پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے عبوری نتائج کا اعلان تو ہو گیا ہے اور اب نئی حکومت بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ — کراچی
آزاد امیدواروں کی نمایاں کامیابی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریں ان ہی آزاد امیدواروں پر ہیں۔
کچھ ایسے ہی حالات سن 2008 میں بننے والی ہالی وڈ فلم ‘سوئنگ ووٹ’ میں بھی دکھائے گئے ہیں جہاں امریکی صدارت کے عہدے کا دارومدار صرف ایک شخص کے ووٹ پر تھا۔
اس فلم میں اداکار کیون کوسٹنر نے ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جس کے ہاتھ میں امریکی عوام کی قسمت کا فیصلہ تھا۔ کیون کوسٹنر کے کردار بڈ جانسن کو صدارتی انتخابات سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا اور وہ صرف اپنی 12 سالہ بیٹی کے کہنے پر ووٹ ڈالتا ہے۔ لیکن مشین کی خرابی کی وجہ سے اس کا ووٹ رجسٹر یا کاسٹ نہیں ہو پاتا۔
انتخابات کے اختتام پر جب دونوں صدارتی امیدواروں کو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر بننے کے لیے انہیں صرف ایک ووٹ درکار ہے تو وہ بڈ جانسن کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔جیسے اس وقت پاکستان میں آزاد امیدواروں کو منانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔
فلم کے ذریعے ووٹ کی اہمیت کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ہالی وڈ فلموں اور الیکشن کا ساتھ!
الیکشن کے موضوع پر فلمیں بننے کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی سے ہوا تھا جس میں ‘دی منچورین کینڈیڈیٹ’ قابلِ ذکر ہے۔
تاہم 1972 میں ریلیز ہونے والی رابرٹ ریڈفرڈ کی فلم ‘دی کینڈی ڈیٹ’ میں پہلی مرتبہ صدارتی الیکشن کے نظام کو بھرپور انداز میں دکھایا گیا تھا۔
اس فلم میں ریڈفرڈ کے کردار بل مک کو صدارت کا امیدوار اس لیے بنایا جاتا ہے کیوں کہ اس کی پارٹی کو یقین ہوتا ہے کہ انہیں شکست ہو گی۔
لیکن جب صدارتی امیدوار کے والد اور سابق گورنر جان مک بیٹے کی حمایت میں سامنے آتے ہیں تو بازی ہی پلٹ جاتی ہے اور فلم کا ہیرو نہ صرف کرپشن اور دھاندلی کی کوششوں پر سے پردہ ہٹاتا ہے بلکہ اپنی سادہ سوچ اور ایمان داری کی وجہ سے الیکشن بھی جیت جاتا ہے۔
اسی طرح امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ری الیکشن کے گرد گھومنے والی فلم ‘آل دی پریزیڈنٹس مین’ کو بھی شائقین نے خوب پسند کیا تھا۔
اس فلم میں رابرٹ ریڈفرڈ نے مشہور صحافی باب وڈورڈ اور ڈسٹن ہاف مین نے کارل برنسٹین کا کردار نبھایا تھا۔
وڈورڈ اور برنسٹین امریکی اخبار ‘دی واشنگٹن پوسٹ’ کے وہ دو صحافی تھے جنہوں نے اُس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ری الیکشن کمیٹی کی بے ضابطگیوں اور غیرقانونی اقدامات کو رپورٹ کیا تھا۔ اس خبر کی وجہ سےامریکی صدر کو دوسری بار منتخب ہونے کے باوجود عہدہ چھوڑنا پڑ گیا تھا۔
رابرٹ دی نیرو اور دسٹن ہاف مین کی 90 کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘ویگ دی ڈوگ’ میں میڈیا کی طاقت دکھائی گئی تھی اور بتایا گیا تھا میڈیا کیسے ایک بڑے اسکینڈل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فلم میں دی نیرو نے ایک ایسے پبلک ریلیشنز اسپیشلسٹ کا کردار نبھایا تھا جنہیں الیکشن سے قبل منظرِ عام پر آنے والے امریکی صدر کے جنسی اسکینڈل سے توجہ ہٹانے کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔
فلم کی ریلیز کے بعد اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا اسکینڈل منظرِ عام پر آیا تھا۔
پاکستان اور بھارت میں الیکشن پر بننے والی فلمیں
بھارت اور پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بھی الیکشن کے موضوع پر کئی فلمیں بنی ہیں لیکن ان فلموں میں شاعر و ہدایت کار گلزار کی فلم ‘آندھی’ خاصی نمایاں رہی۔
اس فلم کی کہانی اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زندگی سے ملتی جلتی تھی۔
بھارتی حکومت نے فلم کے کردار کی وزیر اعظم سے مشابہت کی وجہ سے اس کی نمائش پر پابندی بھی لگائی تھی لیکن 1977 میں جب اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آئیں تو انہوں نے فلم ریلیز کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
اس کے علاوہ 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘نائیک: دی ریئل ہیرو’ اور ‘راج نیتی’ کی کہانیاں بھی سیاست اور الیکشن کے گرد گھومتی ہیں۔
یوں تو پاکستانی فلموں میں سیاست پر دبے انداز میں کافی بات کی گئی ہے لیکن جنرل الیکشن پر سید کمال کی فلم ‘سیاست’ وہ پہلی فلم تھی جس میں پاکستان کے سیاسی نظام پر بات کی گئی۔
اداکار و ہدایت کار سید کمال نے آزاد حیثیت میں متعدد الیکشن بھی لڑے لیکن وہ کبھی منتخب نہیں ہو سکے۔
سن 1986 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں انہوں نے الیکشن لڑنے اور پھر کامیاب نہ ہونے کی وجوہات اپنے انداز میں بیان کی ہیں۔