اسپورٹس

اس پچ پر کبھی نہ ختم ہونے والا ٹیسٹ میچ کھیلا جاسکتا تھا’، پنڈی ٹیسٹ کی وکٹ پر تنقید جاری

ٹیسٹ کرکٹر محمد عامر نے بھی کہہ دیا کہ اس وکٹ پر صرف بلے بازوں کو کھیلنا چاہئے، بالرز کو گھر چلے جانا چاہئے۔

راولپنڈی- پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچز پر مشتمل پہلا ٹیسٹ ڈرا تو ہوا، لیکن راولپنڈی کی جس پچ پر یہ میچ کھیلا گیا، اسے مہمان ٹیم کے کپتان نے ‘بے جان’ قرار دے کر شائقین کرکٹ کے جذبات کی ترجمانی کی۔

اس تاریخی ٹیسٹ پچ، جسے بلے بازوں، پیسرز اور اسپنرز کے لیے مدد گار ہونا چاہیے تھا، پہلے ہی دن سے تنقید کی زد میں تھی۔ کسی نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے اس ‘ناقص’ پچ کی تیاری پر تحقیقات کےلیے کہا تو کسی نے اسے ٹیسٹ کرکٹ کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

شائقین کرکٹ کا غصہ بھی جائز ہے، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی اس پچ پر پانچ دن میں صرف 14 وکٹیں گریں، جبکہ 1187 رنز بنے، جس میں زیادہ تر رنز میزبان بلے بازوں کے بیٹ سے نکلے۔

وہ شائقین جو 24 سال بعد آنے والی آسٹریلوی ٹیم سے ایک اچھے میچ کی امید لگائے بیٹھے تھے، انہیں ایک ایسا میچ ملا، جس میں اگر سست روی کو مین آف دی میچ قرار دیا جاتا تو غلط نہ ہوتا۔

اس میچ میں پاکستان کے تین بلے بازوں نے چار سنچریاں اسکور کیں، جس میں امام الحق نے دو، اور اظہر علی اور عبداللہ شفیق نے ایک ایک سنچری اسکور کی۔ فواد عالم کی دونوں اننگز میں بیٹنگ نہیں آئی، جب کہ ان فارم محمد رضوان کی جب بیٹنگ آئی، تو شائقین میچ میں دلچسپی کھو بیٹھے تھے۔

دوسری جانب مہمان ٹیم کے عثمان خواجہ اور مارنس لبوشین نروس نائینٹیز کا شکار ہوئے، جبکہ اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر نے نصف سنچریاں اسکور کیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وکٹ پر کوئی بالر دو سے زائد وکٹ نہ لے سکا، جو پیسرز اور اسپنرز دونوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی، اسی پر پاکستان کے نعمان علی نے کیرئیر بہترین بالنگ کی۔

پاکستانی لیفٹ آرم اسپنر نے پہلی اننگز میں چھ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے ثابت کیا کہ اس پچ پر صرف پلان کے مطابق چلنے والا بالر ہی کامیاب ہوگا۔

کیا پاکستان میں ماضی میں بھی ایسی وکٹیں بنائی گئیں جس پر صرف بلے باز چلے؟

راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں آٹھ اور دوسری اننگز میں نو بالرز کو استعمال کرکے آسٹریلیا نے 1980 کے اس دورے کی یاد تازہ کردی جس میں وکٹ کیپر روڈ مارش سمیت تمام بالرز نے بالنگ کی تھی۔ اس وقت بھی پاکستان کی وکٹوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، آج بھی پاکستانی وکٹوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے تاریخی ٹیسٹ میچ کے لئے ایسی وکٹ کیوں بنائی، اس پر دنیا بھر سے سوال اٹھ رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر فیصل حسنین نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ جب تک پاکستان میں اچھی سپورٹنگ وکٹیں نہیں بنیں گی، تب تک دنیا کی بہترین ٹیمیں پاکستان نہیں آئیں گے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم تو پاکستان آگئی، لیکن وکٹیں انہیں ویسی ہی ملیں جیسی ماضی میں پاکستان میں بنتی آرہی ہیں۔ اسی کی دہائی میں جب جب آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا، ان کے بالرز کو ایسی پچ پر بالنگ کرنا پڑی جس پر وکٹیں لینا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔

آسٹریلیا کے لیجنڈری پیسر ڈینس للی نے 1980 کی سیریز کے دوران فیصل آباد میں ٹیسٹ کے بعد اس کی وکٹ کو ‘فاسٹ بالرز کا قبرستان’ قرار دیا تھا۔ اس سیریز کے بعد ڈینس للی کی ریٹائرمنٹ سے قبل پاکستان اور آسٹریلیا نے کئی میچز کھیلے، لیکن للی نے پاکستان جاکر کھیلنے سے صاف انکار کردیا تھا۔

1981میں پاکستان ٹیم نے آسٹریلیا کا جوابی دورہ کیا تو سیریز کے تین میں سے دو میچز میں ڈینس للی اور ان کے ساتھیوں نے آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر مہمان بلے بازوں کو ویسے ہی پریشان کیا، جیسے پاکستان نے آسٹریلوی بالرز کو کیا تھا۔ تاہم اس سیریز میں جاوید میانداد کی قیادت میں پاکستان ٹیم ایک ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی، اور آسٹریلیا کو پاکستان میں اگلی کامیابی کے لئے 16 سال تک انتظار کرنا پڑا۔

اس قسم کی بے جان بچ بنانے کا مقصد آسٹریلوی اٹیک کی نفی کرنا تھا، پیٹ کمنز

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز بھی راولپنڈی کی پچ پر تبصرہ کئے بغیر نہ رہ سکے، ان کا کہنا تھا کہ بے جان پچ بنانے کا مقصد آسٹریلیا کے مضبوط اٹیک کو کمزور کرنا تھا ۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے بھی اس پچ پر تنقید کرتے ہوئے ماہرانہ رائے کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا، راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور شعیب اختر نے پنڈی کراؤڈ کو بوریت سے بچانے کا طریقہ تجویز کیا۔

جبکہ ٹیسٹ کرکٹر محمد عامر نے بھی کہہ دیا کہ اس وکٹ پر صرف بلے بازوں کو کھیلنا چاہئے، بالرز کو گھر چلے جانا چاہئے۔

نوے کی دہائی میں بھارت کے لیے چار ٹیسٹ کھیلنے والے ڈوڈا گنیش بھی راولپنڈی کی پچ پر بات کیے بغیر نہ رہ سکے، ان کے بقول اس قسم کی وکٹ پر ٹیسٹ کرکٹ نہیں ہونی چاہئے۔

صحافیوں، کرکٹ مبصرین و شائقین، تینوں نے ‘پنڈی پچ’ پر دل کھول کر تنقید کی!

یہی نہیں، معروف صحافی عثمان سمیع الدین نے بھی ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ 23 سال بعد آسٹریلوی ٹیم پاکستان آئی تو پاکستان نے اسے ایک ایسی پچ پر کھلادیا جو شاید 33 سال پہلے بنائی گئی ہو۔

پاکستان اور آسٹریلیا کی اس سیریز کو جہاں ملک بھر میں شائقین نے دیکھا وہیں سرحد پار صحافیوں اور ماہر اعداد و شمار بھی اسے غور سے دیکھ کر تجزیہ کرتے رہے۔

معروف کرکٹ رائٹر ابھیشیک مکھرجی کے مطابق اس قسم کی پچز پر ٹیسٹ کرکٹ ہونے کے بعد کوئی بھی ‘ٹیسٹ کرکٹ بہترین فارمیٹ ہے’ کا ٹوئیٹ نہیں کرے گا۔

اعداد و شمار کے ماہر موہن داس مینن نے 1980 کے دورہ آسٹریلیا کے اسٹرائیک بالر ڈینس للی اور موجودہ ٹیم کے اسٹرائیک بالر مچل اسٹارک کا موازنہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ ٹوئٹ کیا۔

ان کے مطابق جب ڈینس للی نے 1980 میں پاکستان کا دورہ کیا تو پہلے دو میچز میں وہ ایک بھی کھلاڑی کو آؤٹ نہ کرسکے، اور ایسا ہی کچھ مچل اسٹارک کے ساتھ بھی ہوا۔

ایک اور کرکٹ مبصر بھارت راماراج کے خیال میں اس پچ پر اگر نہ ختم ہونے والا ٹیسٹ میچ کرایا جاتا تو اچھا ہوتا۔

ایک مقامی صحافی نے ایک ایسی تصویر شئیر کی جس میں ایک لڑکا ایک پوسٹر کے ذریعے پچ بنانے والے سے درخواست کررہا ہے کہ وہ براہِ مہربانی اس پچ سے مماثلت رکھتے ہوئے اس کے گھر کے باہر کی سڑک بھی بنادے۔

تاہم آسٹریلوی کرکٹ مبصر ایڈم کولنز نے پچ پر تنقید کرنے کے بجائے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے حکام کی مہمان نوازی کی تعریف کرکے سب کے دل جیت لیے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔