کراچی —
شہریار خان کا شمار پاکستان کے تجربہ کار سفارت کاروں میں ہوتا تھا۔ انگلینڈ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہریار خان 1957 میں دفترِ خارجہ کا حصہ بن گئے تھے۔ شہریار خان نے کرکٹ ایڈمنسٹریشن میں اپنے تجربات کو متعدد تصانیف کی شکل میں شائع بھی کیا۔ |
سابق سفارت کار مصنف اور دو بار پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین رہنے والے شہریار محمد خان 89 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی میں ہو گی۔
شہریار خان کا شمار پاکستان کے تجربہ کار سفارت کاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے طویل کریئر کے دوران کبھی سفیر تو کبھی سیکریٹری خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
وہ کچھ عرصہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ بھی منسلک رہے، تاہم کرکٹ کے حلقوں میں انہیں ایک کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جہاں انہوں نے مینیجر اور چیئرمین بورڈ کے طور پر کئی کارنامے انجام دیے۔
یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بیٹی دینا واڈیا 56 سال کے وقفے کے بعد پاکستان آنے پر رضامند ہوئیں۔
انہیں سن 2004 میں ہونے والی پاک بھارت کرکٹ سیریز کے لیے مدعو کیا گیا تھا جہاں انہوں نے دونوں ٹیموں کے درمیان لاہور ون ڈے انٹرنیشنل میچ دیکھا۔
اس سے قبل وہ 1948 میں اپنے والد محمد علی جناح کی وفات کے بعد آخری مرتبہ پاکستان آئی تھیں۔
شہریار خان اور کرکٹ
شہریار محمد خان کا تعلق بھوپال کے نواب خاندان سے تھا جہاں وہ 1934 میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کی والدہ شہزادی عابدہ سلطان ہجرت کر کے پاکستان آ گئی تھیں۔
انگلینڈ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہریار خان 1957 میں دفترِ خارجہ کا حصہ بن گئے تھے اور اردن، برطانیہ اور فرانس جیسے اہم ممالک میں سفیر کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔
کرکٹ سے ان کا تعلق بہت پرانا تھا۔ ان کے سگے خالو افتخار علی خان پٹودی ان چند ٹیسٹ کرکٹرز میں سے ایک تھے جنہوں نے انگلینڈ اور بھارت دونوں کی نمائندگی کی۔
انہی کے بیٹے اور شہریار خان کے خالہ زاد بھائی منصور علی خان پٹودی نے بھارت کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ ان کا شمار بھارت کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا تھا۔ اس رشتے سے وہ سیف علی خان کے چچا ہوئے جو بالی وڈ کے کامیاب اداکاروں میں سے ایک ہیں۔
شہریار خان نے بھی زمانہ طالب علمی میں باقاعدگی سے انگلینڈ میں کلب کرکٹ کھیلی، تاہم بعد میں مصروفیات کی وجہ سے وہ اسے جاری نہ رکھ سکے۔
لیکن جب 1999 میں پاکستان ٹیم کو بھارت کے دورے پر بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو اس کی مینیجر شپ کا قرعہ شہریار خان کے نام نکلا۔ انہی کی زیر نگرانی 12 سال بعد دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا انعقاد ہوا۔
یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ بھارتی انتہا پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان نے ٹیسٹ سیریز ڈرا کی اور ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کے میچ میں بھارت کو اس کی سر زمین پر شکست دی۔
ان کی شان دار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں 2003 کے ورلڈ کپ اسکواڈ کے ساتھ بطور مینیجر بھیجا گیا جب کہ اس وقت کے چیئرمین پی سی بی لیفٹننٹ جنرل توقیر ضیاء نے اپنے جانشین کے طور پر بھی شہریار خان کا ہی نام تجویز کیا تھا۔
پندرہ سال کے وقفے کے بعد بھارت کو ٹیسٹ کھیلنے کے لیے پاکستان لانے کا سہرا شہریار خان کے سر جاتا ہے۔
شہریار خان سیاسی شخصیت تو نہیں تھے اور نیوٹرل ہونے کی وجہ سے انہیں دو بار پی سی بی کا چیئرمین مقرر کیا گیا، وہ دسمبر 2003 سے اکتوبر 2006 اور اکتوبر 2014 سے اکتوبر 2017 کے درمیان اس عہدے پر فائز رہے۔
جب جون 2017 میں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کیا، اس وقت بھی شہریار خان ہی بورڈ کے چیئرمین تھے۔
انہیں سفارت کاری میں لمبی اننگز کھیلنے کی وجہ سے بھارت سمیت دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سابق صدور راج سنگھ ڈونگرپور اور جگ موہن ڈالمیا کا شمارا ن کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔
انہی تینوں کی وجہ سے 2004 میں 15 سال کے وقفے کے بعد بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آ کر ٹیسٹ سیریز کھیلی۔ دونوں ٹیموں نے اس سے قبل 1989 میں آخری مرتبہ پاکستان کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی۔
اسی دورے پر انہوں نے سابق بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے پوتے اور پوتی اور سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے بچے پرینکا اور راہل گاندھی کو بھی پاکستان آنے کی دعوت دی تھی جسے انہوں نے قبول کیا تھا۔ جب کہ سابق جنوبی افریقی کوچ باب وولمر کو پاکستان کی کوچنگ پر آمادہ کرنے کا سہرا بھی شہریار خان کے سر ہے۔
سن 2005 میں پاکستان کے دورہ بھارت پر احمد آباد سے ٹیسٹ میچ منتقل کروانے کا معاملہ ہو یا اسپاٹ فکسنگ میں سزا پانے والے محمد عامر کو انگلینڈ کا ویزا دلوانا۔ شہریار خان کی کوششوں کی وجہ سے کئی مرتبہ پاکستان کے مؤقف کو درست تسلیم کیا گیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا کی بطور بگ تھری اجارہ داری کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں شہریار خان کا نام سرِفہرست تھا جسے آگے جاکر دیگر ممالک نے بھی تسلیم کیا۔
اوول گیٹ، شہریار خان کے بطور ایڈمنسٹریٹر کریئر کا سب سے مشکل دن
شہریار خان کے کریئر کے دوران کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جو پاکستان کرکٹ کی بدنامی کا باعث بنے۔ ان واقعات میں سرِ فہرست سن 2006 میں پیش آنے والا وہ واقعہ تھا جسے اب اوول گیٹ کا نام دے دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اوول کے مقام پر اس وقت پیش آیا جب پاکستانی بالرز پر امپائرز نے بال ٹیمپرنگ کا الزام لگا کر انگلینڈ کو پنلٹی رنز دے دیے تھے۔ کپتان انضمام الحق نے شہریار خان کے مشورے کے برعکس احتجاج کیا جس کے نتیجے میں میچ فارفیٹ کر کے انگلینڈ کو ایوارڈ کر دیا گیا تھا۔
انہی کے بطور چیئرمین پہلے دور میں میٹنگ کے لیے آئے ہوئے کپتان یونس خان نے صرف اس لیے استعفی دے دیا کیوں کہ انہیں چند منٹ انتظار کرنا پڑا تھا۔
شہریار خان کو دوسری مرتبہ اس وقت چیئرمین شپ دی گئی جب نجم سیٹھی اور ذکا اشرف اس عہدے کے لیے عدالتی جنگ میں مصروف تھے۔ اسی دور میں شہریار خان نے ایشین کرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ بھی سنبھالی تھی۔
شہریار خان نے کرکٹ ایڈمنسٹریشن میں اپنے تجربات کو متعدد تصانیف کی شکل میں شائع بھی کیا جس میں ‘کرکٹ کالڈرون’، ’کرکٹ اے برج آف پیس’ اور بھارتی مصنف ششی تھرور کے ساتھ لکھی گئی ’شیڈوز ا کروس دی پلیئنگ فیلڈ‘ شامل ہیں۔
ان کی دیگر تصانیف میں ‘دی بیگمز آف بھوپال’،اور ’دی شالو گریوز آف روانڈا’ قابلِ ذکر ہیں جس میں سے ایک میں انہوں نے اپنے خاندان کی خواتین پر بات کی تو دوسری میں افریقی ملک روانڈا میں اپنے گزارے ہوئے وقت کا ذکر کیا۔