انٹرویوز

برطانیہ نہ چھوڑتے تو بیوی کا حشر بھی ماں جیسا ہوتا: شہزادہ ہیری

Written by Omair Alavi

کراچی

برطانیہ کےموجودہ بادشاہ چارلس سوم اور لیڈی ڈیانا کے چھوٹے بیٹے شہزادہ ہیری نے برطانیہ چھوڑ کر امریکہ میں سکونت کیوں اختیار کی؟ اس کے بارے میں برطانوی اخبارات میں تو بہت کچھ آیا۔لیکن شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ اداکارہ میگھن مارکل نے اس پر سوائے ایک دو انٹرویوز کے زیادہ بات نہیں کی۔

لیکن اب ان دونوں نے چپ توڑ کر نیٹ فلکس کی نئی دستاویزی فلم ‘ہیری اینڈ میگھن’ کے ذریعے اپنا مؤقف عوام تک پہنچایا ہے۔

شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کی زندگی پر مبنی اس نیٹ فلکس سیریز کی چھ اقساط کو دو حصوں میں نیٹ فلکس پر پیش کیا گیا۔پہلی تین اقساط آٹھ دسمبر کو جب کہ آخری تین اقساط 15دسمبر کو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئیں۔

ہیری نے دبے الفاظ میں اپنی ماں کی موت کا ذمہ دار ‘ پاپرازی ‘کو قرار دیا اوران کے خیال میں اگر وہ برطانیہ نہ چھوڑتے تو یہ لوگ ان کی اہلیہ کا بھی یہی حال کرتے۔

یہی نہیں، میگھن مارکل نے اپنا حمل ضائع ہونے کا ذمہ دار بھی برطانوی میڈیا کو قرار دیا کیوں کہ جس وقت وہ اس سانحے کا شکار ہوئیں،اس وقت وہ امریکہ میں بیٹھ کر برطانوی میڈیا کے خلاف ااپنا مقدمہ لڑ رہی تھیں جس میں ان کی ‘پرائیویسی ‘ کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔


سیریز میں ہیری اور میگھن نے کیا انکشافات کیے؟

ویسے تو شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل مارچ 2021 میں امریکی ٹاک شو میزبان اوپرا ونفری کے سامنے کھل کر بات کر چکے ہیں۔لیکن اس دستاویزی فلم میں انہوں نے شاہی خاندان کی روایات پر تنقید کی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں ایسا کیا ہے جس نے اسے نیٹ فلکس کی تاریخ کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والے ڈاکیو مینٹری بنایا؟ یہ جاننے کے لیے اس کے دونوں حصوں کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلے حصے میں جو تین اقساط پر مشتمل ہے، ہیری اور میگھن نے اپنی پہلی ملاقات سے لے کر اپنی شادی تک کے سفر پر کھل کر بات کی۔

ناظرین کو نہ صرف پتا چلتا ہے کہ ہیری نے پہلی بار میگھن کو انسٹاگرام پر دیکھ کر پسند کیا بلکہ انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ ایک مشہور امریکی اداکارہ ہیں جو اس وقت کی ایک معروف ٹی وی سیریز ‘سوٹس’ میں مرکزی کردار ادا کررہی تھیں۔


میگھن مارکل کے مطابق پہلی ملاقات پر شہزادہ ہیری کا لیٹ آنا انہیں پسند نہیں آیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے میگھن کو بوٹسوانا آنے کی دعوت دی تب انہیں اندازہ ہوا کہ ہیری ایک شہزادے سے بڑھ کر ایک اچھے انسان بھی ہیں۔

دونوں کے بقول منگنی کی خبر لیک ہونے سے قبل وہ دونوں بے حد خوش تھے اور جس دن یہ خبر منظر عام پر آئی، اس دن سے ان کی زندگی میں جیسے ایک بھونچال آگیا۔یہاں ا ن کے قریبی دوستوں کے انٹرویوز سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی کہ میڈیا کی وجہ سے ان کی زندگی میں خلل آیا جو اس سے پہلے نہیں تھا۔

میگھن نے ان تین اقساط میں آنجہانی ملکہ الزبتھ دوم سے پہلی ملاقات، ہیری کے گھروالوں کے مثبت ردِعمل پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد پر بھی تنقید کی جنہوں نے بغیر انہیں جانے ان پر کتابیں تحریر کردیں۔ ان کا اشارہ برطانوی مصنف اینڈریو مورٹن جیسے کئی صحافیوں کی جانب تھا جنہوں نے بقول ان کے من گھرٹ باتیں میڈیا میں پھیلائیں۔



منگنی کے بعد جب میگھن کی زندگی کو اُن کے بقول ‘پاپرازی’ نے عذاب بنایا تو شہزادہ ہیری نے اپنے بھائی شہزادہ ولیم اور والد شہزادہ چارلس سے اس حوالے سے بات کی۔اس پر دونوں کا مؤقف تھا کہ یہ نئی بات نہیں۔ ان کی بیگمات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا جس پر ہیری نے واضح کیا کہ ان دونوں کی بیگمات نہ تو امریکی تھیں اور نہ ہی سیاہ فام۔

میڈیا کی باتوں پر دونوں کو واضح احکامات تھے کہ وہ کسی سوال کا جواب نہیں دیں گے جس پر میگھن کی والدہ ڈوریا نے کہا کہ ان کی بیٹی نے جس طرح صبر کیا، وہ اس کی چشم دیدگواہ ہیں۔

سیریز کے دوسرے حصے میں ہیری اور میگھن نے بغیر نام لیےشہزادہ چارلس جو اب بادشاہ بن چکے ہیں اور شہزادہ ولیم کے خلاف کھل کر بات کی۔

ہیری نے انکشاف کیا کہ جب ان کے والد کو بھیجی گئی ذاتی نوعیت کی ای میل کا متن انہوں نے اخبار میں پڑھا تو انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ برطانوی شاہی خاندان اور میڈیا کتنے قریب ہیں۔


میگھن نے بھی اس موقع پر اپنی سوتیلی بہن سمانتھا مارکل کے انٹرویوز اپنے والد تھامس مارکل کی پیسوں کے عوض کھینچی جانے والی تصاویر اور بھانجی ایشلی ہیل کے بارے میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس ‘ہاف سسٹر’ کو وہ ٹھیک طرح سے جانتی ہی نہیں،ان کے انٹرویو کی کوئی اہمیت نہیں اور اگر ان کی بیٹی ان سے اچھے روابط رکھنا چاہ رہی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔

سب سے اہم بات جو اس دستاویزی فلم کے ذریعے سامنے لائی گئی وہ میگھن مارکل کا وہ خط ہے جو انہوں نے اپنی شادی سے چند دن پہلے ملکہ کی ہدایت پر اپنے والد کو لکھا تھا جس کو برطانوی اخبارات نے بغیر اجازت حاصل کئے اپنی مرضی سے چھاپ دیا۔

اس خط کے لیک ہونے پر ہیری اور میگھن نے مقدمہ کیا اور اپنے طور پر وکیل کیا اور یہ مقدمہ جیت لیا۔

نہ صرف اس دستاویزی فلم میں میگھن اور ہیری نے الزام لگایا کہ ان کی مقبولیت کی وجہ سے ان کے گھروالوں کو مسئلہ تھا بلکہ ہیری کو ان کی اپنی دادی سے ملنے سے بھی شاہی خاندان کے عملے نے ایک بار روکا۔ وہ بھی اس وقت جب ملکہ الزبتھ نے خود ہیری کو بتایا تھا کہ وہ ان سے ملنے کے لیے وقت نکال سکتی ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ جو یہ دستاویزی فلم سامنے لائی وہ میگھن مارکل کا سیاہ فام امریکی ہونا تھا لیکن آگے جاکر میگھن نے انکشاف کیا کہ اسی سیاہ رنگ کی وجہ سے ان کی امریکی اداکار ٹائیلر پیری سے دوستی ہوئی۔ جنہوں نے انہیں خفیہ انداز میں کینیڈا سے امریکہ لانے میں ایک ایسے وقت میں مدد کی جب شاہی خاندان نے ان سے سیکیورٹی تک واپس لے لی تھی۔

ہیری نے اس دستاویزی فلم میں واضح کیا کہ برطانیہ چھوڑنے کا فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا جب ایک میٹنگ میں ان کے بھائی شہزادہ ولیم ان پر چیخے۔ والد چارلس نے قطع تعلق کی دھمکی دی اور ملکہ الزبتھ وہاں ببیٹھی سب کچھ دیکھتی اور سنتی رہیں۔

شہزادہ ہیری نے اس دستاویزی فلم میں کئی بار شاہی خاندان کے ساتھ رہنے کو ‘سوپ اوپرا’ سے تشبیہ دی ہے جس کی سب سے آسان تشریح پاکستان اور بھارت میں چلنے والے وہ ڈرامے ہیں جن میں ساس بہو کے جھگڑے دکھائے جاتے ہیں۔

لیکن مبصرین کے مطابق ‘ہیری اینڈ میگھن ‘ اپنےناظرین پر ‘سوپ اوپرا’ جیسا تاثر ہی چھوڑتے ہیں جس سے ان دونوں کو اور ان کے بچوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔


شہزادہ ہیری کابار بار میگھن کو اپنی آنجہانی والدہ لیڈی ڈیانا سے ملانا، پہلی ملاقات سے لے کر حال تک ہر موقع کی ویڈیو کا آسانی سے دستیاب ہونا اور دونوں کے دوستوں کے انٹرویوز سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے ان کی زندگی میں جو بھی ہوا، وہ سب کسی سازش کا حصہ تھا۔

اس دستاویزی فلم کے شروع اور آخر میں واضح اندازمیں بتایا گیا ہے کہ شاہی خاندان کے کسی بھی فرد نے یاان کے عملے سے کسی نے اس پر ردِعمل دینے سے انکار کردیا تھاجس کے بعد اس دستاویزی فلم کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔

دستاویزی فلم کے ریلیز ہونے کے بعد ہیری اور میگھن کی مقبولیت میں کمی

برطانوی میڈیا سے تو ہیری اور میگھن دونوں ہی ناراض ہیں،لیکن امریکی میڈیا جس کا حصہ اوپرا ونفری بھی ہیں اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات بھی، اس ڈاکیو مینٹری کے بارے میں کچھ زیادہ مثبت اندازنہیں رکھتے۔

امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے لیےلکھتے ہوئے مونیکا ہیس کا کہنا تھا کہ ہیری اور میگھن نے ایک ‘فیری ٹیل اسکیپ’ یعنی ایک پریوں کی کہانی سے خود کو نکالا۔ لیکن اس دستاویزی فلم کودیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ اب بھی اسی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی شاہی خاندان کے خلاف بار بار بات کرنے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ان کے بقول تین سال قبل شاہی خاندان سے راہیں جدا کرنے کے بعد اور اوپرا ونفری کو انٹرویو دینے کے بعد اب اس دستاویزی فلم کا مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔


انہوں نے ان دونوں کے طرزِ زندگی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہیری ایک فوجی ہے اور میگھن ایک نارمل کیبل ٹی وی اداکارہ، اگر وہ شاہی خاندان کے فرد نہ ہوتے تو جس قسم کی زِ زندگی وہ گزار رہے ہیں، وہ مشکل ہوتا۔

ان کے خیال میں اگر ہیری کے بڑے بھائی کی بیوی کسی کو گلے نہیں لگاتیں اور ان کے پاس رہنے کے لیے بڑا گھر ہے، تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ بہت سارے خاندانوں میں جہاں بڑے بھائی کی شادی پہلے ہوجاتی ہے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے میگھن کی لیڈی ڈیانا سے محبت پر بھی کہا کہ ایک ایسی ساس سے جس سے وہ ملی ہی نہیں، ان کی قربت سمجھ سے باہر ہے۔

انہوں نے اس دستاویزی فلم کو ایک محتاط کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں فیملی ڈرامہ کی جھلک ہے اور کسی کا نام نہیں لیا گیا اور شاہی خاندان کو بھی ‘انسٹی ٹیوشن’ یا اس کے عملے کو ‘آفس’ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔

آخر میں انہوں نے میگھن کی ہمت کی داد دیتے ہوئے کہا کہ جو ان پر گزری وہ کسی اور پر گزرتی تو وہ کب کی سب کچھ چھوڑ چکی ہوتی لیکن میگھن نے ہمت سے کام لے کر پیچھے نہ ہٹنے کی جو ٹھانی تو وہ اس پر آج بھی قائم ہیں۔


دوسری جانب سی این این کے لیے تبصرہ کرتے ہوئے جیک گائے نے کہا کہ اس سیریز سے انہیں بہت کچھ نیا جاننے کو ملا۔ لیکن پہلی بار میگھن سے شاہی خاندان کی تعریف بھی سنی جس میں ان کی ملکہ الزبتھ سے پہلی ملاقات، ان کا گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھٹنوں پر کمبل ڈالنا اور ساتھ بیٹھ کر قہقہہ لگانا شامل ہے۔


ادھر خبررساں ادارے رائٹرز کے لیے اس سیریز کے شاہی خاندان پر اثر پر بات کرتے ہوئے مائیکل ہولڈن نے لکھا کہ اس سیریز کے نشر ہونے کے بعد برطانیہ میں شاہی خاندان پر خوب تنقید تو ہورہی ہے، لیکن ایک جائزے کے مطابق اس کی وجہ سے ہیری اور میگھن کی مقبولیت میں زبردست کمی آئی ہے۔

ان کے مطابق یو گوو نامی ادارے کی جانب سے کئے گئے پول کے مطابق اس وقت شاہی خاندان کے افراد میں ہیری اور میگھن شہزادہ اینڈریو کے بعد سب سے زیادہ ناپسندیدہ افراد ہیں۔

اسی پول کے مطابق شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ اب بھی شاہی خاندان کے سب سے مقبول افراد ہیں، تاہم نوجوانوں کے شاہی خاندان کے بارے میں خیالات اپنے بزرگوں سے مختلف ہیں۔


اسی تبصرے میں ان کا کہنا تھا کہ ہیری اور میگھن کی دستاویزی فلم کوئی نئی بات نہیں۔جب شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دی تھی تب بھی شاہی خاندان کو اسی قسم کی تنقید کا سامناکرنا پڑا تھا۔

شہزادی ڈیانا نے بھی اپنے بیٹے اور بہو کی طرح ٹی وی انٹرویو میں اپنے سابق شوہر اور ان کے گھروالوں پر الزامات لگائے تھے لیکن اس سے ان کی ساکھ پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

ان کے بقول لیڈی ڈیانا کی موت کے بعد شاہی خاندان نے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرلی جو آج بھی قائم ہیں۔انہوں نے اپنے تجزیے میں ساوانٹا نامی کمپنی کے سروے کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق 59 فی صد برطانوی شہریوں کے خیال میں اس دستاویزی فلم کوپیش کرنا ایک برا آئیڈیا تھا۔

پچاس فی صد کا خیال تھا کہ اس دستاویزی فلم کے ذریعے ہیری اور میگھن پر گزرنے والی روداد درست انداز میں بیان نہیں کی گئی۔

اس دستاویزی فلم سے شاہی خاندان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا!

شاہی خاندان کی بائیوگرافر کلوڈیا جوزف نے بھی اس سیریز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس سے شاہی خاندان کو کوئی فرق پڑے گا۔

انہوں نے ہیری اور میگھن کی باتوں کو ایک ایسے بچے کی باتوں سے تشبیہ دی جو ناراض ہوکر اپنے کھلونے پھینکنے لگتا ہے۔

اُن کے بقول اس دستاویزی فلم کو دیکھنے کے بعد جن جن لوگوں کی ہمدردیاں شاہی خاندان سے تھیں، وہ انہی کے ساتھ رہیں گی جبکہ ہیری اورمیگھن کے چاہنے والے انہی کا ساتھ دیں گے۔

اور آخر میں بات برطانوی اخبار دی گارڈین کی ،جس کے لیے تجزیہ کرتے ہوئے اسٹیفن بیٹس نے کہا کہ اگر ہیری اور میگھن کے خیال میں اس دستاویزی فلم کو دیکھ کر شاہی خاندان بدل جائے گا تو انہیں مایوسی ہوگی۔

انہوں نے شہزادہ ہیری کو سابق بادشاہ ایڈورڈ ہشتم اور ان کی اہلیہ میگھن کو والس سمپسن سے ملاتے ہوئے کہا کہ اپنی دادی کے چچا کی طرح انہیں برطانیہ سے باہر جو عزت مل رہی ہے، وہ انہیں شاید اب برطانیہ میں نہ ملے۔


دسمبر 1936 میں کنگ ایڈورڈ نے بھی ایک امریکی طلاق یافتہ عورت سے شادی کرکے شاہی خاندان کوچھوڑ کر فرانس میں سکونت اختیار کرلی تھی اور ہیری نے بھی طلاق یافتہ میگھن سے شادی کرنے کے بعد امریکہ کا رخ کیا۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔