کراچی —
پاکستان اور زمبابوے کی ٹیمیں دو میچز کی ٹیسٹ سیریز میں جمعرات سے آمنے سامنے ہوں گی۔ ایک طرف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں فتح سمیٹنے والی پاکستان ٹیم ہے تو دوسری طرف شارٹ فارمیٹ میں گرین شرٹس کا سخت مقابلہ کرنے والی میزبان ٹیم ہے۔
دونوں ٹیمیں ٹیسٹ سیریز میں کامیابی سمیٹ کر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے پُر امید ہیں۔
پاکستان ٹیم تجربہ کار لیگ اسپنر یاسر شاہ کے بغیر میدان میں اترے گی کیوں کہ وہ انجری کی وجہ سے اسکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔
یاسر شاہ کی غیر موجودگی میں پاکستان ٹیم جس بالنگ اٹیک کے ساتھ میچ میں جائے گی، ان میں سے کسی بھی بالر نے ٹیسٹ کرکٹ میں اب تک 50 وکٹیں حاصل نہیں کیں۔
اس وقت آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان کا نمبر پانچواں جب کہ زمبابوے کا دسواں ہے۔ زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں دو صفر سے کامیابی پاکستان کی پانچویں پوزیشن پر گرفت مضبوط کر دے گی۔
اگر زمبابوے نے دو صفر سے کامیابی حاصل کی تو وہ نویں پوزیشن پر موجود بنگلہ دیش کے قریب پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک ایک سے سیریز برابر ہونے یا ایک صفر سے جیتنے کی صورت میں پاکستان ٹیم پانچویں سے چھٹی پوزیشن پر آ سکتی ہے۔
پاکستان کی نظریں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے بعد اب ٹیسٹ سیریز پر!
پاکستان کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دو ایک سے تو کامیابی حاصل کی تھی لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں زمبابوے ٹیم مشکل حریف ثابت ہو سکتی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان 2013 میں کھیلی گئی آخری ٹیسٹ سیریز ڈرا ہوئی تھی جس میں دونوں ٹیموں نے ایک ایک میچ میں کامیابی حاصل کی تھی۔
سن 2013 میں کھیلی گئی سیریز میں پاکستان ٹیم کی قیادت مصباح الحق نے کی تھی جب کہ سیریز میں بلے باز یونس خان نے ڈبل سینچری اسکور کی تھی۔
اب آٹھ سال بعد مصباح الحق ٹیم کے ہیڈ کوچ اور یونس خان بیٹنگ کوچ ہیں۔ دونوں سابق کھلاڑیوں کی کوشش ہو گی کہ زمبابوے میں کامیابی حاصل کر کے اس شکست کو بھلایا جا سکے۔
پاکستان ٹیم کی بیٹنگ کا دار و مدار کپتان بابر اعظم پر ہو گا، جنہوں نے اب تک ٹیسٹ کے علاوہ ہر فارمیٹ میں بحیثیت کپتان سینچری اسکور کی ہے۔
اگر بابر اعظم ٹیسٹ سیریز میں بھی 100 کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ تینوں فارمیٹ میں سینچریاں اسکور کرنے والے پہلے پاکستانی کپتان بن جائیں گے۔
بابر اعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج پاکستان ٹیم کا اوپننگ کمبی نیشن ہوگا، جس طرح ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان ٹیم کا مڈل آرڈر ناکام رہا۔ ویسے ہی ٹیسٹ میں اوپنرز عابد علی اور عمران بٹ کی مسلسل ناکامی بھی مینجمنٹ کے لیے دردِ سر ہے۔
اسی لیے کپتان بابر اعظم کے بعد اگر کسی بلے باز سے اچھی بیٹنگ کی توقع ہے تو وہ ہیں سابق کپتان اظہر علی، فواد عالم، محمد رضوان اور فہیم اشرف جن کے پاس رنز اسکور کرنے کا ٹمپرامنٹ بھی ہے اور انہوں نے حالیہ عرصے میں رنز بھی اسکور کیے ہیں۔
کیا پاکستان ٹیسٹ ٹیم کا بالنگ اٹیک ناتجربہ کار ہے؟
پاکستان ٹیم کا اصل امتحان بالنگ کے شعبے میں ہو گا جہاں ٹیم کافی عرصے بعد کسی ٹیسٹ سیریز میں لیگ اسپنر یاسر شاہ کے بغیر میدان میں اترے گی۔
یاسر شاہ موجودہ عرصے میں پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ بالر رہے ہیں جب کہ آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف سینچری بھی اسکور کر چکے ہیں۔
پینتیس سالہ لیگ اسپنر نے اپنے کریئر کے دوران 45 میچز میں 235 وکٹیں حاصل کی ہیں جو اس وقت پاکستان ٹیم میں شامل تمام بالرز کی وکٹوں کی مجموعی تعداد سے تقریباً دو گنا زیادہ ہیں۔
ان کی غیر موجودگی میں بالنگ میں زیادہ تر ذمہ داری شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کے کاندھوں پر ہو گی، جو بالترتیب 15 میچز میں 48 اور 11 میچز میں 43 وکٹوں کے ساتھ تجربہ کار بالرز ہیں۔
دوسری جانب فہیم اشرف ٹیم کے تیسرے پیسر کا کردار ادا کرسکتے ہیں جب کہ نعمان علی کو اسپیشلسٹ اسپنر کے طور پر ٹیم میں شامل کیا جانے کا امکان ہے۔
امکان ہے کہ یاسر شاہ کی غیر موجودگی میں 33 سالہ زاہد محمود کو ٹیسٹ کیپ مل جائے اور وہ انجری کے باعث ٹیم کو دستیاب نہ ہونے والے لیگ اسپنر کا اچھا متبادل ثابت ہو سکیں۔
اسکواڈ میں شامل دیگر کھلاڑیوں میں سابق کپتان سرفراز احمد، عبداللہ شفیق، آغا سلمان، حارث رؤف، محمد نواز، ساجد خان، سعود شکیل، شاہنواز داہانی اور تابش خان میں سے اگر کسی کو بھی ٹیسٹ سیریز میں موقع مل گیا تو وہ اپنی جگہ پکی کرنے اور ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔
میزبان ٹیم بھی ٹیسٹ سیریز کے لیے پوری طرح تیار ہے!
شان ولیمز کی قیادت میں زمبابوین ٹیم بھی سیریز میں اچھا کھیل پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے خلاف سیریز برابر کرنے والی ٹیم میں چند تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
پاکستانی نژاد سکندر رضا اور رائن برل سمیت پانچ کھلاڑی اسکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔ آل راؤنڈر سکندر رضا انجری کے باعث اسکواڈ سے باہر ہیں جب کہ دیگر کھلاڑیوں کو ان کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا ہے۔
البتہ پانچ ایسے کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے اس سے قبل زمبابوے کی نمائندگی نہیں کی۔ ان کھلاڑیوں میں ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شاندار کارکردگی دکھانے والے لیوک جونگوے بھی شامل ہیں۔
سینئر بیٹسمین کریگ ایروین انجری کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں تاہم برینڈن ٹیلر کی واپسی سے میزبان ٹیم کا بیٹنگ آرڈر مضبوط ہوگا۔
ہرارے میں جہاں پاکستان ٹیم جمعرات کو زمبابوے کے مدِمقابل ہوگی وہیں دونوں ٹیموں کے درمیان یہ ساتواں میچ ہو گا۔
اس سے قبل کھیلے گئے چھ میچز میں پاکستان نے چار میچز جیتے جب کہ دو میں میزبان ٹیم کو کامیابی حاصل ہوئی۔
اسی مقام پر 2013 میں کھیلا گیا آخری میچ زمبابوے نے 24 رنز سے جیتا تھا جس کے کپتان برینڈن ٹیلر آج بھی بحیثیت کھلاڑی زمبابوین ٹیم کا حصہ ہیں۔
زمبابوے میں پاکستان کی کارکردگی پر ایک نظر
زمبابوے اور پاکستان کے درمیان اب تک 17 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے جن میں سے پاکستان نے 10 جب کہ زمبابوے نے تین میں کامیابی حاصل کی اور چار میچز ڈرا ہوئے۔
زمبابوے کی سرزمین پر دس میچز کھیلے گئے جس میں پاکستان نے سات اور میزبان ٹیم نے دو میچز جیتے البتہ ایک میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ہی ختم ہو گیا۔
دونوں ممالک کے درمیان زمبابوے میں پانچ سیریز کھیلی گئیں جن میں سے پاکستان نے چار میں کامیابی حاصل کی جب کہ ایک سیریز ڈرا ہوئی۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ ٹیسٹ سیریز کے لیے زمبابوے کا دورہ 1995 میں سلیم ملک کی قیادت میں کیا تھا جس میں میزبان ٹیم نے پہلا میچ جیت کر اپ سیٹ تو کیا تھا لیکن پاکستان نے باقی دو میچز جیت کر سیریز اپنے نام کر لی تھی۔
تین برس بعد دونوں ممالک کے درمیان زمبابوے میں دو میچز کی سیریز ہوئی، جس میں راشد لطیف کی قیادت میں مہمان ٹیم نے ایک صفر سے کامیابی حاصل کی تھی۔
سن 2002 میں ہونے والی سیریز میں وقار یونس کی قیادت میں پاکستان نے زمبابوے کو دو صفر سے وائٹ واش کیا تھا جب کہ 2011 میں دونوں ٹیموں کے درمیان واحد ٹیسٹ بھی مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستان کے نام رہا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان زمبابوے میں ہونے والی آخری سیریز میں پاکستان اور زمبابوے نے ایک ایک میچ میں کامیابی حاصل کی تھی۔
سن 2013 میں ہونے والی سیریز کا پہلا میچ پاکستان نے 221 رنز سے اپنے نام کیا تھا جب کہ دوسرا میچ زمبابوے نے 24 رنز سے جیتا تھا۔
زمبابوین ٹیم نے پاکستان کو اپنی سرزمین پر دو ٹیسٹ میں شکست دی
پاکستان کے خلاف زمبابوے کا ریکارڈ دوسروں کی نسبت بہتر ہے۔ زمبابوے کی ٹیسٹ ٹیم نے پاکستان کے خلاف اپنی تاریخ کی تین بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور جس گراؤنڈ پر دونوں ٹیمیں مدِمقابل ہونے والی ہیں، میزبان ٹیم کی تین میں سے دو کامیابی اسی گراؤنڈ پر ہیں۔
زمبابوے نے ملک سے باہر پاکستان کے خلاف واحد کامیابی 1998 میں پشاور کے مقام پر حاصل کی۔ اس وقت ان کی ٹیم میں نیل جانسن، مرے گوڈوین اور فلاور برادران جیسے کھلاڑی موجود تھے۔
پاک زمبابوے سیریز کے کامیاب ترین کھلاڑی کون ہیں؟
پاکستان اور زمبابوے نے اگرچہ ایک دوسرے کے خلاف زیادہ ٹیسٹ میچز نہیں کھیلے لیکن دونوں ٹیموں کے جتنے بھی میچز ہوئے وہ یاد گار رہے۔
سن 1996 میں شیخوپورہ کے مقام پر اسکور کیے ہوئے وسیم اکرم کے ناقابل شکست 257 رنز آج بھی دونوں ٹیموں کے درمیان دوطرفہ سیریز کا سب سے بڑا اسکور ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سیریز میں دو مزید ڈبل سنچریاں اسکور ہوئیں جن میں 1995 میں ہرارے کے مقام پر گرانٹ فلاور کے ناقابل شکست 201 رنز اور 2013 میں یونس خان کے 200 رنز شامل ہیں۔
پاکستان اور زمبابوے کی سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز سابق زمبابوین بیٹسمین اور پاکستان ٹیم کے سابق بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کو حاصل ہے۔ انہوں نے 14 میچز میں پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ 961 بنائے جب کہ ان کے بڑے بھائی اینڈی فلاور نے اتنے ہی میچز میں پاکستان کے خلاف 931 رنز بنائے۔
پاکستان کی جانب سے سابق کپتان انضمام الحق نے زمبابوے کے خلاف سب سے زیادہ رنز اسکور کیے ہیں اور انہوں نے 11 میچز میں 772 رنز بنائے ہیں۔
اس کے علاوہ محمد یوسف نے صرف چھ میچز میں 616 اسکور کیے ہیں۔
گرانٹ فلاور تین سنچریوں کے ساتھ سنچریوں کی فہرست میں بھی سب سے آگے ہیں جب کہ اینڈی فلاور، انضمام الحق اور محمد یوسف دو دو سنچریوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
اگر بالنگ کی بات کی جائے تو پاکستان کی جانب سے وقار یونس 11 میچز میں 62 وکٹوں کے ساتھ سرِفہرست ہیں جب کہ وسیم اکرم 10 میچز میں 47 اور زمبابوے کے ہیتھ اسٹریک 44 وکٹوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
سن 1993 میں وقار یونس کی جانب سے کراچی میں لی گئیں 13 وکٹیں کسی بھی بالر کی بہترین کارکردگی ہے۔
ان کے بعد 1996 میں وسیم اکرم، 2002 میں ثقلین مشتاق اور 2013 میں سعید اجمل بھی میچ میں دس یا اس سے زائد کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تاہم زمبابوے کی جانب سے پاکستان کے خلاف کوئی بھی بالر میچ میں دس وکٹوں کا کارنامہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔