کراچی —
کسی بھی کھیل کے لیے کھلاڑی کا فٹ ہونا شرط ہے۔ بعض کھیل ایسے ضرور ہیں جس کے لیے تندرست اور مضبوط اعصاب کے کھلاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے جیسے کہ ریسلنگ، رگبی، ہیوی ویٹ باکسنگ وغیرہ، لیکن اگر کھلاڑی ان فٹ ہو تو کسی بھی کھیل میں نہیں چل سکتا۔
کرکٹ کے کھیل میں کھلاڑی کو پچاس سے لے کر نوے اوورز تک فیلڈ میں رہنا ہوتا ہے۔ جس میں وکٹ کے درمیان بھاگنا صرف چاق و چوبند افراد کے بس کی ہی بات ہے۔ اگر بالر کا وزن زیادہ ہو تو گھٹنے، ٹخنے اور مختلف قسم کی انجریز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایسے میں ویسٹ انڈیز کے بھاری بھرکم آل راؤنڈر راحکیم کورنوال کی ٹیسٹ کرکٹ میں انٹری نے اس تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
راحکیم کا وزن نہ صرف 300 پاؤنڈ سے زیادہ ہے بلکہ اُن کا قد بھی ساڑھے چھ فٹ کے قریب ہے۔ اس خدوخال کے ساتھ وہ نہ صرف دنیا کے بھاری ترین کرکٹر ہیں بلکہ انگلینڈ کے خلاف تیسرے میچ میں شرکت کر کے انہوں نے ثابت کیا کہ زیادہ وزن سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
افغانستان کے خلاف ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لینے والا یہ کھلاڑی ویسٹ انڈیز کا وہ ہتھیار ہے جسے دیکھ کر ہی دوسری ٹیم کے حوصلے پست پڑ جاتے ہیں۔
ستائیس سالہ نوجوان کے پاس کرکٹ کا سب سے بھاری کھلاڑی ہونے کا اعزاز تو ہے ہی دیکھنا یہ ہے کہ یہ اور کون کون سے اعزازات اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
راحکیم کرکٹ کے پہلے بھاری بھرکم کھلاڑی ہیں اور نہ ہی آخری۔ اگر بھاری بھرکم کرکٹرز کی ایک ٹیم بنائی جائے تو اس میں اُن کا نام نمایاں ہو گا۔
آئیے ایسے 15 وزنی کھلاڑیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی ٹیم کو ورلڈ چیمپئن بنایا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ میں کئی عرصے تک راج بھی کیا۔
ارجنا راناٹنگا (2000-1982)
جس طرح وسیم اکرم نے بائیں ہاتھ سے بالنگ کرنے والوں کو حوصلہ دیا کہ وہ کرکٹ میں اپنا منفرد مقام بناسکتے ہیں، عبدالقادر نے لیگ اسپین بالنگ کو زندہ کیا اور جاوید میانداد نے بیٹسمینوں کو سکھایا کہ سنگل اور ڈبل سے بھی میچ جیتا جا سکتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سری لنکا کے سابق مایہ ناز کپتان ارجنا رانا ٹنگا نے بہت زیادہ تندرست کھلاڑیوں کو حوصلہ دیا کہ موٹاپے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انسان میں حوصلہ اور عزم ہو تو ٹیسٹ کرکٹ میں پانچ ہزار رنز، ون ڈے میں ساڑھے سات ہزار رنز کیا چیز ہیں بلکہ ورلڈ کپ بھی جیتا جا سکتا ہے۔
ارجنا راناٹنگا ہمیشہ سے ہی بھاری بھرکم جسم کے مالک نہیں تھے۔ اسّی کی دہائی میں وہ بھی عام کرکٹرز کی طرح فٹ کھلاڑی تھے لیکن ڈھلتی عمر اور بڑھتے وزن نے ان کو فٹ سے ان فٹ بنا دیا۔
موٹاپے کے باوجود راناٹنگا فیلڈ پر نہ تو کسی سے کم تھے اور نہ ہی بیٹنگ کرتے وقت ان کا کوئی مقابل تھا۔
اس لیے اگر بھاری بھرکم کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم بنائی جائے تو اس کی کپتانی کی ذمہ داری بھی راناٹنگا کو دی جا سکتی ہے، جو کھلاڑیوں کے لیے امپائر سے بھی لڑ سکتا تھا اور اپنے ہم وطنوں کے لیے ورلڈ کپ تک لا سکتا تھا۔
ڈیوڈ بون (1996-1984)
آسٹریلیا کے سابق کرکٹر ڈیوڈ بون موٹے ضرور تھے مگر کاہل نہیں۔ اسّی اور نوے کی دہائی میں آسٹریلیا کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا اور جب ان کی ٹیم مشکل میں پڑی اس بڑی بڑی مونچھوں والے بیٹسمین نے ٹیم کو سہارا دیا اور لمبی اننگز کھیلی۔
وکٹوں کی درمیان دوڑتے وقت ڈیوڈ بون سے پہلے اُن کا پیٹ کریز میں داخل ہوتا تھا۔ شاید اسی لیے کئی میچز میں جب بالرز اُنہیں آؤٹ نہیں کر پا رہے تھے تو اُنہیں رن آؤٹ کر کے واپس پویلین بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جاتی۔
ٹیسٹ کرکٹ میں سات ہزار، ون ڈے میں تقریباً چھ ہزار رنز بنانے والے ڈیوڈ بون آج کل انٹرنیشنل کرکٹ سے بطور میچ ریفری جڑے ہوئے ہیں۔
جس طرح ان کا شمار اپنے زمانے کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا تھا۔ اسی طرح بہترین میچ ریفریز کی فہرست میں بھی ان کا نمبر ٹاپ پر ہی ہے۔
مارک ٹیلر (1999-1989)
جس نے 1990 کی دہائی میں کرکٹ دیکھی ہے۔ اس کے لیے اس بات کا جواب دینا مشکل ںہیں کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی مارک ٹیلر آخر دبلے کب تھے۔ ایلن بارڈر کے بعد انہوں نے آسٹریلوی ٹیم کی قیادت بہترین انداز میں کی اور ٹیسٹ کرکٹ میں 157 کیچز لے کر ثابت کر دیا کہ موٹا ہو یا دبلا کرکٹر۔۔۔ کرکٹ کے لیے دماغی طور پر فٹ ہونا ضروری ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں 334 ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلنے سمیت 19 سنچریاں بنانے والے مارک ٹیلر یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان کا پیٹ ضرور باہر نکلا ہوا تھا لیکن اس سے ان کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
انضمام الحق (2007-1991)
اگر فیلڈنگ کی بات ہو تو جنوبی افریقی کھلاڑی جونٹی روڈز سب کو یاد آتے ہیں اور جونٹی روڈز کی یاد آتے ہی انضمام الحق کا نام ذہن میں آتا ہے جو اس وقت تو ایک اچھے فیلڈر کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے لیکن بعد میں اپنے وزن کی وجہ سے یا تو کئی بار عجیب طریقوں سے آؤٹ ہوئے یا انہوں نے ساتھی بیٹسمین کو پویلین بھیجا۔
نمایاں کارکردگی کے باوجود انضمام الحق رن آؤٹ ہونے کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔ وہ کئی مرتبہ ایسے آؤٹ ہوئے جیسے اس دن سے پہلے کرکٹ ہی نہ کھیلی ہو، بھلا کریز سے باہر نکل کر کون سا بیٹسمین زمین بوس ہو جاتا ہے یا اسپنر کی گیند پر سوئپ مارتے ہوئے وکٹوں پر ہی جا گر جاتا ہے۔
انضمام الحق اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں ریکارڈ بنانے کے چکر میں ایسے اسٹمپ ہوئے جیسے یہ ان کا پہلا میچ تھا اور آنے والی گیند میچ کی آخری گیند تھی۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں 20 ہزار سے زائد رنز بنانے والے انضمام الحق ایک مرتبہ کینیڈا کے گراؤنڈ میں موجود ایک تماشائی کی بیٹ سے پٹائی کرتے کرتے رہ گئے تھے۔ کیوں کہ تماشائی نے بھاری بھرکم وزن کی وجہ سے اُنہیں آلو کہا تھا۔
انہوں نے 120 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 25 سنچریوں اور 46 نصف سنچریوں کی بدولت 8830 رنز بنائے۔ ون ڈے کرکٹ میں بھی انضمام الحق 11 ہزار سے زیادہ اسکور کر چکے ہیں۔
شین وارن (2007-1992)
دنیا کی تاریخ میں اگر کسی کرکٹر کو اپنے موٹاپے کی وجہ سے نقصان ہوا تو وہ تھے آسٹریلیا کے شین وارن۔ 1992 میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے لیگ اسپنر نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے دوران بیٹسمین ڈیرل کلینن سے موٹاپے پر ہی باتیں سنیں اور پھر 2003 کا ورلڈ کپ ایک ایسی دوا کی وجہ سے چھوٹا جس سے نہ صرف وزن کم ہوتا تھا بلکہ جس کا استعمال آئی سی سی کی جانب سے ممنوع تھا۔
موٹاپے کے باوجود شین وارن نے اپنی عمدہ کارکردگی کی بدولت 1996 کے ورلڈ کپ میں انہوں نے اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچایا۔ 1999 میں ورلڈ کپ جتوایا اور پھر متعدد بار ایشز میں اپنی جادوئی بالنگ سے سیریز کا پانسہ بھی پلٹا۔
شین وارن نے ٹیسٹ کرکٹ میں 708 اور ون ڈے میں 293 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ ان دنوں اپنے زمانے کے کرکٹرز کی طرح کمنٹری کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔
جیسی رائیڈر (2014-2008)
نیوزی لینڈ کے سابق کرکٹر جیسی رائیڈر اپنے وزن کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ اور بیٹنگ میں جارح مزاجی کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔
رائیڈر بیٹنگ کرتے تو جارحانہ، بولنگ کرتے تو وکٹ لیتے اور فیلڈ میں ہوتے تو کیچ پکڑ کر ٹیم کا مورال بڑھاتے۔ لیکن آف دی فیلڈ لڑائی جھگڑے اور آئے دن شراب خانوں میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ان کے کریئر کا گراف نیچے سے نیچے جاتا رہا۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں انہوں نے چھ سنچریاں اسکور کیں جس میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ میں ایک ڈبل سنچری بھی شامل ہے۔ لیکن زندگی میں یہ اوپننگ بیٹسمین مسلسل آؤٹ ہونے کی وجہ سے ایک دن ٹیم سے بھی ہمیشہ کے لئے باہر ہوگیا۔
مائیک گیٹنگ (1995-1977)
مائیک گیٹنگ کا نام آتے ہی سب کو یا تو پاکستانی امپائر شکور رانا سے بدتمیزی کرنے والا انگلش کپتان یاد آجاتا ہے، یا پھر شین وارن کی گیند پر کلین بولڈ ہونے والا بیٹسمین. لیکن بال آف دی سنچری کا شکار ہونے والے مائیک گیٹنگ کے کارنامے کسی کو نہیں یاد آتے۔
ایشز سیریز میں کامیابی ہو، ورلڈ کپ کے فائنل تک ٹیم کی رسائی ہو یا پھر ٹیسٹ کرکٹ میں دس سنچریاں بنانا۔ مائیک گیٹنگ نے اپنے وزن کو ملحوظ خاطر نہ لاتے ہوئے اٹھارہ سال تک انگلینڈ کی نمائندگی کی۔ اگر وہ 1990 کے آغاز میں جنوبی افریقہ کا دورہ نہ کرتے تو آج اُن کا شمار انگلش لیجنڈز میں ہوتا۔
اکرم خان (2003-1988)
بنگلہ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اکرم خان کو اگر بنگلہ دیش کا ارجنا راناٹنگا کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ انہوں نے اپنے کریئر کے دوران انٹرنیشنل میچز میں اتنا وقت نہیں گزارا جتنا بنگلہ دیش کی ٹیم کو ایک ایسا یونٹ بنانے میں جو دنیا کی کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکے۔
ورلڈ کپ 1999 میں بھی وہ اس ٹیم کا رکن تھے جس نے پاکستان کو شکست دے کر تہلکہ مچا دیا تھا۔ لیکن اکرم خان کو لوگ ان کے وزن اور اس کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ جانتے ہیں۔
ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ رنز بھاگنے سے زیادہ رنز اسکور کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور شاید اسی لیے آٹھ ٹیسٹ میں 259 رنز میں سے انہوں نے آدھے سے زیادہ رنز گیند کو باؤنڈری پار بھیج کر بنائے۔
این بوتھم (1992-1976)
دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز کی بات ہو گی تو اس میں جہاں عمران خان کا نام آئے گا وہیں انگلینڈ کے این بوتھم بھی شامل ہوں گے۔
انگلش آل راؤنڈر نے اپنے 16 سالہ کریئر کے دوران دو ورلڈ کپ فائنلز کھیلے۔ ایشز سیریز کے کئی میچز میں تن تنہا ٹیم کو کامیابی دلائی، دنیا کی ہر ٹیم کے خلاف شاندار کھیل پیش کیا۔ لیکن کریئر کے آخری دنوں میں اپنے وزن کی وجہ سے ان کا پرفارمنس گراف نیچے سے نیچے جاتا رہا۔
اسی لیے 1992 میں پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں کامیابی اور ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کر کے کمنٹری کے شعبے کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔
محمد شہزاد (2019-2009)
جس طرح آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ ون ڈے میں بیٹنگ بھی اوپن کرتے تھے اور وکٹ کیپنگ بھی۔ اسی طرح افغانستان کے بھاری بھرکم محمد شہزاد نے بھی دس سال تک اپنی ٹیم کی اوپنگ اور وکٹ کیپنگ کی ذمہ داری نبھائی۔
ایشیا کپ کے دوران بھارت کے خلاف ون ڈے سنچری ان کی پہلی سنچری نہیں تھی۔ وہ اس سے قبل بھی کئی ٹیموں کے خلاف سو سے زائد رنز بنا چکے تھے۔ لیکن بھاری بھرکم ہونے کے باوجود وکٹ کے پیچھے شاندار کارکردگی دکھانا اور بغیر تھکے اننگز کا آغاز کرنا۔ یہ نارمل کھلاڑی کے لیے مشکل کام ہے۔
سمت پٹیل (2015-2008)
سمت پٹیل کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جن کو مواقع تو کئی ملے لیکن اپنی غیر سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے وہ نہ تو ٹیم میں مستقل جگہ بنا سکے اور نہ ہی توقعات پر پورا اتر سکے۔
انگلینڈ جیسے ملک کی جانب سے ٹاپ کلاس کرکٹ کھیلنے کے بعد کوئی دوسرا بالر ہوتا تو اپنا وزن بھی کم کرتا اور فٹنس پر توجہ دیتا لیکن سمت پٹیل نے ان دونوں کاموں میں سے کچھ بھی نہیں کیا.
اسی وجہ سے ون ڈے میں بحیثیت بیٹسمین 93 کا اسٹرائیک ریٹ ہونے کے باوجود وہ سات سال میں صرف 36 ون ڈے اور چھ ٹیسٹ میچ ہی کھیل سکے۔
پانچ فٹ آٹھ انچ لمبے اس کھلاڑی کا کریئر وزن کم نہ کرنے کی وجہ سے جلد ہی ختم ہو گیا۔ صرف 31 سال کی عمر میں وہ ایک سابق انٹرنیشنل کرکٹر بن گئے جو انٹرنیشنل لیگز میں شرکت کر کے اپنے ٹیلنٹ سے دوسری ٹیموں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
مرو ہیوز (1994-1985)
اگر آسٹریلوی ٹیم میں ڈیوڈ بون اپنے وزن اور منفرد مونچھوں کے باوجود جینٹل جائنٹ کے طور پر جانے جاتے تھے تو اسی ٹیم میں ایک مرو ہیوز بھی تھا جسے مخالف کھلاڑیوں سے الجھنے کی عادت تھی۔
لمبے چوڑے اور کسی بھی حوالے سے انٹرنیشنل کرکٹر نظر نہ آنے والے اس کھلاڑی نے ٹیسٹ کرکٹ میں 212 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ وہ کبھی جاوید میانداد سے تو کبھی وسیم اکرم سے الجھ جاتے۔ بغیر یہ سوچے کہ اگر ان کھلاڑیوں سے بیٹنگ میں سامنا ہو گیا تو وہ کیا حشر کریں گے۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک میچ کے دوران جاوید میانداد نے مرو ہیوز کو بس کنڈکٹر سے تشبیہ دی جس کے بعد ماسٹر بیٹسمین کو نہ صرف اس نے آؤٹ کیا بلکہ واپس جاتے ہوئے ان سے ٹکٹ بھی مانگا۔ آج کل وہ آسٹریلوی ٹیم کے ساتھ بحیثیت سلیکٹر کام کر رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے کوئی کپتان ان سے کھلاڑیوں کی سلیکشن سے متعلق الجھنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔
ڈوین لیویروک (2009-2006)
کرکٹ ورلڈ کپ 2007 کے یادگار ترین لمحات میں شامل ہے وہ کیچ جو برموڈا کے دیوہیکل کھلاڑی ڈوین لیویروک نے بھارت کے خلاف پکڑا تھا۔
گیند آنے سے پہلے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ دو سو اسی پاؤنڈ وزنی یہ کھلاڑی سلپ میں کیا کر رہا ہے، لیکن رابن اوتھاپا کے آؤٹ ہونے کے بعد جو جشن ہوا اس کے بعد کسی نے اور کچھ نہیں سوچا۔
لیوروک نے اپنی لیفٹ آرم اسپین بالنگ سے 32 میچز میں 34 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اگر وہ برموڈا کے علاوہ کسی اور ٹیم میں ہوتے تو ان کا وزن کافی کم ہوتا اور آج ان کا شمار دنیا کے اچھے بالرز میں ہوتا۔
سر ڈبلیو جی گریس (1899-1880)
کرکٹ کے بابا سر ڈبلیو جی گریس کے گریس کی وجہ ان کا ڈاکٹر ہونا یا ان کی گھنی داڑھی نہیں بلکہ ان کا لمبا قد اور ان کا وزن تھا۔
انہوں نے اس زمانے میں کرکٹ کھیلی جب صرف کرکٹ کھیلنا آنا ہی سلیکشن کی ضمانت ہوتا تھا، وہ انگلینڈ کی جانب سے 51 سال کی عمر تک انٹرنیشنل کرکٹ سے منسلک رہے اور 19 سال تک اپنے ملک کی نمائندگی کی۔
تصاویر کے برعکس جس میں وہ کافی بھاری بھرکم نظر آتے ہیں ان کا وزن عالم جوانی میں صرف 70 کلو گرام اور قد چھ فٹ کے لگ بھگ تھا۔ آخری دنوں میں بڑھتے وزن اور ڈھلتی عمر کی وجہ سے انہوں نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔