عباس بہت اچھے بالر ہیں لیکن دوسری اننگز میں وہ اتنے موثر ثابت نہیں ہوتے جتنے پہلی اننگز میں ہوتے ہیں۔

ان کے بقول شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ دونوں کا تجربہ کم ہے اور وہ صاف نظر آ رہا تھا کہ نہ تو وہ باؤنسر کرا پا رہے تھے۔ نہ ہی یارکر اور نہ ہی وہ اٹیک کر پا رہے تھے۔ ایسے موقع پر جب فاسٹ بالرز بیٹسمین کو تنگ کرنے کی یا زخمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم نے انہیں کھیلنے دیا اور وہ کھیلتے چلے گئے۔

مرزا اقبال بیگ نے بھی یاسر شاہ پر انحصار کو مستقبل کے لیے تشویشناک قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس میچ سے قبل بھی یاسر شاہ نے 39 میچز میں 213 وکٹیں حاصل کی تھیں جو مخالف ٹیم کے بالرز کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ شاہین اور نسیم دونوں نئے بالرز ہیں جب کہ محمد عباس بھی کوئی خاص تجربہ کار نہیں ہیں۔ اس میچ میں بالنگ اٹیک کا کم تجربہ بھی انگلینڈ کے کافی کام آیا۔

عتیق الزماں سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بالنگ اٹیک کا تجربہ پریشان کن نہیں۔ انہیں بیٹنگ نہ آنا تشویش ناک ہے۔

ان کے بقول بالنگ اٹیک میں یاسر شاہ، محمد عباس اور شاہین شاہ آفریدی ہیں جنہیں آپ نیا کھلاڑی تو نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ انگلینڈ کی بیٹنگ کی تعریف کریں کیوں کہ جس طرح وہ کھیلے وہ قابل تعریف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی بیٹنگ سے سیکھنا چاہیے۔ ہمارے ٹیل انڈرز کا فرض بنتا ہے کہ تھوڑے بہت رنز اسکور کریں۔ لگتا تو ایسا ہے کہ ہمارے بالرز چائے رکھ کر جاتے ہیں اور چائے ٹھنڈی بھی نہیں ہوتی کہ آؤٹ ہو کر واپس پویلین آ جاتے ہیں۔

ان کے مطابق بالرز کا کام ہے کہ نیٹ پر بیٹنگ پریکٹس بھی کریں اور کوچز سے کچھ سیکھیں۔

اگلے میچ میں پاکستان کو کیا تبدیلیاں کرنا ہوں گی؟

عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ اگلے میچ میں پاکستان کو کنڈیشنز دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کیوں کہ دونوں ٹیسٹ ساؤتھ ہیمپٹن میں ہیں جہاں کی وکٹ بیٹنگ کے لیے زیادہ سازگار ہے۔

ان کے بقول پاکستان کو چاہیے کہ اگلے میچ میں شاداب کی جگہ ایک بیٹسمین کو کھلائے۔ فواد عالم کی موجودگی سے اگر فرق پڑتا ہے تو انہیں الیون میں جگہ ملنی چاہیے اور اگر وکٹ اسپنر کے لیے سازگار لگتی ہے تو پھر کاشف بھٹی کو استعمال کرکے دیکھیں۔

عالیہ رشید نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیم کو اپنے کمبینیشن پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اولڈ ٹریفورڈ میں ناکامی ملک سے باہر مسلسل ساتویں شکست ہے۔

ان کے مطابق جتنی شاداب نے بیٹنگ کی اتنی تو وہاب ریاض بھی کر سکتے ہیں۔ اوپر سے ان کا تجربہ بھی زیادہ ہے اور انہیں ریورس سوئنگ بھی کرنا آتی ہے۔ قومی ٹیم کو اگلے میچ میں ایک تجربہ کار بالر فاسٹ بالر کو کھلانا ہو گا کیوں کہ اسپنر کی جگہ تو یاسر شاہ ہی کھیلیں گے۔

مرزا اقبال بیگ کا ماننا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ فواد عالم کو فائنل الیون میں شامل کیا جائے وہ بھی شاداب خان کی جگہ پر۔

ان کے مطابق پاکستان کو اگلے میچوں میں چھ مستند بیٹسمینوں کے ساتھ جانا چاہیے۔ فواد عالم کو شاداب خان کی جگہ ٹیم میں شامل کرنے کے علاوہ اگر کوئی تبدیلی کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ ایک ہی تبدیلی کافی ہوگی۔

سابق وکٹ کیپر عتیق الزماں سمجھتے ہیں کہ قومی ٹیم کو فواد عالم کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر اسپنر کھلانا ہی ہے تو لیفٹ آرف اسپنر کھلائیں تاکہ اٹیک میں فرق تو ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے میچ میں پاکستان کو چاہیے کہ شاداب خان کی جگہ تجربہ کار فواد عالم کو ٹیم میں شامل کریں۔

ان کے بقول اگر دو اسپنر کھلانے کا اتنا ہی شوق ہے تو کاشف بھٹی کو کھلایا جا سکتا ہے جو فنگر اسپنر ہے۔ جس کی کمی پہلے میچ میں محسوس ہوئی۔ اس پچ پر اگر وہ کھیلتے تو بہت فائدہ ہوتا۔ جتنی شاداب بیٹنگ کر سکتا ہے اتنی تو کاشف کو بھی آتی ہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس کی 25 کی اوسط ہے اور دو سنچریاں بھی بنا چکا ہے۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔