کراچی —
افغانستان کا نام سنتے ہی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں جہاں جنگ و جدل کا خیال آتا ہے وہیں لٹریچر سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ملک ایک مختلف حیثیت رکھتا ہے۔
انگریزی لٹریچر کی بے شمار کتابوں میں افغانستان کا موضوع زینت بنا ہے جن میں افغان جنگ اور اس سے جُڑی متعدد کہانیاں بیان کی گئی ہے۔
سن 1887 میں شائع ہونے والے ناول ‘اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ’ میں پہلی بار مشہور سراغ رساں شرلوک ہومز کی ملاقات دوسری افغان جنگ سے واپس آنے والے ڈاکٹر جان واٹسن سے ہوتی ہے اور شرلوک ہومز انہیں دیکھتے ہی یہ بھانپ لیتے ہیں کہ ڈاکٹر واٹسن حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے ہیں۔
اگر ڈاکٹر واٹسن دوسری افغان جنگ میں نہ جاتے تو وہ رہائش کے لیے کبھی بھی شرلوک ہومز سے نہ ملتے اور شرلوک ہومز کی کہانیاں قارئین تک نہ پہنچتیں کیوں کہ مصنف سر آرتھر کونن ڈوئل نے بھی ڈاکٹر واٹسن ہی کو راوی بنا کر متعدد کہانیاں اور ناول لکھے ہیں۔
افغانستان اور انگریزی لٹریچر کا ساتھ صرف یہیں تک نہیں تھا بلکہ رڈیارڈ کپلنگ سے لے کر جان ماسٹرز اور پھر خالد حسینی تک کئی ناول نگاروں نے افغانستان کے پسِ منظر میں بے شمار کہانیاں لکھیں جو کافی مقبول بھی ہوئیں۔
آئیے ایسے ہی نو ناولوں کی بات کرتے ہیں جن کی کہانی افغانستان سے متعلق موضوعات کے گرد گھومتی ہیں اور جو اپنی منفرد تحریر اور پلاٹ کی وجہ سے آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔
1۔ دی مین ہو وڈ بی کنگ: رڈیارڈ کپلنگ
سن 1888 میں شائع ہونے والی یہ کہانی دو ایسے انگریزوں کے گرد گھومتی ہے جو افغانستان میں واقع کافرستان نامی علاقے میں جا کر وہاں کا بادشاہ بننے کی ٹھان لیتے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں کیوں کہ مقامی افراد ان کی بندوقوں اور دنیاوی معلومات سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور انہیں ‘خدا’ تک تسلیم کر لیتے ہیں۔
لیکن پھر ایک چھوٹی سی غلطی انہیں واپس زمین پر پہنچا دیتی ہے جس کے بعد نہ بادشاہت رہتی ہے اور نہ ہی خدائی۔
ناول کے راوی خود رڈیارڈ کپلنگ تھے لیکن انہوں نے کہیں بھی اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ مقامی علاقوں سے ان کی واقفیت اور برِصغیر میں موجود برطانوی فورسز کی افغانستان میں مسلسل مداخلت نے انہیں یہ ناول لکھنے کا آئیڈیا دیا تھا جس کے بعد اس پر ایک فلم بھی بنی تھی۔
ویسے تو رڈیارڈ کپلنگ نے 1901 میں ‘کِم’ نامی ناول بھی دوسری افغان جنگ کے پسِ منظر میں ہی لکھا تھا لیکن اس میں زیادہ تر ایکشن ہندوستان میں پیش آیا تھا جب کہ اس کی کہانی میں روسی انٹیلی جنس ایجنٹس اور ان کی دستاویزات، ہمالیہ کی پہاڑیاں اور جی ٹی روڈ پر سفر بھی شامل ہے۔
2۔ دی لوٹس اینڈ دی ونڈ: جان ماسٹرز
برطانوی ناول نگار جان ماسٹرز کا یہ ناول 1953 میں شائع ہوا تھا جس کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو ایک انجان افغان کے قتل کی چشم دید گواہ ہوتی ہے اور جس کی کڑیاں آگے جا کر ‘دی گریٹ گیم’ سے ملتی ہیں۔
‘دی گریٹ گیم’ وہی ہے جس کا تذکرہ ‘کِم’ نامی ناول میں بھی تھا۔ جس کی وجہ سے برطانیہ اور روس دونوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں۔
ناول میں این نامی لڑکی کی ملاقات برطانوی فوجی روبن سیوج سے ہوتی ہے جو افغانستان میں تعینات ہوتا ہے لیکن اسے جنگ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔
ناول میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک انجان افغان کا قتل ان دونوں کی زندگیاں متاثر کرتا ہے۔
3۔ دی فار پویلینز: ایم ایم کے
سن 1978 میں شائع ہونے والا یہ ناول برطانوی ناول نگار ایم ایم کے نے تحریر کیا ہے جو رڈیارڈ کپلنگ کی طرح ہی ہندوستان میں پیدا ہوئیں اور دس برس تک وہیں رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ ناول اور ‘کِم’ میں کافی مماثلت ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار ایشٹن نامی نوجوان کا ہے جو اپنے انگریز والدین کے مرنے اور 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مقامی لڑکا اشوک بن کر اپنی آیا سیتا کے ساتھ رہتا ہے۔
ناول میں ایک بھارتی شہزادی بھی ہے جس سے ایشٹن کو محبت ہو جاتی ہے جو پہلے اس کے گھر میں ملازم ہوتا ہے اور بعد میں انگریز بن کر اس کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔
کیسے ‘ایشٹن’ کو پتا چلتا ہے کہ وہ بھارتی نہیں بلکہ انگریز ہے، اور کیسے وہ اپنی شناخت کی تلاش میں کبھی افغانستان تو کبھی انگلستان اور کبھی ہندوستان میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ یہ تجسس پڑھنے والوں کے لیے کہانی کو مزید دلچسپ بناتا ہے۔
اس ناول کے دو حصے افغانستان میں بھی گزرتے ہیں۔ پہلے حصے میں ایشٹن کو غیر ذمہ داری پر معطل کر کے واپس وہیں بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ گیارہ برس کی عمر میں جان بچا کر بھاگا تھا۔
دوسرے حصے میں اسے دوسری افغان جنگ سے قبل افغانستان بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ جاسوسی کر کے انگریز فوج کی مدد کر سکے۔
4۔ ٹو اسٹیپس فروم ہیون: میخائل ایوسٹافیوو
یوں تو روس میں میخائل ایوسٹافیوو کو ناول نگار سے زیادہ ایک پینٹر کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنے ناول ‘ٹو اسٹیپس فروم ہیون’ میں روس اور افغانستان کی جنگ کی منظر کشی کی ہے۔
سن 1997 میں شائع ہونے والا یہ ناول 80 کی دہائی میں ہونے والی اس جنگ کے گرد گھومتا ہے جس میں مجاہدین اور روسی فوج کی جھڑپوں اور افغانستان میں تباہ کاریوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
ناول میں میخائل ایوسٹافیوو نے روسی فوجیوں کی جانب سے مقامی افراد پر ہونے والے مظالم کا ذکر تو کیا ہی تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ کیسے اس جنگ نے روسی فوجیوں کے ذہنوں کو اثر انداز کیا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار لیفٹیننٹ اولیگ شیراگن ہے جو روسی فوج کی ایک پلاٹون کا کمانڈر ہوتا ہے جو جنگ میں زخمی ہونے کے بعد کسی نہ کسی طرح واپس وطن آ جاتا ہے لیکن اس کا ملٹری کریئر ختم ہو جاتا ہے۔
5۔ دی بریڈ ونر: ڈیبورا ایلیس
سن 2000 میں شائع ہونے والے کینیڈین مصنفہ ڈیبورا ایلیس کے اس ناول پر ایک فلم بھی بنی تھی۔
ناول کی کہانی ایک گیارہ سالہ لڑکی پروانہ کے گرد گھومتی ہے جسے طالبان کے زیرِ اثر افغانستان میں نوکری کے لیے ایک لڑکے کا روپ دھارنا پڑتا ہے تا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے ‘بریڈ ونر’ بن سکے۔
اس ناول کے بعد اس سیریز میں تین اور سیکول بھی آئے۔ مصنفہ نے پروانہ کے کردار کو اصل سے قریب بنانے کے لیے ان افغان پناہ گزیروں سے بھی بات کی تھی جو اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں بس گئے تھے۔
6۔ دی کائٹ رنر: خالد حسینی
گزشتہ صدی میں ایک افغان شہری کے لیے افغانستان میں زندگی گزارنا کتنا مشکل تھا یہ جاننے کے لیے خالد حسینی کا سن 2003 میں شائع ہونے والا ناول ‘دی کائٹ رنر’ پڑھنا بے حد ضروری ہے۔
اس ناول کے ذریعے خالد حسینی نے افغانستان کی تاریخ کو بیان کیا ہے۔
ناول کی کہانی کابل کی وزیر خان ڈسٹرکٹ کے ایک لڑکے عامر کے گرد گھومتی ہے جو پیدا تو بادشاہت کے دور میں ہوا تھا لیکن اس نے اپنی زندگی پہلے روسی فوجیوں کے زیرِ سایہ گزاری تھی۔
7۔ اے تھاؤزنڈ اسپلینڈڈ سنز: خالد حسینی
خالد حسینی کا دوسرا ناول ‘اے تھاؤزنڈ اسپلینڈڈ سنز’ میں دو ایسی عورتوں کی کہانی ہے جو ماں بیٹی تو نہیں لیکن انہیں حالات اس رشتے میں باندھ دیتے ہیں۔
سن 2007 میں شائع ہونے والا یہ ناول اپنی بہترین کہانی اور حقیقت سے قریب ہونے کی وجہ سے بے حد مقبول ہوا تھا۔
ناول میں مریم اور لیلیٰ دو مرکزی کردار ہیں جو ایک ایسے افغانستان میں رہتے ہیں جہاں جنگ زیادہ اور امن کم ہوتا ہے۔
حالات ان دونوں کو ایک بڑی عمر کے آدمی رشید کی بیویاں بنا دیتے ہیں حالاں کہ دونوں کی عمر میں کافی فرق ہوتا ہے۔ لیکن جب رشید کا دونوں بیویوں پر تشدد حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو مریم وہی کرتی ہے جو اسے ٹھیک لگتا ہے۔
ناول کی کہانی افغانستان میں طالبان کی حکومت کرنے کے انداز کی عکاسی کرتی ہے۔
8۔ دی لٹل کافی شاپ آف کابل، ڈیبورا روڈریگز
امریکی مصنفہ ڈیبورا روڈریگز سن 2001 میں اس وفد کا حصہ تھیں جس نے افغانستان جا کر وہاں کی خواتین کی مدد کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
مصنفہ نے نہ صرف وہاں ایک بیوٹی اسکول اور ایک کافی شاپ کھولی بلکہ ان دونوں پر ‘کابل بیوٹی اسکول’ اور ‘دی لٹل کافی شاپ آف کابل’ نامی دو کتابیں بھی لکھیں۔
سن 2011 میں شائع ہونے والی ‘دی لٹل کافی شاپ آف کابل’ کو پڑھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔
اس ناول کی کہانی ایک ایسی کافی شاپ کے گرد گھومتی ہے جہاں بظاہر ایک دوسرے سے مختلف نظر آنے والی خواتین ایک جیسے حالات سے گزر رہی ہوتی ہیں۔
ناول میں بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ بے یارو مددگار خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں اور ان کی اس کاوش سے افغانستان پر کیا اثر پڑتا ہے۔
اس ناول کی کامیابی کے بعد مصنفہ نے اس کا سیکویل ‘ریٹرن ٹو دی لٹل کافی شاپ آف کابل’ بھی لکھا تھا جو 2016 میں شائع ہوا تھا۔
9۔ اینڈ دی ماؤنٹینز ایکوڈ: خالد حسینی
سن 2013 میں شائع ہونے والا خالد حسینی کا یہ تیسرا ناول ایک ایسی افغان لڑکی ‘پری’ کے گرد گھومتا ہے جسے بچپن میں اس کا باپ ایک ایسے جوڑے کو بیچ دیتا ہے جس کی کوئی اولاد نہیں ہوتی۔
ناول میں 1952 سے شروع ہونے والی کہانی کیسے 50 برس بعد تک جاری رہتی ہے، کیسے ایک بچھڑا ہوا بھائی اپنی بہن سے واپس ملتا ہے، کیوں پری کے والد اسے بیچنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ان سب کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
افغانستان کے پسِ منظر میں لکھا جانے والا یہ ناول آج بھی لوگوں میں مقبول ہے۔