پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سیکریٹری اور چیئرمین اعجاز بٹ کا کریئر بطور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر تنازعات سے بھرا ہوا ہے لیکن انہیں تاریخ میں ہمیشہ ایک دبنگ افسر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
اعجاز بٹ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر رہے ہیں لیکن انہیں اصل شہرت پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کی چیئرمین شپ سے ملی۔ وہ نہ صرف 2009 سے 2011 کے درمیان بورڈ کے چیئرمین رہے بلکہ انہوں نے بحیثیت ٹیم مینجر، سیکریٹری، خزانچی، سلیکشن کمیٹی کے رکن و چیف سلیکٹر کے طور پر بھی پاکستانی کرکٹ کی خدمت کی۔
اعجاز بٹ 85 سال کی عمر میں جمعرات کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے پاکستان کی آٹھ ٹیسٹ میچوں میں نمائندگی کی تھی لیکن انہیں کرکٹ حلقوں میں بطور ایڈمنسٹریٹر جانا جاتا ہے۔
اسی کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کا متنازع دورۂ آسٹریلیا ہو، 1987 میں تنازعات سے بھرا انگلینڈ کا دورۂ پاکستان، یا پھر 2010 میں ہونے والا اسپاٹ فکسنگ کیس، اعجاز بٹ کا کریئر کئی ناخوشگوار واقعات سے بھرا ہوا ہے۔
لیکن مارچ 2009 میں دورۂ پاکستان کے دوران لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، بطور ایڈمنسٹریٹر ان کے کریئر پر ایک ایسا داغ لگا گیا جس نے ماہرین کی رائے میں پاکستان کرکٹ کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔
یہ اعجاز بٹ ہی تھے جنہوں نے انگلش کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کا الزام لگا کر بعد میں معافی مانگی تھی اور پھر پاکستان کو ورلڈ کپ 2011 کی مشترکہ میزبانی کی رقم سے محروم ہونا پڑا تھا۔
The PCB is saddened by the news of the passing of former Test cricketer and ex-PCB chairman Ijaz Butt. Our heartfelt condolences to his family and friends. pic.twitter.com/EH0UuMBfhN
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) August 3, 2023
‘جب بھی کرکٹ ایڈمنسٹریٹر بنے ، کوئی بڑا تنازع ہوا’
اسپورٹس صحافی شاہد ہاشمی کے مطابق جب جب اعجاز بٹ پاکستان کرکٹ بورڈ میں کسی بڑے عہدے پر فائز ہوئے، تب تب کوئی بڑا تنازع ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ1987 میں انگلیڈ کے دورۂ پاکستان کے موقع پر اعجاز بٹ کرکٹ بورڈ کے ساتھ بطور سیکریٹری منسلک تھے۔ اس دورے میں پاکستانی امپائر شکور رانا اور انگلش قائد مائیک گیٹنگ کے جھگڑے کی وجہ سے ایک دن کے لیے ٹیسٹ میچ روکنا پڑا تھا لیکن اعجاز بٹ معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
شاہد ہاشمی کے مطابق اعجاز بٹ کی سب سے بڑی خوبی ان کا کھل کر بولنا تھا، وہ لوگوں کو ‘ہیڈ آن’ لینے کے عادی تھے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ،چاہے وہ سینیٹرز ہوں یا ممبر قومی اسمبلی۔
ان کے بقول اعجاز بٹ کھلاڑیوں سے بھی نہیں ڈرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ 2010 میں نامور کھلاڑیوں پر دورۂ آسٹریلیا کے بعد پابندی لگا کر انہوں نے پلیر پاور کا خاتمہ کیا تھا۔
‘کھلاڑی سے زیادہ بطور ایڈمنسٹریٹر ہیڈلائن میں رہے’
معروف اسپورٹس صحافی رشید شکور سمجھتے ہیں کہ اعجاز بٹ اتنے مشہور کھلاڑی نہیں تھے جتنے کہ ایڈمنسٹریٹر، بطور کھلاڑی انہوں نے صرف آٹھ میچز کھیلے جن میں صرف ایک نصف سینچری اسکور کی تھی لیکن بحیثیت ایڈمنسٹریٹر وہ ہمیشہ ہیڈلائن میں رہے۔
رشید شکور کے خیال میں اعجاز بٹ اپنی صاف گوئی کی وجہ سے ہمیشہ ہی تنقید کی زد میں رہے، بیان دیتے ہوئے وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے، اور اسی وجہ سے کبھی شاہد آفریدی، کبھی یونس خان اور کبھی محمد یوسف ان کے نشانے پر رہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب پاکستان ٹیم کے سابق کپتان جاوید میانداد کے خلاف پہلی مرتبہ بغاوت ہوئی تو اس وقت بھی اعجاز بٹ ٹیم کے مینجر تھے، اور ایسے ہی واقعات کی وجہ سے بطور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر ان کی زندگی کافی ہنگامہ خیز رہی۔
سینیئر صحافی نے کہا کہ جب اعجاز بٹ پی سی بی کے چیئرمین تھے تو اسی دور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا، ایک ہی سال بعد انہی کے دور میں محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے۔ جب 2011 کے ورلڈ کپ سے قبل پاکستان سے ایونٹ کی میزبانی چھینی گئی تب بھی اعجاز بٹ چیئرمین کے عہدے پر فائز تھے۔
رشید شکور کے مطابق اعجاز بٹ نے کبھی ‘بگ تھری’ کو تسلیم نہیں کیا اور اپنے بیانات کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہے۔
‘اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑی غلط بیانی نہ کرتے تو اعجاز بٹ انہیں بچا لیتے’
اسپورٹس صحافی ماجد بھٹی کے خیال میں اعجاز بٹ کی جارح مزاجی ہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھی، ان کے دور میں ہونے والے تنازعات تو لوگوں کو یاد ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 2009 میں جب پاکستان ٹیم سری لنکا کو شکست دے کر پہلی بار ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بنی، تب بھی بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اعجاز بٹ ایک سیاسی فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور کئی سال تک سروس انڈسٹریز سے منسلک بھی رہے، ان کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کئی کپتان تبدیل ہوئے۔اسٹار کھلاڑی شاہد آفریدی سے لڑائی انہیں مہنگی پڑی کیوں کہ اعجاز بٹ اس حکومتی سرپرستی سے محروم ہوگئے جس کی مدد سے وہ بورڈ کے چیئرمین بنے تھے۔
ماجد بھٹی نے کہا کہ اعجاز بٹ کے عتاب کا شکار صرف کھلاڑی اور کپتان ہی نہیں بنتے تھے بلکہ آئی سی سی والے بھی ان کے نشانے پر آجاتے تھے۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور جب بھی آئی سی سی میٹنگز میں ملک کی نمائندگی کرتے تھے ، پاکستان کا مؤقف بڑے دبنگ انداز میں بیان کرتے تھے۔
ان کے خیال میں اعجاز بٹ ایک ایسے شخص تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہر وقت جیب میں لیگل نوٹس رکھ کر پھرتے تھے اور جب دل کرتا تھا آئی سی سی کو بھی لیگل نوٹس دے دیتے تھے۔
ماجد بھٹی نے انکشاف کیا کہ اعجاز بٹ کی اسی عادت کی وجہ سے پاکستان کو 2011 ورلڈ کپ کے میزبانی حقوق کی رقم نہیں ملی کیوں کہ پاکستان سے میچز واپس لینے پر انہوں نے آئی سی سی کو لیگل نوٹس بھیج دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث کھلاڑی محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ سے غلط بیانی نہ کرتے ، تو وہ انہیں بچا سکتے تھے، لیکن کھلاڑیوں کی غلط بیانی کی وجہ سے وہ انہیں نہ بچا سکے۔