اسپورٹس

کھلاڑیوں کے عمل سے جب عام سی پریس کانفرنس غیر معمولی ہو گئی

Written by Omair Alavi

کھیلوں کی دنیا میں میچ سے قبل یا بعد میں کھلاڑیوں کی پریس کانفرنس کرنا عام بات ہے لیکن بعض پریس کانفرنسوں کے دوران ایسا کچھ ہو جاتا ہے جس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔

کراچی — 

کھیلوں کی دنیا میں میچ سے قبل یا بعد میں کھلاڑیوں کی پریس کانفرنس کرنا عام بات ہے لیکن بعض پریس کانفرنسوں کے دوران ایسا کچھ ہو جاتا ہے جس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔

حال ہی میں اسٹار فٹ بالر کرسٹینا رونالڈو کی ‘یورو 2020’ کے میچ کے بعد پریس کانفرنس سے جنم لینے والے تنازع نے اس کھلاڑی کی پریس کانفرنس کو بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔

رونالڈو نے پیر کو ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران اپنے سامنے رکھی گئی دنیا کی نامور مشروب ‘کوکا کولا’ کی دو بوتلوں کو ہٹا دیا تھا اور اس کی جگہ پانی کی بوتل کو کیمروں کے سامنے لہراتے ہوئے تلقین کی تھی کہ مشروب کی جگہ پانی استعمال کریں۔

ابھی رونالڈو کے اقدام اور اس سے کمپنی کو پہنچنے والے نقصان کا معاملہ ہی زیرِ بحث تھا کہ فرانس کے مسلمان فٹ بالر پال پوگبا نے بیئر کی بوتل کو ٹیبل سے نیچے رکھ کر بحث کو مزید تقویت بخش دی۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب کسی کھلاڑی نے اپنی غیر متوقع حرکت سے پریس کانفرنس کو یادگار بنایا ہو۔

ماضی میں بھی کئی کھلاڑی ایسا کر چکے ہیں۔ جنہوں نے یا تو بہت زیادہ سچ بولا، کسی کو ڈانٹا یا پھر اپنے خلاف ہونے والی تنقید کا جواب دیا۔

تنقید کو تعمیر سے ہرانے والا مہندرا سنگھ دھونی

سابق بھارتی کرکٹ کپتان مہندرا سنگھ دھونی کا شمار ان چند کپتانوں میں ہوتا ہے جو میچ جیتنے یا ہارنے کے بعد بھی پوسٹ میچ کانفرنس میں مسکراتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔

ان کی مسکراہٹ کو کمزوری سمجھنے والے ایک آسٹریلوی صحافی کو اس وقت کھسیانا پڑا جب دھونی سے ریٹائرمنٹ کے ایک سوال کے جواب میں دھونی نے انہیں اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا اور ان سے ہی سوال جواب کرنے لگے۔

بھارتی اوپننگ بیٹسمین روہت شرما بھی اپنے سابق کپتان سے پیچھے نہیں رہے۔ ایک میچ کے بعد جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ وہ اپنے کپتان کو ان کی آنے والی سالگرہ پر کیسے مبارک باد دیں گے تو روہت شرما نے جواب میں کہا کہ ’ہیپی برتھ ڈے کہہ کر۔‘

سن 1996 میں کرکٹ ورلڈکپ کے دوران برصغیر میں ہونے والے ایونٹ میں انگلش ٹیم کی قیادت کرنے والے سابق کھلاڑی اور کرکٹ پر تبصرہ کرنے والے معروف انگلش کمنٹیٹر مائیکل ایتھرٹن نے کوارٹر فائنل میں شکست کے بعد پریس کانفرنس میں پاکستانی صحافی اصغر علی کے ایک سوال کے انداز پر ناگواری کا اظہار کیا تھا اور انہیں ‘بفون’ (ایک قسم کا بندر) کہہ کر مخاطب کیا تھا۔

پریس کانفرنس کے دوران صحافی کو ‘بفون’ کہنے کے بعد انگلش ٹیم کے مینیجر کو صحافی سے معافی مانگنا پڑی تھی۔

لیکن اس واقعے کے کئی برس گزرنے کے بعد بھی پاکستانی صحافی اصغر علی کا سوال کرنے کا انداز نہ بدلا۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان راولپنڈی میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کی پوسٹ میچ کانفرنس میں پہلے صحافی اصغر علی نے سری لنکن کھلاڑی نروشن ڈک ویلا کو دھنن جایا ڈی سلوا سمجھا اور پھر آؤٹ ہونے والے ڈک ویلا سے پوچھا کہ وہ سینچری کب مکمل کریں گے۔

اسپورٹس کی دنیا میں چند کھلاڑی ایسے بھی ہیں جنہیں ‘پوسٹ میچ کانفرنس’ سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی شاید شکست سے۔ ان کے خیال میں میچ ہارنے کے بعد پریس کانفرنس میں لازمی شرکت کرنا وقت کا ضیاع اور وہاں ہونے والے سوالات مذاق ہیں۔

حال ہی میں فرینچ اوپن ٹینس ٹورنامنٹ کی انتظامیہ نے جاپانی ٹینس اسٹار نومی اوساکا پر اس وقت 15 ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کر دیا تھا جب انہوں نے پریس کانفرنس میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔

جرمانے کے بعد بھی انہوں نے اپنا ارادہ نہ بدلا اور گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ سے دست برداری کو بہتر راستہ سمجھا۔

نومی اوساکا کا مؤقف تھا کہ وہ میڈیا کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار تھیں اور کچھ وقت ٹینس کورٹ سے دور رہنا چاہتی ہیں اور اسی لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔

نہ صرف ٹینس کھلاڑیوں نے ناؤمی اوساکا کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا بلکہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے فرینچ اوپن انتظامیہ کو ان کے فیصلے پر آڑھے ہاتھوں لیا۔

یہاں تک کہ مینٹل ہیلتھ ایپلی کیشن ‘کام’ نے ناؤمی اوساکا سمیت ہر اس کھلاڑی کا جرمانہ بھرنے کی بھی پیشکش کی جو دباؤ کی وجہ سے پریس کانفرنس میں شرکت اور زبردستی میڈیا کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔

امریکی فٹ بال میں سیاٹل سی ہاکس کی نمائندگی کرنے والے مارشو نلنچ نے سپر بول میڈیا ڈے پر پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ بار بار دہراتے رہے کہ وہ وہاں صرف جرمانے سے بچنے کے لیے آئے ہیں۔

امریکہ میں میجر لیگ بیس بال کو وہی مقام حاصل ہے جو شاید بھارت میں انڈین پریمئیر لیگ کو ہے۔

سن 1993 میں ایک میچ میں شکست کے بعد جب پریس کانفرنس کے دوران مک رے سوالات کے جواب دینے آئے تو انہیں کسی سوال پر اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے نہ صرف مائیک پھینکے بلکہ وہاں موجود افراد کو بھی سوال کرنے پر سنا دی۔

سن 1997 میں مخالف باکسر ایوینڈر ہولی فیلڈ کا کان کانٹنے والے مائیک ٹائی سن کو پانچ سال بعد لینکس لیوس کے خلاف ایک باؤٹ کا موقع ملا لیکن میچ سے قبل ہونے والی پریس کانفرنس میں مائیک ٹائی سن اپنے پرانے روپ میں نظر آئے اور مخالف باکسر کے سامنے آتے ہی آپے سے باہر ہو گئے۔

بعد میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹائی سن نے کہا کہ اس دن انہوں نے لینکس لیوس کے پاؤں پر کاٹ لیا تھا لیکن کسی نے اس بات کو اہمیت نہیں دی کیوں کہ وینیو اور تاریخ بدلنے کے بعد جب دونوں کا سامنا باکسنگ رنگ میں ہوا تو لینکس لیوس نے آٹھویں راؤنڈ میں ٹائی سن کو ناک آؤٹ کر دیا تھا۔

علاوہ ازیں امریکی باسکٹ بال کھلاڑی اسٹیفن کری نے ایک عام سی پریس کانفرنس کو اس وقت بریکنگ نیوز بنا دیا تھا جب پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی شامل ہو گئی تھی۔

دو برس کی رائلی کری نے نہ صرف باپ کی گود میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کی بلکہ متعدد بار انہیں بات کرنے سے روکا اور آخر میں ٹیبل کے نیچے جا کر چھپ گئیں۔

چند صحافیوں کو اسٹیفن کری کی یہ حرکت نا گوار گزری لیکن وہ اگلی پریس کانفرنس میں بھی بیٹی کو ساتھ لے آئے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔