جراسک ورلڈ ڈومینین میں اس بار بھی کرس پریٹ اور برائس ڈیلس ہاورڈ نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔
کراچی —
ہالی وڈ کی فرینچائز ‘جراسک ورلڈ’ کی تیسری اور مجموعی طور پر ‘جراسک سیریز’ کی چھٹی فلم ‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ نے ریلیز ہوتے ہی باکس آفس پر تہلکہ مچادیا ہے۔ صرف امریکہ میں ریلیز کے پہلے ہی دن ‘جراسک ورلڈ ڈومینین ‘ نے 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر زکا بزنس کیا ہے۔
یہی نہیں پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں بچوں اور بڑوں نے سنیماگھروں کا رخ کیا اور جمعے کے روز تقریباًملک بھر کے سنیما گھروں میں اس فلم کا چرچہ تھا۔
کراچی سے لے کر اسلام آباد تک اس فلم نے ٹام کروز کی ‘ٹاپ گن میورک’ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جو گزشتہ دو ہفتوں سے شائقین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔
باکس آفس کی مستند ویب سائٹ باکس آفس ڈیٹیل کے مطابق صرف پاکستان میں ‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ نے پہلے روز ایک کروڑ 82 لاکھ روپے کا بزنس کرکے سال کی دوسری بڑی اوپننگ کا ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔
EXCLUSIVE.. #JurassicWorldDominio Takes Biggest Opening For The Franchise In Pakistan. The Film Has Roped In A ⭐Massive⭐ PKR 14.2 million On Day One Registering 2nd Biggest Opening Day Of 2022!!@JurassicWorld
— Ali Zain (@ali_zainsays) June 11, 2022
‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ میں اس بار بھی کرس پریٹ اور برائس ڈیلس ہاورڈ نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں جب کہ ‘جراسک پارک’ سیریز کے مرکزی کردار سیم نیل، لورا ڈیرن اور جیف گولڈبلم نے اس فلم کے ذریعے فرانچائز میں واپسی کی ہے۔
فلم میں ایسا کیا ہے کہ اسے لوگ دیکھنے کے لیے بے چین ہیں؟
‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ نہ صرف ‘جراسک ورلڈ’ سیریز کی آخری فلم ہے بلکہ ‘جراسک ‘ فرینچائز کا اختتام بھی اسی فلم سے ہورہا ہے۔فلم کی کہانی ‘جراسک ورلڈ فالن کنگ ڈم’ کے چار سال بعد شروع ہوتی ہے جس میں اوون گریڈی (کرس پریٹ) اور کلیئر ڈیئرنگ (برائس ڈیلس ہاورڈ) دنیا کی نظروں سے دور میسی لوک وڈ (ایزابیلا سرمن) کی پرورش میں مصروف ہوتے ہیں۔
کلوننگ کے ذریعے پیدا ہونے والی میسی کو تنہائی میں پالنا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ اسے ان افراد سے بچایا جاسکے جنہیں اس کی تلاش ہے۔
Gotta hand it to her, she knows how to make an entrance. How many times have you watched The Prologue to #JurassicWorldDominion? pic.twitter.com/SNi512GW50
— Jurassic World (@JurassicWorld) December 2, 2021
ایسے میں جب میسی اور اوون کو سمجھنے والے ڈائنوسار کےبچے کو ‘پوچرز ‘ اٹھا کر لے جاتے ہیں تو وہ اور کلیئر ان کے پیچھے اٹلی پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ایک نامی گرامی کمپنی میسی کے ڈی این اے کا جائزہ لے کر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
کہانی میں ڈائنوسار کے ساتھ ساتھ لوکسٹ (ٹڈی) کی ایک ایسی قسم بھی موجود ہے جو دنیا بھر کی فصلوں کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہوتی ہے۔ سوائے اس کمپنی کی فصلوں کو جس نے ٹڈی کو اسی مقصد کے لیے تیار کیا تھا۔
ٹڈی حملوں کی تحقیقات کرنے کے لیے ‘جراسک پارک’ کے مرکزی کردار ڈاکٹر ایلن گرینٹ (سیم نیل)، ڈاکٹر ایلی سیٹلر (لورا ڈرن) اور ڈاکٹر این میلکم (جیف گولڈ بلم) ایک بار پھر یکجا ہوتے ہیں۔
دونوں ٹیموں کے مشن میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈائنوسارز کی شہروں اور دیہاتوں سمیت ہر جگہ موجودگی کے ساتھ ساتھ بائیوسن نامی کمپنی کی فول پروف سیکیورٹی بھی ہے۔ جس کی موجودگی میں کسی بھی قسم کا قدم اٹھانا خطرے سے خالی نہیں۔
کیا ‘جراسک پارک’ کے مرکزی کرداروں کی واپسی سے ‘جراسک ورلڈ’ کو مدد ملی؟
جب 1993 میں ‘جراسک پارک’ ریلیز ہوئی تھی اس وقت اس کو بنانے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ آگے جاکر یہ فرنچائز کتنی مقبول ہوجائے گی۔
سیم نیل، لورا ڈرن اور جیف گولڈ بلم پہلی فلم کے بعد ایک ایک مرتبہ ‘جراسک پارک’ فلموں کا حصہ بنے۔ جس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ڈائنو سارز سے بچایا۔
چودہ سال کے عرصے کے بعد جب ‘جراسک ورلڈ’ کا آغاز ہوا تو پرانی ٹریلوجی کے چاہنے والوں نے پسندیدہ کرداروں کی کمی کو محسوس کیا۔
اسی لیے موجودہ فلم میں ہدایت کار کولن ٹریوورو کی دعوت پر ان تینوں اداکاروں نے فرنچائز میں کم بیک کیا اور کرس پریٹ اور برائس ڈیلس ہاورڈ جتنی دیر تک اسکرین پررہے۔ان کی موجودگی نے نہ صرف بڑی عمر کے ان شائقین کو محظوظ کیا جنہوں نے ‘جراسک پارک’ سنیما میں دیکھی تھی بلکہ وہ نوجوانوں بھی محظوظ ہوئے جنہوں نے ان کے بارے میں سنا ضرور تھا لیکن دیکھا نہیں تھا۔
Thirty years isn’t much in terms of geologic eras, but it feels like a lifetime since we’ve seen Dr. Ian Malcolm, Dr. Ellie Sattler, and Dr. Alan Grant on screen together.
— VANITY FAIR (@VanityFair) April 27, 2022
The stars chat with V.F. ahead of their @JurassicWorld reunion: https://t.co/OPSLTwIYoL
ڈائنو سارز کی بڑی تعداد اور بڑا سائز جان ولیمز کی پس پردہ موسیقی اور پانچ مرکزی کرداروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ فلم اس فرنچائز کی سب سے بڑی فلم ہوسکتی تھی۔ البتہ ناقدین کے مطابق یہ گزشتہ فلم ‘جراسک ورلڈ، فالن کنگ ڈم’ سے بھی بری ہے اور اس کی وجہ کہانی کا بے ربط ہونا اور ڈائنوسارز سے توجہ ہٹنا ہے۔
‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ اس سال کی بدترین فلم ہے’
کیا وجہ ہے کہ شائقین اس فلم کو دیکھنے سنیما کا رخ کررہے ہیں لیکن دنیا بھر کے معتبر ناقدین اس فلم کو فرنچائز کی سب سے کمزور فلم قرار دے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں باکس آفس پر کامیابی اتنی اہم نہیں جتنا کہ فلم کی کہانی، اداکاری و ہدایت کاری ہے جو اس بار اس فلم کی دیگر اقساط کے مقابلے میں بدتر رہی۔
’ویب سائٹس روٹن ٹوماٹوز’ اور ‘میٹا کریٹک’ کی ریٹنگ پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ ان ویب سائٹس نے ‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ کو خراب ریویو دیے جب کہ کچھ یہی حال بین الاقوامی ناقدین کا بھی رہا جو فلم سے قطعی خوش نہیں ہوئے۔
#JurassicWorldDominion is getting panned by critics
— Culture Crave 🍿 (@CultureCrave) June 8, 2022
Rotten Tomatoes — 40% on 88 reviews
Metacritic — 39 on 44 reviews pic.twitter.com/uXi2hSyX6N
جریدے ‘دے ہالی وڈ رپورٹر’ کے لیے لکھتے ہوئے فلمی نقاد ڈیوڈ رونی کا کہنا تھا کہ اس فلم نے ‘جراسک پارک’ کی یاد دلانے کی کوشش تو کی لیکن اسے بنانے والے خود اس فرنچائز کے ماڈل کو بھول گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2015 میں ریلیز ہونے والی ‘جراسک ورلڈ’ سے جتنی شہرت کولن ٹریوورو نے حاصل کی تھی وہ سب اس فلم کے بعد گنوا دی ہے۔
REVIEW: More is depressingly less in #JurassicWorldDominion, a legacy sequel that tosses in frequent winking nods to the 1993 Steven Spielberg thriller that started the dinosaur franchise and yet completely loses sight of the heart and humanity https://t.co/5Xo8rankeo
— The Hollywood Reporter (@THR) June 11, 2022
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اتنے سارے مرکزی کرداروں کو وہ ٹھیک طرح ہینڈل نہیں کرسکے۔ ڈائنوسارز کا بار بار آپس میں لڑنا بھی شائقین کو بور کرنے لگا۔ اوپر سے ہدایت کار کا اس فلم میں ‘انڈیانا جونز’، جیسن بورن’، ‘ایلین’، ‘اسٹار وارز’ اور ‘دے سوارم’ جیسی فرنچائز کا تڑکا لگانے کی کوشش نے فرنچائز کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔
برطانوی اخبار ‘دے گارڈین’ کے لیے فلم کریٹک مارک کیرموڈ کا کہنا تھا کہ ہدایت کار نے آدھی سے زیادہ فلم صرف یہ سوچنے میں گزار دی کہ فلم میں کون سی کہانی، کس ملک میں اور کس اسٹائل میں سنانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی وہ اٹلی میں ہوتے، کبھی امریکہ تو کبھی مالٹا میں۔ کہیں جیمز بانڈ کی طرح اسکرین پر کار چیز ہوتی۔ کہیں مشن امپاسبل کی طرح دنیا کو بچانے کا مشن، تو کہیں موٹر سائیکل سے جہاز پر جمپ۔ وہ سب بھی ڈائنوسارز کی فلم میں۔
Jurassic World Dominion review – prehistory repeats itself https://t.co/ZXYIh3Wo4C
— The Guardian (@guardian) June 12, 2022
یہی نہیں انہوں نے بھی انڈیانا جونز کی ہیٹ، فلم کے بیک گراؤنڈ اسکور اور جیف گولڈبلم کی اداکاری کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سب چیزیں ٹھیک ہوتیں تو شاید فلم دیکھنے کا مزہ بھی زیادہ آتا۔
ایک اور ویب سائٹ’ انویرس‘ کے لیے لکھتے ہوئے ایرک فرانسسکو نے کہا کہ اس سال انہوں نے موربئیس بھی دیکھی لیکن ‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ اب تک کی سب سے بری فلم ثابت ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقت آگیا ہے کہ اس کو بھی ڈائنوسارز کی طرح ‘معدوم’ ہوجانا چاہیے۔
No amount of nostalgia pandering could save #JurassicParkDominion from extinction. It’s the worst movie I’ve seen in 2022, and I’ve seen Morbius. https://t.co/oZ6MsRJtmN
— Eric Francisco (@EricFrancisco24) June 8, 2022
‘رولنگ اسٹون’ کے ڈیوڈ فیئر کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ سن 2018 میں ریلیز ہونے والی ‘جراسک ورلڈ، فالن کنگ ڈم’ بنانے والوں سے معافی مانگی جائے کیونکہ ‘جراسک ورلڈ ڈومینین’ کو دیکھنے کے بعد پچھلی فلم بہتر لگ رہی ہے۔
REVIEW: #JurassicWorldDominion isn’t just the final chapter of a trilogy or a Jurassic family reunion; it’s an extinction-level event for a pop franchise that was already an endangered species. https://t.co/bdpL3rrf1C
— Rolling Stone (@RollingStone) June 8, 2022
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم نہ صرف پوری ٹریلوجی کے لیے تباہ کن ہے بلکہ پوری فرنچائز کے لیے اور اسے بھی ڈائنوسارز کی طرح صفِ ہستی سے مٹ جانا چاہیے۔
اس کے برعکس ‘نیو یارک ٹائمز’ کے اے او اسکاٹ سمجھتے ہیں کہ اس فلم میں ڈائنوسارز کا کردار کم اور انسانوں کا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ‘جراسک ورلڈ’ کی مرکزی کاسٹ کے پاس یہاں کچھ کرنے کو نہیں تھا جن کی وجہ سے لوگوں نے سنیما کا رخ کیا۔
"Jurassic World Dominion” might be a little better than its two predecessors (“Jurassic World” and “Fallen Kingdom”), but in ways that underline the hectic incoherence of the whole enterprise, writes @aoscott. https://t.co/OdaRf4efpS
— The New York Times (@nytimes) June 9, 2022