- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آغاز 18 اپریل سے ہو رہا ہے۔
- گرین شرٹس اور کیویز کے درمیان ابتدائی تین میچز راولپنڈی اور بقیہ دو میچز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے۔
- نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کو رواں برس ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آغاز جمعرات سے ہو رہا ہے۔ کرکٹ مبصرین اس سیریز کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کی پریکٹس کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستان اپنی فل اسٹرینتھ ٹیم میدان میں اتارے گی جب کہ اہم کیوی کھلاڑی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں مصروفیت کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں۔
سیریز کے پہلے تین میچ راولپنڈی جب کہ آخری دو میچ لاہور میں کھیلے جائیں گے۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق راولپنڈی میں ہونے والے تین میں سے کم از کم دو میچ بارش سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے بعد پاکستان ٹیم مئی میں یورپ جائے گی جہاں آئرلینڈ میں تین اور انگلینڈ میں چار ٹی ٹوئنٹی میچز شیڈول ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل ان 12 میچز سے پاکستان ٹیم کو کمبی نیشن بنانے کا تو موقع ملے گا۔ البتہ انہیں ان کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا موقع نہیں ملے گا جن میں میگا ایونٹ کھیلا جائے گا۔
یاد رہے کہ رواں سال جون میں امریکہ اور ویسٹ انڈیز مشترکہ طور پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کریں گے۔ اگر پی سی بی کی جانب سے ایونٹ سے قبل ایک سیریز ان دونوں ملکوں میں کرا لی جاتی تو کھلاڑیوں کو میزبان ممالک کی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا موقع مل سکتا تھا۔
ورلڈ کپ کے لیے سینئر کھلاڑیوں پر انحصار
پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرح دنیا کی زیادہ تر ٹیمیں پہلی مرتبہ امریکہ کے میدانوں پر انٹرنیشنل کرکٹ کھیلیں گی۔ البتہ شریک میزبان ویسٹ انڈیز کی کنڈیشنز میں کھیلنے کا تجربہ بہت سے کھلاڑیوں کو ہے۔
ویسٹ انڈیز میں 2013 سے جاری کیربین پریمیئر لیگ (سی پی ایل) میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے کرکٹرز شرکت کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کے ایڈیشن کے ٹاپ بلے بازوں اور بالرز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت اسے دیگر ٹیموں پر فوقیت دلاتی ہے۔
کیربین لیگ کے گزشتہ سیزن کے ٹاپ بلے بازوں کی فہرست میں گیانا کی نمائندگی کرنے والے صائم ایوب 478 رنز کے ساتھ دوسرے اور عماد وسیم 313 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود تھے۔ اسی طرح جمیکا کی جانب سے 16 وکٹیں حاصل کرنے والے محمد عامر ٹاپ بالرز میں تیسرے نمبر پر تھے۔
محمد عامر اور عماد وسیم جس وقت کیربین پریمیئر لیگ میں شرکت کر رہے تھے اس وقت وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ البتہ حال ہی میں دونوں کھلاڑیوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے کر ٹیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے پاکستان سپر لیگ میں بہترین کارکردگی کی وجہ سے عماد اور عامر کو نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں شامل کیا ہے۔ امکان ہے کہ اگر انہوں نے اس سیریز میں عمدہ کارکردگی دکھائی تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں وہ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے اہل ہوں گے۔
ایک اور کھلاڑی جس نے گزشتہ سال سی پی ایل کے فائنل میں میچ وننگ اننگز کھیلی وہ صائم ایوب ہیں، جو اس وقت پاکستان ٹیم کا حصہ ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے نویں ایڈیشن کے دوران بطور آل راؤنڈر اپنا لوہا منوایا اور بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بالنگ میں بھی کارکردگی دکھائی۔ جس کی وجہ سے وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کے لیے ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتے ہیں۔
دفاعی حکمت عملی، بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی
یہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سال ضرور ہے، لیکن اب تک پاکستان نے صرف ایک ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی ہے جس میں اسے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں انہی کے گراؤنڈز پر چار ایک سے شکست ہوئی تھی۔
کیویز کے خلاف رواں سال کے آغاز میں کھیلی گئی سیریز اور 18 اپریل سے شروع ہونے والی سیریز میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا فرق کپتان کا ہے۔ فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی جو شکست کھانے والی سیریز میں پاکستان کے قائد تھے، اس سیریز میں بطور کھلاڑی شرکت کریں گے۔
شاہین کی جگہ کپتانی کے فرائض بابر اعظم انجام دیں گے جن کی یہ بطور قائد کم بیک سیریز ہوگی۔ انہیں گزشتہ سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد وائٹ بال کی کپتانی سے ہٹادیا گیا تھا۔
بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کی متعدد وجوہات تھیں جس میں سر فہرست ان کی دفاعی حکمتِ عملی تھی۔ مبصرین کی رائے میں وہ محمد نواز اور حارث رؤف جیسے آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں پر زیادہ انحصار کر رہے تھے۔
بیٹنگ آرڈر پر نظرثانی کی ضرورت
میگا ایونٹ سے پہلے گرین شرٹس کو اپنے بیٹنگ آرڈر پر نظر ثانی کرنا ہوگی کیوں کہ اس وقت نیوزی لینڈ کے خلاف منتخب ہونے والے اسکواڈ میں اوپنرز کی تعداد زیادہ اور مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرنے والے بلے باز کم ہیں۔
ٹیم مینجمنٹ کو اس بارے میں سوچنا ہوگا کہ آیا وہ بابر اعظم اور محمد رضوان ہی سے اننگز کا آغاز کرائے گی، یا پھر جارح مزاج بلے بازوں کو موقع دیا جائے گا۔
ایسا کرنے کے لیے پاکستان کے پاس پی ایس ایل میں تیز ترین سینچری بنانے والے عثمان خان کے ساتھ ساتھ جارح مزاج صائم ایوب اور فخرزمان موجود ہیں۔
گرین شرٹس کے پاس اس وقت مڈل آرڈر میں کوئی مستند بلے باز نہیں۔ اس لیے بابر اعظم اور محمد رضوان میں سے کسی ایک کو مڈل آرڈر میں کھلانے سے کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
فی الحال مڈل آرڈر کی ساری ذمہ داری افتخار احمد کے کاندھوں پر ہے جنہیں کبھی نمبر پانچ اور کبھی نمبر چھ پر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔
اسکواڈ میں پہلی مرتبہ جگہ بنانے والے عرفان خان اور ویسٹ انڈیز میں کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے وکٹ کیپر بلے باز اعظم خان کو بھی مڈل آرڈر میں موقع دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان ٹیم کا سب سے مضبوط شعبہ اس کی فاسٹ بالنگ ہے جسے چار سال کے بعد محمد عامر ایک مرتبہ پھر لیڈ کریں گے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ ساتھ زمان خان اور فٹ ہوکر کم بیک کرنے والے نسیم شاہ شامل ہیں۔
محمد وسیم جونیئر کی بطور آل راؤنڈر کمی کو پورا کرنے کے لیے عماد وسیم اور شاداب خان کو موقع دیا سکتا ہے جب کہ اسپن ڈپارٹمنٹ میں ابرار احمد اور اسامہ میر میں سے ایک کو فائنل الیون میں جگہ مل سکے گی۔
پاکستانی اسکواڈ میں ایک دو نہیں بلکہ تین لیگ اسپنرز کی موجودگی بھی حیران کن ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب مخالف ٹیم میں کپتان مائیکل بریس ویل بلے باز مارک چیپمین اور آل راؤنڈر جمی نیشم جیسے بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کھلاڑی موجود ہیں۔
یاد رہے نیوزی لینڈ کی پاکستان میں موجود ٹیم میں کئی سینئر کھلاڑی موجود نہیں جن میں کین ولیمسن، ٹام لیتھم اور ٹم ساؤتھی قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں مائیکل بریس ویل نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کی قیادت کریں گے۔