کراچی —
پاکستان کی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف تین میچز پر مشتمل ون ڈے سیریز کا پہلا میچ دو اپریل کو سنچورین کے مقام پر کھیلے گی۔ دونوں ٹیموں کے کپتان نہ صرف سیریز جیتنے کے لیے پرعزم ہیں بلکہ پرامید ہیں کہ شائقینِ کرکٹ کو اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
سیریز میں پاکستان کی قیادت بابر اعظم کر رہے ہیں جب کہ میزبان ٹیم کی کپتانی نئے کپتان ٹیمبا باووما کریں گے۔ بابر اعظم کی بحیثیت کپتان یہ دوسری اور باووما کی پہلی سیریز ہو گی۔
دونوں ٹیموں کے درمیان تین ون ڈے اور چار ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیلی جائے گی۔ نئے کپتانوں اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی میں دونوں ٹیموں کے پاس اپنا لوہا منوانے کا اس سے بہتر موقع نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے قبل انہی دنوں میں آسٹریلیا کو جنوبی افریقہ کا دورہ کرنا تھا۔ لیکن کرونا کے بڑھتے کیسز کے پیشِ نظر آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے دورہ کرنے سے معذرت کرلی تھی اور اس معذرت سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
پاکستان ٹیم کو رواں ماہ ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کے لیے ویسے ہی زمبابوے بھی جانا تھا اور اب ساتھ ساتھ گرین شرٹس کو جنوبی افریقہ کی سیریز بھی مل گئی ہے۔
لیکن جنوبی افریقی بورڈ نے سابق کپتان کوئنٹن ڈی کوک، فاسٹ بالر رباڈا اور جارح مزاج ڈیوڈ ملر کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں شرکت کی اجازت دے کر پاکستان کے خلاف سیریز میں دلچسپی کو کم کر دیا ہے۔
مذکورہ تینوں کھلاڑیوں سمیت پانچ سے چھ جنوبی افریقی کرکٹرز دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل کے بعد بھارت روانہ ہوجائیں گے جہاں نو اپریل سے آئی پی ایل کا آغاز ہو گا۔
جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر سیریز میں پہلی شکست
ویسے تو پاکستان اور جنوبی افریقہ نے پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ 1992 میں کھیلا تھا لیکن دونوں ممالک کے درمیان پہلی ون ڈے انٹرنیشنل سیریز 2002 میں کھیلی گئی۔ اس کے بعد سے دونوں ٹیموں کے درمیان جنوبی افریقہ میں ہی پانچ ون ڈے میچز پر مشتمل سیریز کھیلی ہیں، جن میں چار میں کامیابی میزبان ٹیم نے حاصل کی۔
سال 2013 میں کھیلی جانے والی ون ڈے سیریز میں پاکستان نے دو ایک سے کامیابی سمیٹی۔ اس فتح کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کو اس کی سر زمین پر شکست دینے والی پہلی ایشیائی ٹیم بن گئی تھی۔
مجموعی طور پر دونوں ٹیموں نے اب تک 79 میچز کھیلے ہیں جن میں سے پاکستان نے 28 میچز جیتے جب کہ جنوبی افریقہ نے کامیابیوں کی نصف سنچری مکمل کی۔
میزبان ملک کی سرزمین پر پانچ ون ڈے سیریز کے دوران 23 میچز میں سے جنوبی افریقہ نے 14 جب کہ پاکستان نے آٹھ میچز اپنے نام کیے۔
دو ہزار تیرہ میں جب پاکستان نے جنوبی افریقہ کو اس کی سرزمین پر ون ڈے سیریز میں شکست دی تو اس وقت ٹیم کے کپتان مصباح الحق تھے۔ مصباح اس وقت ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں لیکن دو سال میں صرف پانچ ون ڈے میچز میں ان کی کارکردگی کو جانچا نہیں جا سکتا۔
یہ مصباح الحق کی کوچنگ میں پاکستان کی تین سال میں صرف تیسری ون ڈے سیریز ہو گی۔ اس سے قبل 2019 میں پاکستان نے سری لنکا اور 2020 میں زمبابوے کے خلاف میچز کھیلے تھے۔
پاکستان ٹیم کے پاس شاہین شاہ آفریدی، حسن علی اور شاداب خان جیسے مستند بالرز ہیں تو بابر اعظم، فخر زمان اور محمد رضوان جیسے ان فارم بیٹسمین بھی ہیں۔ لیکن مہمان ٹیم ہونے کی وجہ سے مقامی کنڈیشنز سے انہیں ویسی ہم آہنگی نہیں جیسی کہ میزبان ٹیم کو ہے۔
آئی پی ایل میں شرکت کی وجہ سے جنوبی افریقی ٹیم آخری ون ڈے میچ میں کمزور ہو گی جسے نئے کپتان کے لیے ایک چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔
جنوبی افریقی بورڈ نے ٹیمبا باووما کو صرف پاکستان کے خلاف سیریز کے لیے نہیں بلکہ 2023 تک کے لیے کپتان نامزد کیا ہے۔ ان کے پاس اختیارات بھی ہوں گے اور رہنمائی کے لیے سینئیر کھلاڑی اور کوچنگ اسٹاف بھی۔ وہ ناتجربہ کار ضرور ہیں لیکن ان کے پاس تجربہ کرنے کا مارجن ہوگا جس کی وجہ سے ان کے پاس بھرپور انداز میں ٹیم کی قیادت کرنے کا موقع ہو گا۔
کیا بابر اعظم چیف سلیکٹر سے ناخوش ہیں؟
دورۂ جنوبی افریقہ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کا انتخاب چیف سلیکٹر محمد وسیم نے کیا تھا۔ لیکن مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کھلاڑیوں کے انتخاب پر کپتان بابر اعظم نا خوشگواری کا احساس کیا تھا۔
ناقص کارکردگی کی وجہ سے محمد وسیم نے افتخار احمد، خوشدل شاہ، حسین طلعت اور دیگر کھلاڑیوں کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل نہیں کیا تھا جب کہ شاداب خان کی واپسی کے بعد انہوں نے زاہد محمود کو بھی ڈراپ کر دیا تھا۔
اگر بابر اعظم ان کھلاڑیوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے تو انہیں زیادہ کھلاڑیوں پر مشتمل اسکواڈ کی درخواست دینی چاہیے تھی۔