کراچی —
انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو تیسرے ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر تین میچز کی سیریز اپنے نام کرلی۔ میزبان ٹیم نے تینوں میچز کی چوتھی اننگز میں 250 سے زائد رنز کا تعاقب کرکے تاریخ رقم کردی ہے۔
لیڈز ٹیسٹ کے پانچویں اور آخری دن انگلینڈ نے بارش اور نیوزی لینڈ دونوں کو شکست دیتے ہوئے سات وکٹ سے کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے عالمی چیمپئن نیوزی لینڈ اب ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہے۔
تین صفر سے سیریز جیتنے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی رینکنگ میں کوئی خاطر خواہ بہتری تو نہیں آئی،البتہ گزشتہ سال کی فاتح نیوزی لینڈ ٹیم کی پوزیشن اتنی گر گئی کہ وہ اس سال اپنے اعزاز کا دفاع نہیں کرسکے گی۔
نئے کپتان اور نئے کوچ کی زیرِ نگرانی انگلینڈ نے کامیابی حاصل کرکے نیوزی لینڈ کو آٹھویں پوزیشن پر دھکیل کر خود ساتویں پوزیشن حاصل کرلی ہے۔
اس وقت ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی رینکنگ میں آسٹریلیا کی ٹیم 75 فی صد کامیابی کے ساتھ پہلے جب کہ 71 اعشاریہ چار تین فی صد کے ساتھ جنوبی افریقہ کا دوسرا نمبر ہے۔بھارت 58 اعشاریہ تین تین فی صد کے تناسب کے ساتھ تیسرے، سری لنکا 55 اعشاریہ پانچ چھ فی صد کے ساتھ چوتھے اور پاکستان 52 اعشاریہ تین آٹھ فی صد کے تناسب سے پانچویں پوزیشن پر ہے۔
England and West Indies make strides on the #WTC23 standings following their respective Test series clean sweeps 👏
— ICC (@ICC) June 28, 2022
Full table 👉 https://t.co/wc8AlX8YiA pic.twitter.com/rb3kcv1h3R
لیڈز کے مقام پر پیر کوسیریز کے تیسرے ٹیسٹ کے آخری دن انگلینڈ کو فتح کے لیے مزید 113 رنز درکار تھے اور اس کی 8 وکٹیں باقی تھیں۔ پہلا سیشن تو بارش کی وجہ سے ملتوی ہوا لیکن دوسرے سیشن میں جب کھیل شروع ہوا، تو صرف ایک رنز کا اضافہ کرنے کے بعد اولی پوپ پویلین لوٹ گئے۔
ایسے میں جونی بئیر اسٹو نے سابق کپتان جو روٹ کا ساتھ دیا، اور اپنی جارحانہ بلے بازی کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں پہلی اننگز میں ختم ہوا تھا۔ تین چھکے اور آٹھ چوکوں کی مدد سے انہوں نے صرف 44 گیندوں پر 71 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو 7 وکٹوں سے کامیابی دلائی۔
چوتھے دن کا اختتام 55 رنز پر کرنے والے جو روٹ اس دوران اسکور میں صرف 31 رنز ہی کا اضافہ کرسکے، وہ کھیل کے اختتام پر 86 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
دونوں اننگز میں پانچ، پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے انگلش لیفٹ آرم اسپنر جیک لیچ کو ‘مین آف دی میچ’ قرار دیا گیا جب کہ سیریز کے دوران 396 رنز بنانے والے جو روٹ کو ‘ مین آف دی سیریز’ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
نیوزی لینڈ کے ڈیرل مچل کو سیریز کے دوران 538 رنز بنانے کی وجہ سے مہمان ٹیم کا مین آف دی سیریز ٹھہرایا گیا۔
واضح رہے کہ انگلینڈ کے نئے کوچ برینڈن مکلم کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے جب کہ کپتان بین اسٹوکس کی پیدائش نیوزی لینڈ میں ہوئی ۔ لیکن ان دونوں کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے انگلینڈ نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ جیتنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم کو باآسانی شکست سے دو چار کرکے فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا ہے۔
ٹیسٹ سیریز میں کب کیا ہوا؟
برینڈن مکلم اور بین اسٹوکس کو سیریز سے چند دن قبل ہی کوچ اور کپتان کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ پہلے ٹیسٹ سے قبل تو بظاہریہی لگ رہا تھا کہ دونوں پہلے خود کو نئے عہدوں سے ہم آہنگ کریں گے اور پھر حکمتِ عملی پر توجہ دیں گے۔
لیکن مکلم اور اسٹوکس تو شاید کسی اور موڈ میں تھے،انہوں نے تینوں ٹیسٹ کے دوران جارحانہ انداز کی کرکٹ کھیلی اور ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی ٹیم بنے جس نے تینوں میچز کی چوتھی اننگز میں دو سو پچاس سے زائد کے ہدف کا تعاقب کامیابی سے کیا۔
پہلے ٹیسٹ میں جو روٹ کی جارحانہ بلے بازی کی وجہ سے انگلینڈ نے کامیابی حاصل کی تھی جب کہ دوسرے میچ میں جانی بئیراسٹو کی دھواں دار بیٹنگ نے نیوزی لینڈ کو شکست دے دو چار کیا۔ تیسرے میچ میں ان دونوں بلے بازوں کی موجودگی میں انگلینڈ نے ہدف کا تعاقب کامیابی سے کیا۔
سیریز کے پہلے ٹیسٹ کے دوران جو روٹ نے سب سے کم وقت میں ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز کا سنگ میل بھی عبورکیا۔ اس سے قبل کسی بھی کھلاڑی نے ٹیسٹ کرکٹ میں ایک دہائی سے کم عرصے میں دس ہزار رنز اسکور نہیں کیے تھے۔
ادھر جونی بئیر اسٹو نے دوسرے ٹیسٹ میں انگلش تاریخ کی دوسری تیز ترین سینچری صرف 77 گیندوں پر بنائی۔ ان سے بہتر ریکارڈ صرف انگلش کھلاڑی گلبرٹ جیسپ کا ہے، جنہوں نے سن 1902 میں صرف 76 گیندوں پر آسٹریلیا کے خلاف سینچری بناکر ریکارڈ قائم کیا تھا۔
سیریز میں انگلینڈ کے جو روٹ ،نیوزی لینڈ کے ڈیرل مچل کی دھوم
تین میچز کی سیریز کے دوران جب جب نیوزی لینڈ نے کسی بھی میچ میں اپنی پوزیشن بہتر کی، تب تب انگلینڈ کے بلے بازوں نے جارح مزاجی دکھا کر میچ کا نقشہ بدل دیا۔
انگلینڈ کے جو روٹ اور جونی بئیراسٹو نے سیریز کے دوران رنز کے انباز لگاکر اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا وہیں سابق کپتان جو روٹ جو کپتانی سے سبکدوش ہونے کے بعد پہلی سیریز کھیل رہے تھے، بھرپور فارم میں نظر آئے۔ انہوں نے 99 کی اوسط سے دو سینچریوں اور ایک نصف سینچری کی مدد سے سیریز کے دوران 396 رنز اسکور کیے۔
صرف دو رنز کے فرق سے جونی بئیراسٹو نے سب سے زیادہ رنز بنانےوالوں کی فہرست میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ انہوں نے 78 اعشاریہ آٹھ کی اوسط سے دو سینچریوں اور ایک نصف سینچری کی بدولت 394 رنز بنائے۔
انگلینڈ نے سیریز میں تین صفر سے ضرور کامیابی حاصل کی، لیکن نیوزی لینڈ کے ڈیرل مچل نے میزبان ٹیم کو پوری سیریز میں دباؤ میں رکھا۔ انہوں نے تین میچز کی سیریز کے دوران 107 اعشاریہ چھ کی اوسط سے 538 رنز بنائے جو کہ نیوزی لینڈ کا نیا ریکارڈ ہے۔
ڈیرل مچل نے چھ اننگز میں پانچ بار پچاس کا ہندسہ عبور کیا جب کہ مجموعی طور پر تین سینچریاں اور دو نصف سینچریاں اسکور کیں۔
اگر بالرز کی بات کی جائے تو 16 وکٹوں کے ساتھ نیوزی لینڈ کے ٹرینٹ بولٹ سیریز کے سب سے کامیاب بالر رہے۔ انگلینڈ کے لیے سیریز کے دوران ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے میتھیو پوٹس 14 وکٹوں کے ساتھ سیریز کے دوسرے اور انگلینڈ کے سب سے کامیاب بالر رہے۔
تیسرے میچ میں دس وکٹیں حاصل کرنے والے انگلش لیفٹ آرم اسپنر جیک لیچ نے سیریز کے دوران 13 اور اسٹورٹ براڈ نے 12 وکٹیں حاصل کیں۔ دو میچز کھیلنے والے جیمز اینڈرسن بھی سیریز کے دوران 11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے نمایاں رہے۔
اس سیریز میں کامیابی کے ساتھ ہی انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے مخالف ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ معروف کرکٹ صحافی میلنڈا فیرل کے بقول ستمبر سے شروع ہونے والی پاک انگلینڈ سیریز میں اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا ۔
ادھر سابق انگلش کپتان مائیکل وان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کی اس شاندار کامیابی نے آنے والی نسل کو متاثر کیا جو ٹیسٹ کرکٹ کو ایک نئی طرح سے دیکھے گی۔