جائزے خبریں فلمی جائزے

ککڑی: ‘سینسر کی چھری سے گزری فلم قصائی کی چھری سے گزرے بکرے جیسے ہوتی ہے’

Written by ceditor

کراچی — پاکستان کے ہدایت کار و مصنف ابو علیحہ کی ایوارڈ یافتہ فلم ‘جاوید اقبال، دی ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر’ کو بالآخر نام بدل کر پاکستان بھر کے سنیما گھروں میں دو جون سے ریلیز کردیا گیا ہے۔ فلم کا نیا نام اب ‘ککڑی’ ہے جو جاوید اقبال کی عرفیت بھی تھی۔

اس فلم کو گزشتہ برس 28 جنوری کو ریلیز ہونا تھا لیکن کراچی میں فلم کےپریمیئرکے بعد ہی حکومتِ پنجاب نے اس کی ریلیز روکنے کے احکامات جاری کیےتھے۔ اس وقت فلم کی ریلیز روکنے سے متعلق نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اس کے خلاف بعض شکایات موصول ہوئی تھیں ، حالاں کہ فلم کو عوام نے دیکھا ہی نہیں تھا۔

اب فلم کو دو جون سے ملک بھر کے سنیما گھروں میں نئے نام ‘ککڑی’ سے پیش کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس فلم پر سینسنر بورڈ کی چھری بھی بے دردی سے چلائی گئی ہے جس کا نتیجہ صاف نظر آتا ہے۔

فلم کی کہانی جاوید اقبال نامی ایک ایسے سیریل کلر کے گرد گھومتی ہے جس نے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں 1999 میں ایک سو بچوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں تیزاب میں ڈالنے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاکستان میں فلم کی ریلیز رک جانے کے بعد پروڈیوسرز نے اسے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھیجا تھا جہاں 11 میں سے سات فیسٹیول میں اس نے ایوارڈز جیتے تھے۔

فلم میں جاوید اقبال کا مرکزی کردار ادا کرنے والے یاسر حسین کو ‘ایشین فلم فیسٹیول ‘میں بہترین اداکار اور ابو علیحہ کو بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ بھی ملا تھا جو ایک انڈی پنڈنٹ فلم کے لیے بڑی کامیابی ہے۔

جاوید اقبال پر بننے والی فلم کو ریلیز ہونے سے کیوں روکا گیا؟ اس کی وجوہات آج تک سامنے نہیں آئیں لیکن فلم میں پولیس کا کردار ثانوی دکھانا اور بعض جگہ جاوید اقبال کو ان سے زیادہ عقل مند دکھانا اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے، لیکن بات جو بھی ہو، فلم کی ایک سال بعد تاخیر سے ریلیز خوش آئند ہے۔

اس ریلیز کے لیے فلم کو سخت سینسر سے گزرنا پڑا۔ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار یاسر حسین کے بقول، سینسر کی چھری کے نیچے سے گزری ہوئی فلم کی وہی حالت ہوتی ہے جو قصائی کی چھری کے نیچے سے گزرنے والے بکرے کی ہوتی ہے۔

فلم کا سینسر نے جو حال کیا اس کی وجہ سے اس کی کہانی بے ربط ضرور لگتی ہے لیکن یاسر حسین کی جاندار اداکاری ناظرین کو زیادہ سوچنے نہیں دیتی۔ یاسر نہ صرف جاوید اقبال کے کردار پر فٹ بیٹھے ہیں بلکہ انہوں نے حلیہ بھی ویسا ہی بنایا جیسا جاوید اقبال کی تصاویر یا ویڈیو میں نظر آتا ہے۔

‘ککڑی’ لو بجٹ فلم ضرور ہے، لیکن وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یاسر حسین کا کہنا تھا کہ اس کا اسکرپٹ ہائی ہے اور کہیں بھی ‘لو ‘ ہونے کا تاثر نہیں دیتا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نام بدلنے کے بعد انہوں نے فلم تو نہیں دیکھی لیکن وہ پرامید ہیں کہ فلم بینوں کو اس قسم کا کانٹینٹ پسند آئے گا۔

وہ فلم کے ہر سین میں اپنی تھیٹر کی ٹریننگ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ سین میں تو انہیں دیکھ کر وحشت بھی ہورہی تھی بالخصوص وہ سین جس میں وہ کسی دوسرے کردار کے سامنے اپنا مؤقف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

معروف ٹی وی شو ‘بلبلے ‘ سے شہرت پانے والی اداکارہ عائشہ عمر نے اس فلم میں ایک پولیس افسر کا کردار ادا کیا ہےجس کا جاوید اقبال سے حوالات کے پیچھے ٹاکرا ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کردار کو بخوبی نبھا کر اپنے اوپر لگی ‘خوبصورت’ کی چھاپ مٹانے کی کوشش کی ہے۔

ان کے ساتھ ساتھ اداکار پارس مسرور اور اداکارہ رابعہ کلثوم بھی چھوٹے مگر مضبوط کرداروں میں نظر آئے۔ پارس نے ایک روایتی پولیس والے کا کردار ادا کیا جب کہ رابعہ کلثوم ایک ایسے گمشدہ بچے کی والدہ کے روپ میں نظر آئیں جو جاید اقبال سے اس کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی ہے۔

بہتر یہی ہوتا اگر ملک کے تینوں سینسر بورڈ اس فلم کو ‘صرف بالغان کے لیے ‘کی ریٹنگ دے کر اٹھارہ سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے مخصوص کردیتے لیکن انہوں نے بے دردی سے اس کو ایڈیٹ کرنے کو ترجیح دی، جس کے اثرات پوری فلم میں نظر آتے ہیں۔

خاص طور پر وہ سین جس میں پولیس اہلکار پہلی مرتبہ جاوید اقبال کے گھر پر جاکر ہلاک ہونے والے بچوں کے کپڑے اور جوتے دیکھ کر گھبراتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ بے ضرر دکھنے والا شخص ایک سفاک قاتل ہے۔

چوں کہ جاوید اقبال کی کہانی میں نوے کی دہائی کا آخر دکھایا گیا ہے اس لیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال کم اور اس زمانے کے پوسٹرز کا استعمال زیادہ دکھایا گیا ہے۔ تاہم 2002 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘اسپائیڈر مین’ کا ایک ڈائیلاگ یہاں استعمال کرکے مصنف و ہدایت کار نے غلطی کی، کیوں کہ سپر ہیرو فلم تو ریلیز ہی اصلی جاوید اقبال کی موت کے بعد ہوئی تھی۔

کیا ‘ککڑی’ میں دکھائے جانے والے واقعات حقیقت سے قریب ہیں؟

فلم کی اصطلاح میں "بائیو پک” اس فلم کو کہا جاتا ہے جس میں کسی ایک اصل کردار کی زندگی کو حقیقی انداز میں پیش کیا جائے لیکن پاکستان میں اس قسم کی فلمیں بہت کم بنتی ہیں۔ اسی لیے جاوید اقبال پر بننے والی اس فلم میں مصنف و ہدایت کار نے جس تخلیقی آزادی کا مظاہرہ کیا وہ اسے حقیقت سے دور لے جاتی ہے۔

فلم میں جاوید اقبال کی مکمل کہانی نہیں بیان کی گئی، صرف وہ وقت دکھایا گیا جو اس نے پولیس کی حراست میں گزارا۔ نہ تو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اس نے سو بچوں کا قتل کیوں کیا اور نہ ہی دکھایا گیا کہ کس طرح اس کی والدہ کے انتقال نے اس کی زندگی تبدیل کی۔

پولیس کا کردار بھی اس فلم میں کافی کمزور دکھایا گیا ہے جب کہ اصل میں جاوید اقبال کو ایک نہیں، دو مرتبہ پکڑا گیا تھا اور دوسری بار اس کو پکڑنے کے لیے پولیس نے کافی کوششیں کی تھیں۔کیوں اس نے 1999 کی آخری رات کو اپنی گرفتاری کیوں دی، کیسے وہ پولیس کے چنگل سے مسلسل بچتا رہا اور کس طرح اس کی موت واقع ہوئی، ان سب سوالات کے جوابات یہ فلم دینے سے قاصر رہی۔

یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ جاوید اقبال کی کہانی میں اور بھی بہت کچھ ہے جو دکھایا جاسکتا تھا، اور شاید اسی لیے فلم کے آخر میں ‘جاری ہے’ کی سلائیڈ دکھائی گئی۔

‘ پیغام دیا گیا کہ سدھار لانے والی کوئی فلم نہ بنائی جائے’

فلم کے ہدایت کار ابو علیحہ سینسر بورڈ کی جانب سے فلم میں کٹ لگانے پر خوش نہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے کانٹینٹ کی ریلیز میں مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں تاکہ اگلی بار ڈسٹری بیوٹر، پروڈیوسر اور فلم میکر ایسی فلم بنانے سے توبہ کرلے۔

ان کے بقول، "میں نے ‘ککڑی’لوگوں کو کچھ سمجھانے کے لیےبنائی ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک بظاہر عام سا شخص دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔”

ابو علیحہ نے کہا کہ پاکستان میں انڈی پنڈنٹ فلم میکر کو وہ مراعات نہیں دی جاتیں جو دوسرے ممالک میں ملتی ہیں، یہاں شاید بلواسطہ یا بلاواسطہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی بھی ایسی فلم جس سے آپ معاشرے میں سدھار لانا چاہتے ہیں، یا کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں ، وہ نہ بنائیں۔ صرف برین لیس کامیڈی ، کسی بھارتی فلم کا چربہ یا کوئی بی گریڈ رومانٹیک کامیڈی بنائیں کیوں کہ انہیں فورا ریلیز کردیا جاتا ہے۔’

انہوں نے انکشاف کیا کہ جمعے کو ریلیز ہونے والی ان کی فلم کو جمعرات کی دوپہر تک پنجاب سے سینسر سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا تھا، ایک ہفتہ قبل پری ویو ہونے کے باوجود اسے سندھ سینسر کی منظوری سے مشروط کیا گیا تھا۔

ان کے بقول فلم میں جہاں جہاں آڈیئنس کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے، کچھ سمجھانا چاہا ہے، کچھ بتانا چاہا ہے وہ سب کاٹ دیا گیا ہے۔

فلم ہدایت کار نے اعتراف کیا کہ فلم میں کچھ جگہوں پر کردار مجبوری کے تحت گالی دیتا ہے جس پر انہوں نے ‘بیپ’ لگا دیا تھا، لیکن سینسر نے وہ سب کاٹ دیا۔ ہدایت کار سندھ سینسر بوڑ سے بھی نالاں تھے جنہوں نے فلم سے وہ تمام سین ہٹا دیے جس میں دو کرداروں کو بحث کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

دیر سے سینسر سرٹیفکیٹ ملنے کی وجہ سے پہلے دن ‘ککڑی’ کے شوز کی تعداد کم تھی، لیکن ابو علیحہ پر امید ہیں کہ ہفتے سے فلم کو اتنے شوز ملیں گے ، جتنے کی انہیں امید تھی۔

عمیر علوی – وائس آف امریکہ

About the author

ceditor