فلمیں

جنوبی ایشیا کا پہلا ڈیجیٹل فلم فیسٹیول، پاکستان کی چار فلمیں شامل

Written by Omair Alavi

کراچی — 

‘ساوتھ ایشین فورم فور آرٹ اینڈ کری ایٹیو ہیریٹیج’ کے زیر اہتمام پہلے ‘انڈس ویلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول’ کا آغاز یکم اگست کو ہو رہا ہے جو نو اگست تک جاری رہے گا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا ڈیجیٹل فلم فیسٹیول ہے جس میں فلموں کی نمائش کے ساتھ ورک شاپس، ماسٹر کلاسز کا انعقاد اور میوزیکل کانسرٹس بھی شامل ہیں۔

فلم فیسٹیول میں چار فلمیں پاکستان کی نمائندگی کریں گی جن میں فلم ساز جمشید محمود المعروف جامی کی فلم ‘مور’، عدنان سرور کی ‘موٹر سائیکل گرل’، شاہد ندیم کی ‘پاکستانز بیسٹ کیپٹ سیکریٹس’ اور نئے فلم ساز اقران رشید کی فلم ‘عادت’ شامل ہے۔

فیسٹیول میں میزبان ملک بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سے تعلق رکھنے والے فلم سازوں کی بھی فلمیں دکھائی جائیں گی۔

انڈس ویلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کیا ہے؟

انڈس ویلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں قائم غیر منافع بخش ادارے ‘ساؤتھ ایشیا فورم فور آرٹ اینڈ کری ایٹیو ہیریٹیج’ کے زیرِ اہتمام ہونے والا ایک ڈیجیٹل فلم فیسٹیول ہے جس میں خطے کے پانچ ممالک کی فلموں کی آن لائن نمائش ہو گی۔

فیسٹیول کے بانی اور کری ایٹیو ڈائریکٹر ہرش نارائن کے مطابق اس فیسٹیول کا مقصد پاکستان اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی فلم کمیونٹی کو قریب لانا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہرش نارائن نے بتایا کہ فیسٹیول کا مقصد پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اورسری لنکا کے تخلیق کاروں کو ایک دوسرے کے کام سے آگاہ کرنا ہے اور ان کے ذریعے معاشرے میں ایسی تبدیلی لانا ہے جس سے خطے میں امن اور بھائی چارے کو فروغ مل سکے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ سنیما بات چیت کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے عام آدمی تک با آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ سنیما کے ذریعے، تخلیق کاروں کی محنت سے ایک ایسا راستہ نکالا جائے جو اس خطے کے تمام لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچا سکے۔

ان کے بقول خراب سے خراب حالات میں بھی اگر تخلیقی کام ہو تو اس سے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر اور آرام دہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہرش نارائن نے مزید کہا کہ فنونِ لطیفہ کے ذریعے خطے کے لوگوں کو نہ صرف جوڑا جا سکتا ہے بلکہ ان کی مدد بھی کی جاسکتی ہے۔ تاکہ وہ ایک دوسرے سے امن، باہمی ہم آہنگی اور عزت سے پیش آئیں۔

ہرش نارائن نے وی او اے کو بتایا کہ ان کی کوشش یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والی فلم برادری کو ایک دوسرے سے متعارف کرایا جائے۔ تاکہ یہ لوگ سرحدوں سے بالاتر ہو کر فن کے فروغ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔

"اگر ہم اپنی اس چھوٹی سی کاوش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عنقریب پاکستان، بھارت، سری لنکا، نیپال اوربنگلہ دیش کے درمیان مشترکہ فلم پروڈکشنز کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ کیا پتا کہ آگے چل کر مشترکہ پروڈکشنز کے ساتھ ڈسٹری بیوشن پارٹنر شپ، سیلز، مارکیٹنگ، لائن پروڈکشن اورتیکنیکی سپورٹ کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے۔”

ہرش نارائن کا کہنا تھا کہ ہم صحیح معنوں میں اس وقت کامیاب ہوں گے جب اس خطے کے نوجوان فلم ساز دوسرے ملک میں ‘انٹرن شپ’ کے لیے جا سکیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ورک شاپس کا سلسلہ بھی شروع ہوگا جس سے ہر ملک کو فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور ان کے آس پاس کے دیگر ملکوں کا آپس میں ثقافتی رشتہ ہے اور ان کی تاریخ بھی ملتی جلتی ہے۔ سنیما ہی وہ ذریعہ ہے جو ان تمام ممالک اور ان کے لوگوں کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

ہرش نارائن کے بقول، "ہمارا آرٹ، ہماری موسیقی، ہمارا لوک ورثہ ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سرحدوں کو بھلا کر ہم اس پلیٹ فارم کے ذریعے آگے بڑھیں۔”

فیسٹیول میں دکھائی جانے والی پاکستانی فلمیں

پاکستانی فلم ساز جمشید محمود، جنہیں فلمی حلقوں میں جامی کے نام سے پہچانا جاتا ہے، اپنی فلم ‘مور’ کے اس فیسٹیول کا حصہ بننے پر بہت خوش ہیں۔ فلم ‘مور’ میں شاز خان، حمید شیخ، ایاز سموں، سونیا حسین اور سامعہ ممتاز نے اپنی اداکاری سے سب کو متاثر کیا تھا۔

دوسری پاکستانی فلم جو اس فیسٹیول میں پیش کی جائے گی، وہ عدنان سرور کی ‘موٹر سائیکل گرل’ ہے جس کے معاون پروڈیوسر بھی جامی ہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جامی نے کہا کہ یہ دونوں فلمیں ایک مضبوط کردار والی عورت کے گرد گھومتی ہیں۔

ان کے بقول، "ایک طرف ‘مور’ جیسی فلم ہے جس میں سامعہ ممتاز نے ایک ایسی ماں کا کردار نبھایا ہے جو اپنے خاندان کو بچاتے بچاتے اپنی جان دے دیتی ہے۔ دوسری جانب ‘موٹر سائیکل گرل’ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو آزاد معاشرے میں سانس لینا چاہتی ہے۔ وہ کیسے پابندیوں کی زنجیریں توڑ کر سب سے آگے نکل جاتی ہے، یہی اس فلم میں بتایا گیا ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار سوہائے علی ابڑو نے ادا کیا ہے۔”

انڈس ویلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی میزبانی کے فرائض معروف بھارتی اداکار ونے پاٹھک ادا کریں گے جب کہ معروف پاکستانی رائٹر شاہد ندیم تھیٹر ڈائریکشن اور ایکٹنگ کے حوالے سے ایک آن لائن سیشن منعقد کریں گے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے حیدر علی بھی ٹرک آرٹ کے حوالے سے ایک آن لائن سیشن آن لائن کی میزبانی کریں گے۔

دیگر ممالک کی فلموں کا احوال

فیسٹیول میں بنگلہ دیش سے بھی چار فلمیں شامل کی گئی ہیں جس میں ‘نولوک’، ‘مایا’، ‘دی لوسٹ مدر’ اور ‘قصیدہ آف ڈھاکا’ شامل ہیں۔

نیپالی فلم ‘ڈائنگ کینڈل’ اور سری لنکن فلم ‘تھنہا راٹھی رنگا’ بھی فیسٹیول میں دکھائی جائے گی۔

فیسٹیول کا آغاز اور اختتام بھارتی فلموں سے ہو گا۔ پہلے دن بھارتی موسیقار اور فلم ساز وشال بھردواج کی فلم ‘پٹاخہ’ دکھائی جائے گی جب کہ آخری روز نندیتا داس کی ‘منٹو’ اسکرین پر ہو گی۔

نندیتا داس کا کہنا ہے کہ اس خطے کے حوالے سے ہونے والے اس فلم فیسٹیول کے اختتام کے لیے ‘منٹو’ سے بہتر کوئی فلم نہیں۔ کیوں کہ منٹو کا کردار ہمیں ہماری جنوبی ایشیائی شناخت کی یاد دلاتا ہے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔