شوبز

‘سوشل میڈیا کے ذریعے اداکاروں کا سامنے آنا خوش آئند ہے’

Written by Omair Alavi

حال ہی میں اداکارہ منشا پاشا کی تیسری فلم ‘کہے دل جدھر’ سنیما میں ریلیز ہوئی ہے۔ اس سے قبل وہ 2017 میں ‘چلے تھے ساتھ’ اور 2019 میں ‘لال کبوتر’ میں کام کرچکی ہیں۔

کراچی — 

پاکستان کی اداکارہ منشا پاشا کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے کم وقت میں فلم اور ٹیلی وژن دونوں ہی میڈیم پر اپنی اداکاری کا جادو جگایا ہے۔ فلم ‘لال کبوتر’ میں عالیہ کا کردار ہو یا ڈرامہ ‘سرخ چاندنی’ میں ان کا منفی رول، دونوں ہی روپ میں انہیں پسند کیا گیا۔

منشا پاشا کا کہنا ہے کہ انہیں دونوں ہی میڈیم میں کام کرنا اچھا لگتا ہے، اسکرین چھوٹی ہو یا بڑی انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ پروجیکٹ اچھا ہو چاہے وہ کسی بھی میڈیم کا ہو۔

وائس آ ف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ "اگر پراجیکٹ اچھا ہے اور اس میں آپ کا کردار بھی اچھا ہے تو وہ فلم ہو یا ٹی وی، ان کے لیے سب برابر ہیں۔”

حال ہی میں اداکارہ منشا پاشا کی تیسری فلم ‘کہے دل جدھر’ سنیما میں ریلیز ہوئی ہے۔ اس سے قبل وہ 2017 میں ‘چلے تھے ساتھ’ اور 2019 میں ‘لال کبوتر’ میں کام کرچکی ہیں۔

منشا پاشا کی تینوں ہی فلموں میں ان کے کردار مختلف تھے۔ اداکارہ کے مطابق تینوں فلموں میں مختلف کردار کرنے کا فیصلہ ا ن کا اپنا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو ان کی فلموں کی تعداد تو زیادہ ہوتی لیکن لوگوں کو ان کے کردار یا د نہ رہتے۔

اداکارہ کے مطابق ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے ایسا پراجیکٹ ملے جو مختلف ہو، ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں آغاز میں ہی ‘لال کبوتر’ جیسا پراجیکٹ مل گیا۔ لیکن اس کے بعد انہیں اس طرح کی فلموں اور کرداروں کی پیشکش آنے لگیں۔

انہوں نے کہا وہ ایک جیسے کردار نہیں کرنا چاہتی تھیں اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب جو بھی فلم کیں گی وہ پچھلی فلم سے مختلف ہو۔

‘اب ڈراموں میں خواتین کو بھی بہتر کردار مل رہے ہیں’

پاکستانی ڈراموں میں عورتوں کے محدود کرداروں پر بات کرتے ہوئے منشا پاشا کا کہنا تھا کہ اب ہمارے ڈراموں میں عورتوں کے کردار صرف ساس اور بہو تک محدود نہیں رہے بلکہ آہستہ آہستہ بڑی عمر کی خواتین کی زندگی پر بھی بات کی جا رہی ہے۔

منشا پاشا کے مطابق ڈراموں میں اب بدلاؤ آرہا ہے، حدیقہ کیانی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جنہوں نے دو ڈراموں میں پختہ عمر عورت کا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ آہستہ آہستہ اب وہ کہانیاں سامنے آ رہی ہیں جس میں مختلف عمر کے لوگوں کو بھی مرکزی کردار دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب لکھنے والے کرداروں سے زیادہ کہانی کی طرف توجہ دے رہے ہیں، اگر کہانی خوبصورت ہو گی تو ہر عمر کے کردار اس میں اچھے لگیں گے۔

عام طور پر منشا پاشا کو ڈراموں میں زیادہ تر مثبت کردار ادا کرتے دیکھا گیا ہے لیکن جب انہوں نے ڈرامہ سیریل ‘سرخ چاندنی’ میں مرکزی ولن کا کردار نبھایا تھا تو ان کے چاہنے والوں کا ملا جلا ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔

'فلم ہو یا ٹی وی، پراجیکٹ اچھا ہو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا'

منشا پاشا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کردار کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا اور لوگوں کے ردِعمل سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ اس چیلنج پر پورا اتریں ہیں۔

اداکارہ نے بتایا کہ جب انہیں ‘سرخ چاندنی’کی پیشکش ہوئی تھی تو انہوں نے اس لیے حامی بھری تھی کیوں کہ انہوں نے کافی عرصے سے ولن کا کردار نہیں ادا کیا تھا اور اس ڈرامے کی کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی تھی جس کا چہرہ تیزاب پھینکے جانے کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اہم موضوع تھا جس میں انہوں نے ولن بن کر لوگوں کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی تھی۔

منشا پاشا سوشل میڈیا پر مختلف معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں، خواتین کے مسائل ہوں یا سائبر بلیئنگ جیسے واقعات، اداکارہ اہم واقعات پر بات کیے بغیر نہیں رہتیں۔

ان کے بقول انہیں جو بات صحیح لگتی ہے وہ اس پر تبصرہ کر دیتی ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ یہ بات کسی کو اچھی لگے گی یا بری۔ بس اتنا سوچتی ہیں کہ اگر آپ کی بات کسی پر اثر کر جائے تو اس سے بہتر کچھ نہیں ہوتا۔

گزشتہ برس منشا پاشا سیاست دان و سماجی کارکن جبران ناصر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھی۔ جبران ناصر سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے نوجوانوں میں خاصےمقبول ہیں۔ کیا جبران ناصر سے شادی کے بعد منشا پاشا بھی سیاست میں آئیں گی؟

اس بارے میں اداکارہ نے کہا کہ انہیں سیاست کے بارے میں پتہ تو ہے لیکن اس کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔وہ اپنے کام کو لے کر کافی مصروف رہتی ہیں اور اس میں ہی خوش ہیں۔ وہ جبران کے لیے صرف ایک سپورٹ سسٹم کے طور پر ہی رہیں گی۔

لیکن منشا پاشا نے پاکستان میں سیاسی ڈراموں کی کمی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینسرشپ کی وجہ سے ہمارے ہاں بہت سے موضوعات پر ڈرامے نہیں بنتے جن میں سیاسی ڈرامے قابلِ ذکر ہے۔ دنیا بھر میں اس پر ڈرامے اور ویب سیریز بنتی ہیں اور ہمیں بھی اس پر تجربہ کرنا چاہیے۔

‘سوشل میڈیا کے ذریعے اداکاروں کا سامنے آنا خوش آئند ہے’

پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں آج کل یہ رجحان سامنے آ رہا ہے کہ جو افراد سوشل میڈیا پر مقبول ہیں انہیں ڈراموں میں کاسٹ کر لیا جاتا ہے۔ منشا پاشا کے خیال میں سوشل میڈیا کے ذریعے اداکاروں و اداکاراؤں کا آگے آنا خوش آئند ہے۔

ان کے بقول سوشل میڈیا پرپہلے زیادہ فالوورز والوں کو اہمیت دی جاتی ہوگی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب ان لوگوں کو اہم سمجھا جاتا ہے جن کے بارے میں زیادہ بات ہورہی ہوتی ہے۔ آپ اگر لوگوں کی نظر میں ہیں تو اس سے آپ کی سلیکشن میں آسانی ہوجاتی ہے۔گزشتہ ایک دو برسوں کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ اداکارو اداکارائیں سوشل میڈیا سے ٹی وی یا فلمز میں آئے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔

اپنے ساتھی اداکاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اداکارہ کا کہنا تھا کہاانہیں ان لوگوں کے ساتھ کام کرکے زیادہ مزہ آتا ہے جنہیں اداکاری سے محبت ہو اور جن کی وجہ سے سامنے والا بہتر سے بہتر کام کرنے کی کوشش کرے۔

منشا نے بتایا کہ انہیں مزہ تب آتا ہے جب ان کے سامنے والا اداکار یا اداکارہ اپنے کام میں اتنا محو ہو کر اداکاری کرے کہ آپ کو اپنا معیار بہتر کرنے پر مجبور کردے۔ احمد علی اکبر، زاہد احمد اور سمیع خان ان کے کچھ ایسے کو اسٹارز ہیں جن کے ساتھ اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے اور یہ ساتھی اداکار کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

منشا پاشا کا مزید کہنا تھا کہ بشریٰ انصاری کے ساتھ کام کرکے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملااور ان کی خواہش ہے کہ وہ آگے جاکر کسی ڈرامے میں نعمان اعجاز کے ساتھ کام کریں۔

کچھ عرصہ قبل منشا پاشا نے ‘علاج ٹرسٹ’ نامی ایک فلاحی ادارے کے لئے ‘پوسٹ پارٹم ڈپریشن’ پر ایک ویڈیو بنائی تھی جس میں انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں ہدایت کاری کا شوق تو ہے لیکن اداکاری میں مصروفیت کی وجہ سے وہ دوبارہ اس طرف نہ جاسکیں۔ بارہ بارہ گھنٹوں تک شوٹ پر رہنے کی وجہ سے انہیں کسی دوسری چیز کا وقت ہی نہیں ملتا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔