ٹیسٹ کرکٹر محمد عامر نے بھی کہہ دیا کہ اس وکٹ پر صرف بلے بازوں کو کھیلنا چاہئے، بالرز کو گھر چلے جانا چاہئے۔
راولپنڈی- پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچز پر مشتمل پہلا ٹیسٹ ڈرا تو ہوا، لیکن راولپنڈی کی جس پچ پر یہ میچ کھیلا گیا، اسے مہمان ٹیم کے کپتان نے ‘بے جان’ قرار دے کر شائقین کرکٹ کے جذبات کی ترجمانی کی۔
اس تاریخی ٹیسٹ پچ، جسے بلے بازوں، پیسرز اور اسپنرز کے لیے مدد گار ہونا چاہیے تھا، پہلے ہی دن سے تنقید کی زد میں تھی۔ کسی نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے اس ‘ناقص’ پچ کی تیاری پر تحقیقات کےلیے کہا تو کسی نے اسے ٹیسٹ کرکٹ کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
شائقین کرکٹ کا غصہ بھی جائز ہے، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی اس پچ پر پانچ دن میں صرف 14 وکٹیں گریں، جبکہ 1187 رنز بنے، جس میں زیادہ تر رنز میزبان بلے بازوں کے بیٹ سے نکلے۔
The Rawalpindi Test:
— Saj Sadiq (@SajSadiqCricket) March 8, 2022
1187 runs for 14 wickets.
An average of 84.79 runs per wicket.#PAKvAUS #Cricket
وہ شائقین جو 24 سال بعد آنے والی آسٹریلوی ٹیم سے ایک اچھے میچ کی امید لگائے بیٹھے تھے، انہیں ایک ایسا میچ ملا، جس میں اگر سست روی کو مین آف دی میچ قرار دیا جاتا تو غلط نہ ہوتا۔
اس میچ میں پاکستان کے تین بلے بازوں نے چار سنچریاں اسکور کیں، جس میں امام الحق نے دو، اور اظہر علی اور عبداللہ شفیق نے ایک ایک سنچری اسکور کی۔ فواد عالم کی دونوں اننگز میں بیٹنگ نہیں آئی، جب کہ ان فارم محمد رضوان کی جب بیٹنگ آئی، تو شائقین میچ میں دلچسپی کھو بیٹھے تھے۔
دوسری جانب مہمان ٹیم کے عثمان خواجہ اور مارنس لبوشین نروس نائینٹیز کا شکار ہوئے، جبکہ اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر نے نصف سنچریاں اسکور کیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وکٹ پر کوئی بالر دو سے زائد وکٹ نہ لے سکا، جو پیسرز اور اسپنرز دونوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی، اسی پر پاکستان کے نعمان علی نے کیرئیر بہترین بالنگ کی۔
𝟑𝟖.𝟏-𝟗-𝟏𝟎𝟕-𝟔 @Ali17Noman is having a great game! #BoysReadyHain l #PAKvAUS pic.twitter.com/Jlt64OFvBn
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) March 8, 2022
پاکستانی لیفٹ آرم اسپنر نے پہلی اننگز میں چھ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے ثابت کیا کہ اس پچ پر صرف پلان کے مطابق چلنے والا بالر ہی کامیاب ہوگا۔
کیا پاکستان میں ماضی میں بھی ایسی وکٹیں بنائی گئیں جس پر صرف بلے باز چلے؟
راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں آٹھ اور دوسری اننگز میں نو بالرز کو استعمال کرکے آسٹریلیا نے 1980 کے اس دورے کی یاد تازہ کردی جس میں وکٹ کیپر روڈ مارش سمیت تمام بالرز نے بالنگ کی تھی۔ اس وقت بھی پاکستان کی وکٹوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، آج بھی پاکستانی وکٹوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے تاریخی ٹیسٹ میچ کے لئے ایسی وکٹ کیوں بنائی، اس پر دنیا بھر سے سوال اٹھ رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر فیصل حسنین نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ جب تک پاکستان میں اچھی سپورٹنگ وکٹیں نہیں بنیں گی، تب تک دنیا کی بہترین ٹیمیں پاکستان نہیں آئیں گے۔
🗣️ "Once we improve our pitches, teams will want to tour Pakistan.” – PCB CEO Faisal Hasnain#CricketTwitter pic.twitter.com/TcyjUlIlP5
— Grassroots Cricket (@grassrootscric) December 22, 2021
حیرانی کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم تو پاکستان آگئی، لیکن وکٹیں انہیں ویسی ہی ملیں جیسی ماضی میں پاکستان میں بنتی آرہی ہیں۔ اسی کی دہائی میں جب جب آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا، ان کے بالرز کو ایسی پچ پر بالنگ کرنا پڑی جس پر وکٹیں لینا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔
آسٹریلیا کے لیجنڈری پیسر ڈینس للی نے 1980 کی سیریز کے دوران فیصل آباد میں ٹیسٹ کے بعد اس کی وکٹ کو ‘فاسٹ بالرز کا قبرستان’ قرار دیا تھا۔ اس سیریز کے بعد ڈینس للی کی ریٹائرمنٹ سے قبل پاکستان اور آسٹریلیا نے کئی میچز کھیلے، لیکن للی نے پاکستان جاکر کھیلنے سے صاف انکار کردیا تھا۔
1981میں پاکستان ٹیم نے آسٹریلیا کا جوابی دورہ کیا تو سیریز کے تین میں سے دو میچز میں ڈینس للی اور ان کے ساتھیوں نے آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر مہمان بلے بازوں کو ویسے ہی پریشان کیا، جیسے پاکستان نے آسٹریلوی بالرز کو کیا تھا۔ تاہم اس سیریز میں جاوید میانداد کی قیادت میں پاکستان ٹیم ایک ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی، اور آسٹریلیا کو پاکستان میں اگلی کامیابی کے لئے 16 سال تک انتظار کرنا پڑا۔
اس قسم کی بے جان بچ بنانے کا مقصد آسٹریلوی اٹیک کی نفی کرنا تھا، پیٹ کمنز
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز بھی راولپنڈی کی پچ پر تبصرہ کئے بغیر نہ رہ سکے، ان کا کہنا تھا کہ بے جان پچ بنانے کا مقصد آسٹریلیا کے مضبوط اٹیک کو کمزور کرنا تھا ۔
🗣️ Pat Cummins feels a draw is "not a bad” result for the tourists.#Australia only managed to pick up four wickets (one run-out) in 239 overs bowled across the two innings in Rawalpindi ❌#PAKvAUS #WTC23 #PAKvsAUS pic.twitter.com/CmdZcFWCSK
— CricWick (@CricWick) March 8, 2022
سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے بھی اس پچ پر تنقید کرتے ہوئے ماہرانہ رائے کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا، راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور شعیب اختر نے پنڈی کراؤڈ کو بوریت سے بچانے کا طریقہ تجویز کیا۔
Either declare & let Australia bat for a bit or play some T20 and entertain the crowd & one of you go for a double hundred. Pindi crowd deserves some fun.
— Shoaib Akhtar (@shoaib100mph) March 8, 2022
جبکہ ٹیسٹ کرکٹر محمد عامر نے بھی کہہ دیا کہ اس وکٹ پر صرف بلے بازوں کو کھیلنا چاہئے، بالرز کو گھر چلے جانا چاہئے۔
is pitch pe to bowlers ko ghar chale jana chaye batman’s ek doosre k sath khail lein😅😅😅😅. #PakVsAustraila
— Mohammad Amir (@iamamirofficial) March 7, 2022
نوے کی دہائی میں بھارت کے لیے چار ٹیسٹ کھیلنے والے ڈوڈا گنیش بھی راولپنڈی کی پچ پر بات کیے بغیر نہ رہ سکے، ان کے بقول اس قسم کی وکٹ پر ٹیسٹ کرکٹ نہیں ہونی چاہئے۔
Test cricket should never be played on pitches like the one we’d at Rawalpindi. Five days of cricket and we just had 14 wickets falling. What a terrible thing to witness if you’re a test cricket fan #DoddaMathu #PAKvAUS #CricketTwitter
— ದೊಡ್ಡ ಗಣೇಶ್ | Dodda Ganesh (@doddaganesha) March 8, 2022
صحافیوں، کرکٹ مبصرین و شائقین، تینوں نے ‘پنڈی پچ’ پر دل کھول کر تنقید کی!
یہی نہیں، معروف صحافی عثمان سمیع الدین نے بھی ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ 23 سال بعد آسٹریلوی ٹیم پاکستان آئی تو پاکستان نے اسے ایک ایسی پچ پر کھلادیا جو شاید 33 سال پہلے بنائی گئی ہو۔
Pakistan waited 23 years for Australia to visit, and then produced a pitch that looks like it might have stayed behind from Australia’s trip 33 years ago.
— Osman Samiuddin (@OsmanSamiuddin) March 7, 2022
پاکستان اور آسٹریلیا کی اس سیریز کو جہاں ملک بھر میں شائقین نے دیکھا وہیں سرحد پار صحافیوں اور ماہر اعداد و شمار بھی اسے غور سے دیکھ کر تجزیہ کرتے رہے۔
معروف کرکٹ رائٹر ابھیشیک مکھرجی کے مطابق اس قسم کی پچز پر ٹیسٹ کرکٹ ہونے کے بعد کوئی بھی ‘ٹیسٹ کرکٹ بہترین فارمیٹ ہے’ کا ٹوئیٹ نہیں کرے گا۔
اعداد و شمار کے ماہر موہن داس مینن نے 1980 کے دورہ آسٹریلیا کے اسٹرائیک بالر ڈینس للی اور موجودہ ٹیم کے اسٹرائیک بالر مچل اسٹارک کا موازنہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ ٹوئٹ کیا۔
ان کے مطابق جب ڈینس للی نے 1980 میں پاکستان کا دورہ کیا تو پہلے دو میچز میں وہ ایک بھی کھلاڑی کو آؤٹ نہ کرسکے، اور ایسا ہی کچھ مچل اسٹارک کے ساتھ بھی ہوا۔
First two Test matches in Pakistan
— Mohandas Menon (@mohanstatsman) March 8, 2022
Dennis Lillee in Feb-Mar 1980
(then 206 Test wkts in 38 Tests)
28-4-76-0 at Karachi
11-2-22-0
21-4-91-0 at Faisalabad
First Test in Pakistan
Mitchell Starc in Mar 2022
(then 274 Test wkts in 66 Tests)
24-5-71-0 at Rawalpindi
7-1-29-0#PakvAus
ایک اور کرکٹ مبصر بھارت راماراج کے خیال میں اس پچ پر اگر نہ ختم ہونے والا ٹیسٹ میچ کرایا جاتا تو اچھا ہوتا۔
This Rawalpindi pitch – A timeless test could have been tried.
— Bharath Ramaraj (@Fancricket12) March 8, 2022
ایک مقامی صحافی نے ایک ایسی تصویر شئیر کی جس میں ایک لڑکا ایک پوسٹر کے ذریعے پچ بنانے والے سے درخواست کررہا ہے کہ وہ براہِ مہربانی اس پچ سے مماثلت رکھتے ہوئے اس کے گھر کے باہر کی سڑک بھی بنادے۔
Help this boy 😁 #PAKvsAUS pic.twitter.com/AGvX9K4yp1
— Ihtisham Ul Haq (@iihtishamm) March 7, 2022
تاہم آسٹریلوی کرکٹ مبصر ایڈم کولنز نے پچ پر تنقید کرنے کے بجائے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے حکام کی مہمان نوازی کی تعریف کرکے سب کے دل جیت لیے۔
Let’s forget about the pitch for a moment – what a great place to start our Pakistan tour. Thanks to everyone at the ground – we’ve been looked after so well; many friends made. Can’t wait to get back to Pindi for more Test cricket in the future. #PAKvAUS pic.twitter.com/hsyLNQswfA
— Adam Collins (@collinsadam) March 8, 2022