اسپورٹس

کیا بابر اعظم کی قیادت میں گرین شرٹس کیویز کے خلاف تاریخ دہرا پائیں گے؟

Written by Omair Alavi

کراچی —  پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور پانچ ون ڈے انٹرنیشنل پر مشتمل سیریز کا آغاز جمعے سے لاہور میں ہوگا۔ یہ سیریز دو برس قبل نامکمل رہ جانے والی سیریز کے متبادل کے طور پر کھیلی جا رہی ہے جس کے پہلے میچ سے قبل ہی کیوی اسکواڈ نے سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر وطن واپس جانے کو ترجیح دی تھی۔

موجودہ دورے کا آغاز دونوں ٹیمیں پانچ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے کریں گی جس میں سے پہلے تین میچز 14، 15 اور 17 اپریل کو لاہور میں ہوں گے جب کہ باقی دو میچز 20 اور 24 اپریل کو راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔

ون ڈے سیریز کے پہلے دو میچز کا انعقاد بھی 27 اور 29 اپریل کو پنڈی میں ہوگا جس کے بعد دورے کے آخری تین ون ڈے میچ کراچی میں مئی کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔

سیریز کی خاص بات پاکستان کرکٹ ٹیم میں کپتان بابر اعظم کی واپسی ہے جنہیں محمد رضوان ، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور فخر زمان کے ہمراہ افغانستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں آرام کی غرض سے منتخب نہیں کیا گیا تھا۔

شاہین شاہ آفریدی جنہوں نے حال ہی میں پاکستان سپر لیگ میں اپنی فرانچائز ٹیم لاہور قلندرز کو مسلسل دوسرے سال پی ایس ایل کا فاتح بنایا تھا، ان کی قومی ٹیم میں چار ماہ بعد واپسی ہوگی۔ وہ نومبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں انجرڈ ہوجانے کی وجہ سے باہر ہوگئے تھے جس کے بعد سے انہوں نے قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کی۔


نیوزی لینڈ کی اس وائٹ بال سیریز میں قیادت کین ولیمسن کی جگہ ٹام لیتھم کریں گے۔ کین ولیمسن پہلے
انڈین پریمیئر لیگ اور پھر انجری کی وجہ سے اس دورے سے باہر ہوئے تھے اور اب امکان ہے کہ وہ رواں سال ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال کے آغاز تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے فرائض انجام دینے والے ثقلین مشتاق اس سیریز میں مخالف کیمپ کا حصہ ہوں گے۔ وہ نیوزی لینڈ کے کوچنگ اسٹاف کا حصہ ہوں گے جہاں وہ پاکستانی کنڈیشنز اور کھلاڑیوں سے ہم آہنگ کرنے میں کھلاڑیوں کی مدد کریں گے۔

کیا تاریخ خود کو ایک مرتبہ پھر دہرانے جارہی ہے؟

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والی ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے قبل دونوں ٹیموں نے پاکستانی سرزمین پر کوئی ٹی ٹوئنٹی سیریز نہیں کھیلی۔ جب کہ پاکستان میں آخری مرتبہ پانچ ون ڈے میچز پر مشتمل سیریز کھیلے انہیں 20 برس ہونے کو ہیں۔

سن 2003 میں بھی جب کیوی ٹیم نے کرس کیئرنز کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا تھا تو حالات کچھ زیادہ مختلف نہ تھے۔ اس وقت بھی نیوزی لینڈ کی ٹیم نے 2002 میں نامکمل دورہ چھوڑنے کی وجہ سے سیریز کھیلنے پر آمادگی ظاہر کی تھی اور آج بھی معاملات ویسے ہی ہیں۔

فرق صرف اتنا تھا کہ 2002 میں کیوی ٹیم اس دھماکے کے بعد وطن واپس چلی گئی تھی جو ان کے ہوٹل کے باہر ہوا تھا جب کہ 2021 میں کیوی ٹیم کو غلط رپورٹ کی وجہ سے دورہ ترک کرکے واپس جانا پڑا تھا۔

کیا 2003 کی طرح پاکستان اس سیریز میں بھی پانچ صفر سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ اس کا فیصلہ جمعے کو ہو گا۔

اب تک دونوں ٹیمیں 29 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں آمنے سامنے آ چکی ہیں جس میں پاکستان نے 18 میچز میں کامیابی حاصل کی ہے جب کہ نیوزی لینڈ نے 11 میچز جیتے۔ گزشتہ پانچ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں گرین شرٹس نے چار میں فتح حاصل کی تھی جب کہ نیوزی لینڈ نے صرف ایک میچ جیتا تھا۔

کیا پاکستانی کھلاڑی کیوی ٹیم کو ہرا سکیں گے؟

گزشتہ ماہ افغانستان سے ٹی ٹوئنٹی سیریز ہارنے والی پاکستان ٹیم میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن سے امکان ہے کہ قومی ٹیم کو فائدہ ہوگا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کی جوڑی نہ صرف ایک مرتبہ پھر اننگز کا آغاز کرتے نظر آئے گی بلکہ پہلی مرتبہ صائم ایوب اور محمد حارث جیسے نوجوان کھلاڑی بھی ان دونوں کے ہمراہ بیٹنگ لائن اپ کا حصہ ہوں گے۔

بالنگ میں بھی شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کی واپسی سے اٹیک مضبوط ہوگا جس میں زمان خان، احسان اللہ اور عماد وسیم کی موجودگی مخالف ٹیم کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں۔ اگر پاکستان نے یہ سیریز پانچ صفر سے جیت لی تو یہ آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں دوسری پوزیشن حاصل کر لے گی۔

دوسری جانب کیوی اسکواڈ میں ڈومیسٹک سرکٹ میں اچھی پرفارمنس دکھانے پر چیڈ بووز اور ہنری شپلی کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جب کہ آل راؤنڈر جمی نیشم کی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے۔ نیشم نے حال ہی میں ختم ہونے والی پی ایس ایل 8 میں پشاور زلمی کی نمائندگی کی تھی۔

Omair Alavi – Voice of America

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔