اسپورٹس

کپتان معین علی انگلینڈ کی ٹیم کا حصہ کیسے بنے؟

Written by Omair Alavi

کراچی — 

پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی انگلش کرکٹ ٹیم کے کپتان وکٹ کیپر جوس بٹلر ضرور ہوں گے لیکن پہلے چار میچوں میں مہمان ٹیم کی قیادت آل راؤنڈر معین علی نے کی ہے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں اگرچہ ان کی ٹیم کو شکست ہوئی تاہم اپنی دھواں دار بیٹنگ سے انہوں نے شائقین کے دل جیت لیے۔

پاکستانی نژاد معین علی دکھنے میں تو پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ مختلف نہیں لگتے لیکن انگلینڈ میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کی وجہ سے بہت مختلف ہیں۔ وہ اپنے کیریئر کے دوران ہی اپنی سوانح حیات ‘معین’ لکھ چکے ہیں، جس میں انہو ں نے ان واقعات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے وہ جلد انٹرنیشنل کرکٹ شروع نہ کرسکے۔

ان کی کتاب ان کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر ہے وہیں وہ ایک ایسا واقعہ بیان کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پوری انگلش ٹیم کو معین علی نے مشکل میں ڈال دیا تھا۔

معین علی کے بقول 2005 میں ہونے والی ایشز سیریز سے قبل اسپین کے شہر اندلس میں انگلش ٹیم ایک ڈیزرٹ کیمپ میں ٹریننگ کر رہی تھی۔ جہاں کھلاڑی پریکٹس کے بعد ایک دوسرے کے بارے میں کوئز کھیل رہے تھے، جس سے ‘ٹیم بونڈنگ’ کا امکان تھا۔

کوئز کے فارمیٹ کے مطابق ہر کھلاڑی اپنا نام ظاہر کیے بغیر اپنے بارے میں ایک سوال لکھ کر کوئز ماسٹر کو دیتا تھا، جسے وہ پڑھ کر پوری ٹیم کو سناتا تھا اور دوسرے کھلاڑیوں کو اس سوال کے پیچھے کھلاڑ ی کا نام بتانا ہوتا تھا۔

معین علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ‘میری دادی کا نام بیٹی کوکس ہے، بوجھو میں کون ہوں’ کا سوال سامنے آیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سوال بظاہر پاکستانی یا انڈین نظر آنے والے معین علی نے پوچھا ہوگا اور جب انہوں نے جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ کھڑا کیا تو کمرے میں موجود کسی بھی شخص کو یقین نہیں آیا۔

بیٹی کوکس کون تھیں اور معین علی کی دادی کیسے؟

معین علی کے مطابق ان کے دادا شفاعت علی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد بیٹی کوکس نامی انگریز سے شادی کی تھی۔

ان کے مطابق بیٹی کے پہلے شوہر جو ایک پائلٹ تھے ان کی موت دوران جنگ واقع ہوئی تھی اور معین کے دادا جو میرپور آزاد کشمیر سے روزگار کی تلاش میں انگلینڈ گئے تھے، انہوں نے شادی کے بعد بیٹی کوکس کے دونوں بچوں این اور بریٹ کو اپنالیا تھا اور یوں معین علی کے سوتیلے چچا اور پھوپی دونوں انگریز ہیں۔

بیٹی کوکس کے بارے میں لکھتے ہوئے معین نے کہا کہ ان کی دادی نے کچھ وقت اپنی سسرال یعنی میرپور میں بھی گزارا لیکن پھر واپس انگلینڈ چلی گئیں۔ تاہم معین کے والد دو سے10 سال کی عمر تک پاکستان میں اپنے والد کے ساتھ ہی رہے۔

جب معین کے والد 14 سال کے تھے تو ان کے والدین یعنی بیٹی اور شفاعت میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ شادی کے وقت اسلام قبول کرنے والی بیٹی کوکس علیحدگی کے بعد دوبارہ کرسچن ہو گئیں لیکن معین کے والد منیر کی شادی سے لے کر اپنے انتقال تک ان کی زندگی کا حصہ رہیں۔

بقول معین کے ان کے دادا جو میرپور کی سیاست میں حصہ لینے کے بعد دوبارہ انگلینڈ نہیں گئے، جب بڑھاپے میں واپس آئے تو بیٹی نے ان سے یہ کہہ کر گفتگو شروع کی کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، وہ اب بھی ان کی بیوی ہیں۔

معین کا مزید کہنا تھا کہ ان کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے ٹیم ممبرز سے زیادہ انگلش ہیں، جس میں کچھ کا تعلق جنوبی افریقہ اور کچھ نیوزی لینڈ سے ہے لیکن چونکہ معین علی کے والد آدھے انگریز ہیں۔ اس لیے معین خود کو ‘پونا گورا’ کہہ سکتے ہیں۔

اگر میرے بیٹے کی جگہ آپ کا بیٹا ہوتا تو آپ کیا کرتے؟

معین علی نے اپنی کتاب میں ایک ایسے حادثے کا ذکر بھی کیا جس میں ان کی موت بھی واقع ہوسکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسکول کے زمانے میں وہ عام انگریز لڑکوں کی طرح ہی تھے۔ ایک دن اسکول سے واپسی پر ان سے آگے چلنے والی ایک لڑکی کی ایک ایشیائی ڈرائیور سے تکرار کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا۔

معین علی نے لکھا کہ انہیں یہ تو یاد نہیں کہ جھگڑا کس بات پر ہوا تھا لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ جملوں کے تبادلے کے بعد اس ڈرائیور نے اپنی گاڑی تیزی سے ریورس کی اور اس لڑکی کے پیچھے کھڑے ہوئے معین کو اس شک میں ٹکر ماری کہ وہ شائد اس کے ساتھ ہوں گے۔

معین علی نے لکھا کہ اس واقعےسے قبل انہوں نے ایک اسکول میچ میں 195 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی لیکن اس حادثے نے انہیں دماغی طور پر ہلادیا۔

ان کے مطابق اگر وہ جھاڑیوں میں گرنے کے بجائے دیوار سے ٹکراتے تو ان کی موت بھی واقع ہوسکتی تھی۔

دائیں ٹانگ میں چوٹ لگنے کے بعد جب معین نے اپنے والد کو اس واقعے کے بارے میں بتایا تو انہوں نے تھوڑے فاصلے پر جاکر اس ڈرائیور کو پکڑا اور اس سے اپنے بیٹے کو ٹکر مارنے کی وجہ پوچھی۔

جس پر اس ڈرائیور نے کہا کہ تمہارا بیٹا خوش قسمت ہے کہ وہ مرا نہیں۔

اس کا جواب سن کر معین کے والد نے اس کی خوب پٹائی کی اور جب پولیس نے جھگڑے کو روکا، تو پولیس والے سے سوال کیا کہ اگر یہ آپ کے بیٹے کے ساتھ ایسا کرتا تو آپ کیا کرتے؟

جس پر پولیس والے نے کہا کہ شاید وہی جو آپ نے کیا۔

‘اس بالنگ ایکشن کے ساتھ تو تم انگلینڈ کے لیے بھی کھیل سکتے ہو’

معین علی نے اپنی کتاب میں اپنے کاؤنٹی کیریئر کا بھی ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آغاز میں وہ فاسٹ بالنگ کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی کمر میں تکلیف ہوجاتی تھی۔

لیکن جب ان کی کاؤنٹی وارک شائر کے کوچ اسٹیو پیری مین نے انہیں آف اسپن کرتے دیکھا، تو انہوں نے معین کو فاسٹ بالنگ سے منع کر دیا اور کہا کہ اس ایکشن کے ساتھ تم انگلینڈ کے لیے بھی کرکٹ کھیل سکتے ہو۔

اس کتاب میں انہوں نے وارک شائر سے ووسٹرشائر جانے کی وجہ بھی بتائی۔ ان کے خیال میں وارک شائر کی انتظامیہ بالخصوص کرکٹ اکیڈمی کے کوچ مارک گریٹ بیچ کو معین کے والد سے مسئلہ تھا کیوں کہ وہ ان کے کزنز کبیر علی اور قدیر علی کو مناسب مواقع نہ ملنے پر وار ک شائر سے ہٹا لیا تھا۔

اسی وجہ سے کاؤنٹی انتظامیہ اور گریٹ بیچ معین اور ان کے چھوٹے بھائی عمر کی اچھی کارکردگی کے باوجود کبھی نہیں سراہتے تھے۔

سابق کیوی کھلاڑی نے کوچ بننے کے بعد ایک موقع پر معین سے یہ بھی کہا کہ وہ ان سے ٹیم میں منتخب ہونے کی توقع نہ رکھیں۔ اگلے پانچ سال تک وہ ان کی فائنل الیون کا مستقل حصہ نہیں بن سکیں گے۔

گریٹ بیچ کی اس بات نے معین کے والد کو مجبور کیا کہ وہ ان کی کاؤنٹی تبدیل کرنے کا سوچیں، جس کے بعد انہوں نے ووسٹر شائر کاؤنٹی سے ذکر چھیڑا۔ جنہوں نے نہ صرف معین کو اپنی کاؤنٹی کی فرسٹ الیون میں جگہ دی بلکہ ان کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی کتاب میں معین علی نے رے ولی نامی ایک ویسٹ انڈین کو مذہب سے قریب لانے کا سہرا دیا۔

معین نے کہا کہ ولی سے صرف 15 منٹ کی ایک ملاقات کے بعد انہوں نے مذہب میں دلچسپی لی اور جمعے کی نماز پڑھنے والے ایک عام مسلمان سے صوم و صلوۃ کے پابند مسلمان بن گئے۔

یہی نہیں انہوں نے ایک ایسے واقعے کا بھی ذکر کیا جس میں ایک ٹیسٹ میچ کے دوران ایک آسٹریلوی کھلاڑی نے انہیں ‘اسامہ’ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔

جب انگلش کوچ نے اپنے آسٹریلوی ہم منصب سے اس بارے میں دریافت کیا تو اس کھلاڑی نے کہا کہ اس نے ‘پارٹ ٹائمر’ کہا تھا، اسامہ نہیں۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔