- سنجے لیلا بھنسالی نے سیریز میں جو ‘ہیرا منڈی’ دکھانے کی کوشش کی ہے وہ خواب میں ہی نظر آسکتی ہے کیوں کہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
- ویب سیریز میں کئی جگہ بہتری کی گنجائش موجود تھی جس کا اندازہ زیادہ تر پاکستان میں رہنے والے اور اردو سمجھنے اور بولنے والے لگا سکتے ہیں۔
- سوائے منیشا کوئرالہ اور فریدہ جلال کے، ہر اداکار اردو بولتے ہوئے مشکل میں نظر آیا۔
- لاہور کی تنگ گلیاں ضرب المثل ہیں لیکن سیریز میں ان گلیوں کو ایسے دراز دکھایا گیا جیسے کسی دوسری دنیا کا شہر ہو۔
- بعض کرداروں کی جانب سے لفظ ‘ترنت’ کا استعمال کرنا بھی مضحکۂ خیز تھا۔
- ہدایت کار نے اداکاروں کے لکھنوی اندازِ بیان میں پنجابی ٹچ ڈال کر انہیں لاہور کے مکینوں کو دکھانے کی کوشش کی۔
- ویب سیریز دیکھنے کے بعد جس بات کی داد دینی چاہیے وہ اس سیریز کی موسیقی، کوریوگرافی اور سنیماٹوگرافی ہے۔
کراچی _ عمدہ سیٹس، بہترین کوریوگرافی، شاندار موسیقی اور مہنگے وارڈروب کسی بھی فلم، ڈرامے یا ٹی وی سیریز کی کامیابی کی ضمانت تصور ہوتے ہیں لیکن صرف اُس وقت جب یہ تمام چیزیں کہانی کو بھی سپورٹ کریں۔
نیٹ فلکس پر گزشتہ ہفتے ریلیز ہونے والی ویب سیریز ‘ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ بازار’ میں سب کچھ ہے لیکن سیریز میں کہانی نہیں لیکن سیریز کو جس طرح فلمایا گیا وہ قابلِ تعریف ہے۔
دو سو کروڑ روپے کے بجٹ سے بننے والی سیریز کے بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی سیریز کو اپنا ‘ڈریم پراجیکٹ’ کہتے رہے ہیں۔ لیکن سیریز میں جو ‘ہیرا منڈی’ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے وہ خواب میں ہی نظر آسکتی ہے کیوں کہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی کہانی لاہور کی تاریخی ہیرا منڈی کے گرد گھومتی ہے جہاں طوائفوں کا راج، جسم فروشی اور رقص و سرور کی محفلیں سجتی دکھائی گئی ہیں۔
اپنی پروڈکشن کوالٹی کی وجہ سے یہ سیریز نیٹ فلکس انڈیا میں نمبر ون، نیٹ فلکس یوکے میں نمبر چار اور امریکہ میں نمبر سات پر موجود ہے لیکن اس میں کئی جگہ بہتری کی گنجائش موجود تھی جس کا اندازہ زیادہ تر پاکستان میں رہنے والے اور اردو سمجھنے اور بولنے والے لگا سکتے ہیں۔
ہیرا منڈی کی کہانی کیا ہے؟
ہیرا منڈی، دی ڈائمنڈ بازار کی کہانی سن 1940 کے لاہور کے گرد گھومتی ہے جہاں ملکہ جان (منیشا کوئرالہ) کا راج چلتا ہے۔
ملکہ جان نہ صرف ہیرا منڈی میں رہنے والی خواتین کی آپا یعنی مالک ہیں بلکہ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنی ہی بڑی بہن ریحانہ (سوناکشی سنہا) کو قتل کر دیا تھا۔
اس قتل کے 25 سال بعد جب ریحانہ کی بیٹی فریدن اپنی والدہ کی جائیداد کے لیے واپس آتی ہے تو دونوں خواتین کے درمیان ایک ایسی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس کی لپیٹ میں ان کے خاندان والوں کے ساتھ ساتھ ان کے چاہنے والے بھی آجاتے ہیں۔
اس ان دیکھی جنگ میں سب سے زیادہ فائدہ انگریز سرکار کا ہوتا ہے جو تحریکِ آزادی کی جدوجہد کے لیے سرگرم مظاہرین سے نمٹنے میں مصروف ہوتی ہے۔
سیریز میں منیشا کوئرالہ، سوناکشی سنہا اور ادیتی راؤ حیدری کے علاوہ فریدہ جلال، سنجیدہ شیخ، شرمین سیگل، طہٰ شاہ، فردین خان، اور شیکھر سمن نے مزکری کردار ادا کیے ہیں۔ سیریز کو معین بیگ نے تحریر کیا اور اس کا اسکرین پلے اور ہدایات سنجے لیلا بھنسالی نے دیں۔
کیا ویب سیریز لاہور کے ‘شاہی محلے’ کے ساتھ انصاف کرسکی؟
ایک ایسے دور میں جب کم بجٹ سے بننے والی بھارتی فلموں (بارہویں فیل اور لاپتا لیڈیز) کو شائقین پسند کر رہے ہیں، سنجے لیلا بھنسالی کا دو سو کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی ویب سیریز لانے کا فیصلہ حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی۔
حیران کن اس لیے کیوں کہ نیٹ فلکس سیریز کو فلم والی پذیرائی ملنا مشکل ہے اور پریشان کن اس لیے کیوں کہ اس سیریز کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ سوائے سیٹ اور کوسٹیوم کے، انہوں نے پیسے کسی اور چیز پر خرچ نہیں کیے، خاص طور پر ریسرچ اور اسکرپٹ پر۔
اگر سنجے لیلا یا ان کی ٹیم ریسرچ کرلیتی تو انہیں اندازہ ہوجاتا کہ 1940 کے لاہور میں اور لکھنؤ میں کافی فرق تھا۔ وہاں صرف مسلمان نواب ہی نہیں رہتے تھے بلکہ تمام مذاہب کے لوگ ان حصوں میں رہائش پذیر تھے جو اب پاکستان میں ہیں۔
سب سے زیادہ جس بات پر پاکستانی شائقین برہم ہیں وہ اردو زبان کے ساتھ کی گئی ناانصافی ہے۔ سوائے منیشا کوئرالہ اور فریدہ جلال کے، ہر اداکار اردو بولتے ہوئے مشکل میں نظر آیا۔
خاص طور پر سنجے لیلا بھنسالی کی اپنی بھانجی شرمین سیگل اردو بولتے ہوئے مشکلات کا شکار نظر آئیں، جنہوں نے سیریز میں مرکزی ہیروئن کا کردار نبھایا۔ منیشا کوئرالہ سے بھی بعض جگہ خ کے تلفظ کی ادائیگی کی غلطی ہوئی۔ لیکن ایسا بہت کم ہوا۔
بعض کرداروں کی جانب سے لفظ ‘ترنت’ کا استعمال کرنا بھی مضحکۂ خیز تھا اور ان کا لکھنوی اندازِ بیان بھی جس میں پنجابی ٹچ ڈال کر ہدایت کار نے لاہور کے مکینوں کو دکھانے کی کوشش کی۔
لاہور کی تنگ گلیاں ضرب المثل ہیں لیکن سیریز میں ان گلیوں کو ایسے دراز دکھایا گیا جیسے کسی دوسری دنیا کا شہر ہو۔ ہیرا منڈی میں آج بھی اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے محل نہیں جیسے اس سیریز میں دکھائے گئے۔
سیریز میں آرٹ ڈائریکشن کا ڈپارٹمنٹ اردو سے بالکل ناواقف دکھائی دیا۔ کیوں کہ تحریکِ آزادی کے پوسٹرز پر ‘مردہ باد’ کو ‘مردا باد’ لکھا گیا جب کہ ایک سین میں کردار کو جو اخبار پڑھتے ہوئے دکھایا گیا اس میں کرونا وبا کی خبر چھپی ہوئی تھی یہی نہیں اخبار کا نام بھی غیر واضح ہے۔
معاملہ انتقال کے بعد مرنے کی دعا کے بجائے کلمہ طیبہ پڑھنے کا ہو، شاہی محلے کو بطور شاہی محل پیش کرنے کا یا پھر لاہور کے رہائشیوں کو تسلیم، اللہ حافظ اور آداب کہتے ہوئے دکھانے کا، سنجے لیلا بھنسالی نے اس پراجیکٹ میں سب سے زیادہ مایوس کیا۔
اداکارہ ریچا چھڈا ‘لجو’ طوائف کے کردار میں تو اچھی لگیں لیکن ان کے کردار کو وقت بہت کم دیا گیا کیوں کہ دوسری قسط میں ہی ان کا کردار اختتام پذیر ہوگیا۔
سوناکشی سنہا تمام اداکاروں پر بھاری رہیں کیوں کہ انہوں نے اپنے کردار کو منفرد بنانے کے لیے زبان اور ادائیگی پر محنت کی۔
ویب سیریز دیکھنے کے بعد جس بات کی داد دینی چاہیے وہ اس سیریز کی موسیقی، اس کی کوریوگرافی اور سنیماٹوگرافی ہے۔
یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ ہدایت کار بننے سے پہلے سنجے لیلا بھنسالی ویدو ونود چوپڑا کی ٹیم کا حصہ تھے اور نوے کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘1942 اے لو اسٹوری’ کا اسکرین پلے انہوں نے لکھا تھا۔ شاید اسی لیے ہیرا منڈی کی کہانی اس فلم سے مماثلت رکھتی ہے جس میں انیل کپور اور منیشا کوئرالہ نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
پدماوت، رام لیلا اور باجی راؤ مستانی جیسی ہٹ فلمیں بنانے والے ہدایت کار بھنسالی نے ہیرا منڈی کی طوائفوں کو ایسے پیش کیا جیسے اگر وہ نہ ہوتیں تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوتا۔ تاہم اس سیریز کو دیکھ کر یہ اندازہ تو ہوگیا کہ ہدایت کار کو نہ تحریکِ آزادی کے بارے میں زیادہ علم تھا اور نہ ہی لاہور کے بارے میں۔