کراچی —
دنیا بھر کے بہترین ایتھلیٹس کے ساتھ مقابلہ کرنا، ان سے سیکھنا اور سب سے اہم ان کے درمیان اپنی شناخت بنانا ہر ایتھلیٹ کا خواب ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں خواتین اسپورٹس کی حوصلہ افزائی میں کمی کی وجہ سے یہ اختیار صرف اسپورٹس مین کے پاس ہی رہا ہے، اسپورٹس ویمن کے پاس نہیں۔
ایسے میں پاکستان کی ٹاپ بیڈمنٹن اسٹار ماحور شہزاد کو اولمپکس میں شرکت کا پروانہ ملنا، نہ صرف ان کے لیے بلکہ پاکستان میں خواتین ایتھلیٹس کے لیے بھی کسی کامیابی سے کم نہیں۔
پاکستان کی نمبر ون بیڈ منٹن پلیئر رواں برس ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کریں گی۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے مطابق ماحور کی کارکردگی اور بہتر عالمی رینکنگ کی وجہ سے انہیں ایونٹ میں انوی ٹیشنل پلیس (وائلڈ کارڈ انٹری) مل گئی ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے کسی بھی بیڈمنٹن کھلاڑی، مرد یا خاتون، نے اس لیول پر ملک کی نمائندگی نہیں کی۔ ماحور شہزاد ٹوکیو اولمپکس میں بیڈمنٹن میں پاکستان کی نہ صرف نمائندگی کریں گی، بلکہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں اولمپئن کہلانے والی مجموعی طور پر بارہویں کھلاڑی بن جائیں گی۔
‘دیرینہ خواب پورا ہو گیا’
ماحور شہزاد کا کہنا ہے کہ اولمپک گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرنا ان کا دیرینہ خواب تھا، جو پورا ہونے جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اولمپک مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنا نہ صرف ان کے یا ان کے اہلِ خانہ کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے خوشی کی بات ہے۔
ان کے بقول، "میں پوری کوشش کروں گی کہ ایونٹ میں اپنی بہترین کارکردگی دکھا کر پاکستان کا نام روشن کروں۔”
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کا موقع مل جاتا تو وہ بیڈمنٹن کی عالمی رینکنگ میں سرِفہرست 100 کھلاڑیوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتیں۔
پاکستان کی خواتین ایتھلیٹس کی اولمپک مقابلوں میں کارکردگی
قیامِ پاکستان کے اگلے سال ہی خود بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے سامنے پہلے اولمپک دستے کو روانہ کیا تھا۔ لیکن 1948 سے لے کر 1992 تک پاکستان کی نمائندگی صرف مرد ایتھلیٹس نے ہی کی۔
ہاکی کے مقابلے ہوں، ایتھلیٹکس ہو یا باکسنگ۔ پاکستان نے ‘آل میل’ دستہ ہی مقابلوں میں شرکت کے لیے روانہ کیا۔ لیکن 1996 میں اٹلانٹا میں ہونے والے اولمپک گیمز میں یہ سب کچھ اس وقت تبدیل ہوا جب شبانہ اختر نے ویمنز لانگ جمپ ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
وہ کوالیفائنگ راؤنڈ سے تو آگے نہیں جاسکی تھیں لیکن تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ ‘پاکستان کی پہلی خاتون اولمپئن’ کے نام سے سامنے آئے گا۔
چار سال بعد سڈنی اولمپکس میں پاکستان کی شازیہ ہدایت نے ویمنز 1500 میٹر دوڑ میں شرکت کی اور ان کا سفر کوالی فائنگ راؤنڈ میں ہی ختم ہو گیا تھا۔
اسی طرح 2004 میں ایتھنز اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی ایک نہیں بلکہ دو ویمن ایتھلیٹس نے کی۔ سمیرا ظہور نے 1500 میٹر ریس کی ہیٹ میں اور سوئمر رباب رضا نے 50 میٹر فری اسٹائل میں حصہ لے کر ہمیشہ کے لیے اپنا نام اولمپکس کے ساتھ جوڑ دیا۔
بعدازاں ہر چار سال بعد اولمپکس میں پاکستان کے دستے میں خواتین کی تعداد بڑھنے لگی۔ 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں صدف صدیقی نے 100 میٹر ریس کی ہیٹ میں حصہ لیا جب کہ سوئمر کرن خان نے 50 میٹر فری اسٹائل ریس میں شرکت کی۔ یہ دونوں خواتین کوالی فائنگ راؤنڈ سے تو آگے نہ جاسکیں لیکن انہیں عالمی اسٹیج پر دیکھ کر کئی لوگ متاثر ہوئے۔
سال 2012 کے لندن اولمپک گیمز میں بھی دو پاکستانی ویمن ایتھلیٹس نے شرکت کی۔ رابعہ عاشق نے 800 میٹر ٹریک ریس کی ہیٹ میں اور سوئمر انعم باندے نے ‘400 میٹر کی انفرادی میڈلے’ میں شرکت کی۔ لیکن مین ایونٹ کے لیے کوالی فائی نہ کرسکیں۔
آخری بار جب پاکستان نے ریو ڈی جنیرو اولمپکس میں حصہ لیا تو اس کے دستے کی تعداد سات تھی جس میں تین خواتین اور چار مرد ایتھلیٹس شامل تھے۔
ان تین میں سے ایک ایتھلیٹ نجمہ پروین تھیں جنہوں نے 200 میٹر کی دوڑ میں شرکت کی لیکن مین ایونٹ سے قبل ہی باہر ہو گئیں۔
نجمہ پروین کے علاوہ شوٹنگ کی دس میٹر ایئر رائفل ایونٹ میں مناہل سہیل نے شرکت کی جب کہ سوئمر لیانا سوان نے 50 میٹر فری اسٹائل میں حصہ لیا لیکن مین راؤنڈ میں کوئی نہ پہنچ سکا۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہاکی ٹیم کی غیر موجودگی میں پاکستان کے مرد ایتھلیٹس بھی ایونٹ میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔
ماحور کی اولمپکس میں انٹری؛ پاکستان کے لیے ٹیسٹ کیس
معروف اسپورٹس جرنلسٹ عافیہ سلام کا شمار پاکستان کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اسپورٹس جرنلزم میں اس وقت قدم رکھا، جب اس پر مردوں کا راج تھا، لیکن وہ اس میدان میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسپورٹس ہو یا اسپورٹس جرنلزم، ہر جگہ خواتین کے لیے حالات سازگار نہیں رہے جس کی وجہ سے صرف درجن بھر خواتین ایتھلیٹس ہی اسپورٹس کے سب سے بڑے اسٹیج پر پاکستان کی نمائندگی کر سکیں۔
ان کے بقول، "قیام پاکستان سے لے کر اب تک، صرف درجن بھر خواتین کا اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کرنا اس دعوے کی قلعی کھول دیتا ہے، جس کے مطابق پاکستان اسپورٹس میں سب اچھا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ویمن اسپورٹس کو کبھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی اور نہ ہی خواتین ایتھلیٹس کو موقع دیا جاتا ہے۔
عافیہ سلام کے مطابق، پاکستان میں کھیلوں کے کرتا دھرتا خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کا موازنہ مرد ایتھلیٹس سے کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ہر طرح سے غلط ہے۔ ان کے بقول یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کھیلوں میں تمام سہولیات مردوں کے پاس ہوتی ہیں اور پھر بھی اس معیار کو کسوٹی بناکر فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے کہ خواتین کو تو کچھ آتا ہی نہیں۔
‘ماحور پر دباؤ ڈالنے سے بہتر ہے انہیں نیچرل کھیل کھیلنے دیں’
عافیہ سلام کہتی ہیں، ماحور شہزاد کی اولمپکس تک رسائی پاکستانی حکام کے لیے کسی ٹیسٹ کیس سے کم نہیں، وہ چاہیں تو اس کو بنیاد بنا کر آئندہ کے لیے آنے والی خواتین ایتھلٹس کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان سے خواتین اسپیشل اولمپکس اور پیرا لمپکس میں گئی ہیں، تو انہوں نے اپنا اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ان کے بقول ماحور پر اپنی توقعات کا بوجھ ڈالنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تا کہ وہ نتیجے سے بے پرواہ ہو کر کھلے ذہن کے ساتھ کھیل سکیں۔
عافیہ سلام کا مزید کہنا تھا کہ ماحور شہزاد ایک اسپورٹس ویمن ہیں۔ وہ جیسا بھی پرفارم کریں گی سب کو ان کا ساتھ دینا ہوگا۔