کراچی — ہالی وڈ میں ایک وقت تھا جب باکس آفس پر سپر ہیرو فلموں کو نہ صرف کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا بلکہ دنیا بھر میں شائقین ان کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔
سپر ہیرو فلموں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ جب ‘ایوینجرز : اینڈ گیم’ اور ‘اسپائیڈر مین: نو وے ہوم’ ریلیز ہوئی تو امریکہ اور پاکستان سمیت متعدد ممالک میں اس فلم کو دیکھنے کے لیے سنیما گھروں میں لوگوں کا رش تھا۔
لیکن حالیہ دنوں میں سپرہیرو فلمیں باکس آفس پر اپنا اثر کھو تی ہوئی نظر آرہی ہیں۔گزشتہ دو ماہ کے دوران مارول اسٹوڈیوز کی ‘اینٹ مین اینڈ دی واسپ: کوانٹامینیا’ اور ڈی سی اسٹوڈیوز کی’شیزام: فیوری آف دی گاڈز’ ریلیز ہوئیں۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی سپر ہیرو فلم باکس آفس پر اپنا جادو جگانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
فلموں اور ڈراموں کا تجزیہ پیش کرنے والی امریکی ویب سائٹ ‘روٹن ٹوماٹوز’ کے مطابق ‘اینٹ مین ‘ کے سیکوئل کو 47 فی صد جب کہ ‘شیزام ‘ کے سیکوئل کو 51 فی صد کے قریب شائقین نے پسند کیا جو سپر ہیرو فلموں کے لحاظ سے مایوس کن کارکردگی ہے۔
فلمی تجزیہ کاروں کے خیال میں گزشتہ برس باکس آفس پر راج کرنے والی فلم ‘ٹاپ گن: میورک’ اور ‘ایواٹار: وی آف دی واٹر’ ان دونوں سپر ہیرو فلموں سے بہتر تھیں بلکہ اکیڈمی ایوارڈز میں ان دونوں کو سنیما بچانے والی فلمیں قرار دیا گیا تھا۔
رواں برس کے آغاز میں ‘اسکرین رینٹ’ نامی انٹرٹینمنٹ ویب سائٹ کے لیے تجزیہ کرتے ہوئے تھامس بیکن نے اپنی تحریر میں انکشاف کیا تھا کہ کافی عرصے بعد 2022 وہ پہلا سال بن کر سامنے آیا ہے جب باکس آفس پر سپر ہیرو فلموں نے راج نہیں کیا۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دسمبر 2021 میں ریلیز ہونے والی سپر ہیرو فلم ‘اسپائیڈر مین: نو وے ہوم’ نے سنیما کو ایک نئی زندگی بخشی تھی لیکن اس کے بعد آنے والی سپر ہیرو فلمیں ایسا نہ کر سکیں۔
اس تجزیے میں مصنف نے شائقین کی توجہ ‘موربیئس’ اور ‘بلیک ایڈم’ جیسی فلموں کی جانب دلائی جو بڑی کاسٹ کے باوجود باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئیں۔
سپر ہیرو فلموں کے زوال کی وجہ آخر کیاہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق کامیابیوں کا جو سلسلہ سن 2008 میں بیٹ مین کی دوسری فلم ‘دی ڈارک نائٹ’ اور مارول سنیماٹک یونی ورس کی پہلی فلم’آئرن مین’ سے شروع ہوا تھا وہ 2019 میں ‘ایوینجرز اینڈ گیم’ کی شاندار کامیابی کے ساتھ اس لیے ختم ہو گیا کیوں کہ اس کے بعد کی اسٹوڈیوز نے کوئی پلاننگ نہیں کی تھی۔
اداکار رابرٹ ڈاؤنی جونیئر کی بطور آئرن مین موت اور کرس ایونز کی بحیثیت کیپٹن امریکہ ریٹائرمنٹ
کے بعد مارول اسٹوڈیوز نے بھی ٹی وی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر زیادہ زور دیا اور وانڈا ویژن، دی فیلکن اینڈ دی ونٹر سولجر، لوکی اور ہاک آئی جیسی کامیاب شارٹ سیریز پیش کیں۔
شاید کم توجہ کی وجہ سے سن 2020 کے بعد سے ریلیز ہونے والی مارول اسٹوڈیوز کی فلمیں دی نیو میوٹینٹس، بلیک وڈو، شینگ چی اینڈ دی لیجنڈ آف دی ٹین رنگز، وینم، لیٹ دیئر بی کارنیج، ایٹرنلز، موربئیس، اور اینٹ مین اینڈ دی واسپ، کوانٹامینیا باکس آفس پر ناکام ہوئیں۔
گزشتہ برس ریلیز ہونے والی بلیک پینتھر؛ وکانڈا فارایور کی باکس آفس پر کامیابی بھی سپر ہیرو فلموں کو پستی کی جانب بڑھنے سے نہ روک سکی۔
اسی طرح ڈی سی اسٹوڈیوز کی فلم ‘جوکر’ کے بعد سے ان کی جتنی فلم ریلیز ہوئیں اس میں سوائے ‘دی بیٹ مین’ کے کسی نے باکس آفس پر خاطر خواہ بزنس نہیں کیا۔ان فلموں میں برڈز آف پرے، ونڈر وومن 1984، دی سوسائیڈ اسکواڈ کے ساتھ ساتھ بلیک ایڈم اور شیزام: فیوری آف دی گاڈز شامل ہیں۔
‘دی رنگر’نامی ویب سائٹ کے مطابق پے درپے ناکام فلموں کی وجہ سے باکس آفس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ تجزیہ کار مائلز سرے کے خیال میں ماضی میں اگر کوئی سپر ہیرو فلم باکس آفس پر ناکام ہوتی تھی تو اس کے نقصان کی تلافی کے لیے جلد ہی دوسری فلم آجاتی تھی لیکن مسلسل مایوس کن فلموں کی وجہ سے اب ایسا نہیں ہو پارہا۔
ان کے خیال میں مارول اسٹوڈیو ز کا فیز فور جو ‘بلیک پینتھر: وکانڈا فارایور’ کے ساتھ ختم ہوگیا تھا وہ سب سے کمزور دورتھا اور اس سے جتنا نقصان اس طرز کی فلموں کو پہنچا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیے محنت درکار ہوگی۔
مائلز سرے نے یہ بھی کہا کہ آنے والی سپر ہیرو فلموں سے امید لگانا مایوس کن ہے۔ ڈی سی اسٹوڈیوز کے نئے سی ای او جیمز گن کی حریف مارول اسٹوڈیو کے ساتھ آخری فلم ‘گارجیئنز آف دی گیلکسی’ کا تیسرا حصہ آئندہ ماہ ریلیزہوگا جس کی شوٹنگ کے دوران ہدایت کار کے پرانے ٹوئٹس منظر عام پر آنے کی وجہ سے ان پر کچھ عرصہ کے لیے پابندی لگادی گئی تھی۔
کاؤ بوائے ویسٹرن اور وار فلموں کی طرح سپر ہیرو فلموں کا بھی زوال
دنیا بھر میں باکس آفس پر سب سے زیادہ بزنس کرنے والی ٹاپ ٹین فلموں میں سے چار سپر ہیرو فلمیں ہیں لیکن سوائے ‘اسپائیڈر مین: نو وے ہوم’ کے تمام فلمیں کروناسے پہلے ریلیز ہوکر کامیاب ہوئیں تھیں۔
ان فلموں میں 2019 میں ریلیز ہونے والی ایوینجرز: اینڈ گیم دوسرے نمبر پر، 2018 میں ریلیز ہونے والی ایوینجرز انفنیٹی وار چھٹے، 2021میں ریکارڈ توڑ بزنس کرنے والی اسپائیڈر مین: نو وے ہوم ساتویں اور 2012 میں ریلیز ہونے والی دی ایوینجرز دسویں نمبر پر موجود ہیں۔
لیکن کچھ عرصہ قبل اسی فہرست میں زیادہ تر وہ فلمیں شامل تھیں جس میں مرکزی کردار سپر ہیرو نے ادا کیا ہو۔ گزشتہ برس ایواٹار: دی وے آف واٹر اور ٹاپ گن: میورک نے ریکارڈ بزنس کرکے سپر ہیرو فلموں کے دور کے اختتام کی بنیاد رکھی تھی۔
ریزر فسٹ نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ نے سپر ہیرو فلموں پر آنے والے اس برے دور کومعروف گلوکار ایلویس پریسلے کی ناکامی کے اس دور سے تشبیہ دی جسے ان کے بڑھتے ہوئے وزن کی وجہ سے’فیٹ ایلویس’ کہا جاتا تھا۔
Superhero films have officially entered their Fat Elvis phase.
— RazörFist (@RAZ0RFIST) February 26, 2023
‘گیم رینٹ’ نامی ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہوئے تجزیہ کار ایما سوزن اوکمین نے کہا کہ سپر ہیروفلموں کا انجام بھی ویسٹرن فلموں اور ڈیزازٹر فلموں کی طرح ہوگا جو اپنے وقت میں تو بہت کامیاب تھیں لیکن آگے جاکر انہیں دوسرے طرز کی فلموں نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے 90 کی دہائی میں بننے والی کامیاب فلموں ‘ٹوئسٹر’ اور ‘وولکینو’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے وقت میں باکس آفس پر راج کرنے والی ان فلموں کی طرز پر بننے والی ڈیزازٹر فلموں کی اگلی دہائی میں کم پذیرائی کی وجہ شائقین کا بدلتا ہوا مزاج تھا جنہیں فورٹی ایئر اولڈ ورجن، اینکر مین اور سپر بیڈ جیسی کامیڈی فلمیں زیادہ پسند آنے لگی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں کامیاب ہونے والی ٹی وی سیریز ‘یلواسٹون’نے ویسٹرن فلموں کے مداحوں کو تو خوش کیا لیکن وار فلمز کی طرح ان کی مانگ میں کمی آئی ہے او ر کچھ یہی حال سپر ہیرو فلموں کا ہورہا ہے۔
ایما سوزن اوکمین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مستقبل میں سپر ہیروز اور ان پر بننے والی فلمیں کہیں نہیں جائیں گی لیکن ان کو بنانے والوں کو ذہنی طور پر تیار ہوجانا چاہیے کہ اب وہ باکس آفس پر اس طرح راج نہیں کرسکیں گے جیسے کہ ماضی میں کرتی تھیں۔ انہیں دوسری قسم کی فلموں کے ساتھ باکس آفس شیئر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔