پاکستان کرکٹ بورڈ نے سال 2020-2021 کے لیے کھلاڑیوں کے سینٹرل کانٹریکٹ کی فہرست جاری کر دی ہے جس میں کئی کھلاڑیوں کو ترقی، اور کئی کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک طرف جہاں بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ساتھ ون ڈے ٹیم کی قیادت ملی ہے، وہیں فواد عالم کو ایک بار پھر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے ہٹائے جانے والے سرفراز احمد کیٹیگری بی میں شامل ہیں۔ فاسٹ بولر حسن علی اور ٹیسٹ کرکٹ پر محدود اوورز کی کرکٹ کو فوقیت دینے والے وہاب ریاض اور محمد عامر سینٹرل کانٹریکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
بعض کرکٹ ماہرین سرفراز احمد کی اے کیٹیگری سے بی میں تنزلی سے زیادہ ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے سرفراز کی کپتانی میں کھیلے جانے والے آخری چھ ون ڈے میچز میں کامیابی حاصل کی تھی۔
سینئر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرفراز احمد کی خدمات اور ٹیم کے لیے کارکردگی کو یوں فراموش کر دینا ٹھیک نہیں ہے۔
شاہد ہاشمی کے بقول "سرفراز احمد کو کیٹیگری اے سے بی میں منتقل کرنا ان کی تنزلی نہیں۔ انہیں ایک طرح سے بورڈ نے رعایت دی ہے کیوں کہ گزشتہ سال اکتوبر کے بعد سے انہوں نے پاکستان کی کسی میچ میں بھی نمائندگی نہیں کی۔
شاہد ہاشمی کہتے ہیں کہ "ون ڈے کپتانی سرفراز سے چھین کر بابر اعظم کو دے دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب پاکستان نے سرفراز احمد کی زیرِ قیادت آخری چھ میچز میں کامیابی حاصل کی ہوئی ہو۔ اس قسم کا فیصلہ صرف اور صرف پاکستان میں ہی لیا جاسکتا ہے۔”
ٹیسٹ کرکٹر فیصل اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سرفراز احمد کی سینٹرل کانٹریکٹ میں موجودگی کو خوش آئند قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیم سے ڈراپ ہونے کے ذمے دار خود سرفراز احمد تھے اور انہیں خود بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔
فیصل اقبال کے بقول "سرفراز احمد کا سینٹرل کانٹریکٹ میں کسی بھی کیٹیگری میں موجود ہونا خوش آئند ہے۔ گزشتہ سال ان سے بہت کوتاہیاں ہوئیں جن کا اندازہ ان کو بھی ہے۔”
فیصل اقبال کہتے ہیں کہ سرفراز احمد کے پاس اب بھی موقع ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور ان تمام خامیوں کو دور کریں جن کی وجہ سے انہیں ٹیم سے باہر کیا گیا۔
فیصل اقبال نے خبردار کیا کہ اگر سرفراز اچھی کارکردگی دکھا کر ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے تو آئندہ سال اُنہیں سینٹرل کانٹریکٹ میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔
فیصل اقبال کے بقول یہ لاہور اور کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے جس کے کپتان کا فارم میں ہونا ضروری ہے۔ سرفراز احمد کا پی سی بی کے آن لائن سیشنز میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی بورڈ کی منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔
اسپورٹس جرنلسٹ عالیہ رشید کے خیالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد کی تنزلی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اب وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس نہیں آ سکتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عالیہ رشید کا کہنا تھا کہ محمد رضوان کی ٹی ٹوئنٹی میں حالیہ کارکردگی متاثر کن نہیں تھی۔ اگر اس میں بہتری نہ آئی تو کچھ شک نہیں کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل سرفراز احمد ایک بار پھر ٹیم میں جگہ بنالیں۔
عالیہ رشید کہتی ہیں کہ سرفراز احمد ہم سب کے لیے قابلِ احترام ہیں لیکن ان کی تنزلی ان کی اپنی انفرادی کارکردگی کی وجہ سے ہوئی۔ ان سے ون ڈے کی کپتانی اس لیے واپس لی گئی کیوں کہ ایک تو ان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی، دوسرا تین فارمیٹس میں تین کپتان بھی نہیں ہو سکتے تھے۔”
عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد اگر کپتان نہیں رہے تو اے کیٹیگری میں بھی نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ان کی تنزلی پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا۔
عالیہ کے بقول ایک سال کے دوران سرفراز احمد نے دو ٹیسٹ کھیلے جن میں 28 کی اوسط سے صرف 112 رنز بنائے۔ اٹھارہ ون ڈے میچز میں انہوں نے 34 کی اوسط سے 408 رنز بنائے جن میں دو نصف سنچریاں شامل تھیں۔ چار ٹی ٹوئنٹی میچز میں 22 رنز فی اننگز کی اوسط سے 67 رنز بالکل اوسط درجے کی کارکردگی ہے۔
فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی کو اے کیٹیگری میں ترقی دینے پر عالیہ رشید کہتی ہیں کہ اس سے نوجوان بالرز کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ سینٹرل کانٹریکٹ میں نوجوان بالرز کا خیال رکھنے پر کرکٹ بورڈ کو سراہنا چاہیے۔
اُن کے بقول محمد حسنین، حیدر علی اور حارث رؤف کو ایمرجنگ کیٹیگری میں شامل کرنا بھی قابلِ تحسین ہے۔
وہاب ریاض، محمد عامر اور حسن علی کا کیا قصور؟
وہاب ریاض، محمد عامر اور حسن علی کو سینٹرل کانٹریکٹ سے خارج کرنے کے سوال پر سابق ٹیسٹ کرکٹر فیصل اقبال کا کہنا تھا کہ اس یہ تاثر ملتا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی فاسٹ بالنگ کی باگ ڈور اب مکمل فٹ نوجوان بالرز کے ہاتھ میں دی جا رہی ہے۔
فیصل اقبال کے بقول بورڈ کے اس فیصلے سے ٹیسٹ کرکٹ کی افادیت اُجاگر ہو گی۔ وہاب ریاض اور محمد عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے جب کہ حسن علی کو خراب کارکردگی اور ان فٹ ہونے پر سینٹرل کانٹریکٹ نہیں دیا گیا۔
ان کے بقول وہاب ریاض اور محمد عامر پر بورڈ نے بہت محنت کی تھی۔ لیکن دونوں بالرز نے آسٹریلیا کے مشکل دورے سے قبل ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے کر بورڈ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔
اُن کے بقول بورڈ کے اس فیصلے سے دیگر کھلاڑیوں کو پیغام جائے گا کہ کھیل کے تینوں شعبے اہم ہیں۔ لہذٰا کسی کھلاڑی کو ایک فارمیٹ کھیلنے سے معذوری ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیگ اسپنر یاسر شاہ کی بھی ‘اے’ سے ‘بی’ کیٹیگری میں تنزلی ہوئی ہے۔ یاسر شاہ نے کئی ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے وہ بھی آؤٹ آف فارم ہیں۔
فیصل اقبال کے بقول یاسر شاہ خراب فارم سے گزر رہے ہیں۔ لیکن کرکٹ بورڈ نے ان کو اعتماد دینے کے بجائے اُن کی تنزلی کر دی۔ اسی طرح فواد عالم کے ساتھ بھی امتیازی سلوک روا رکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔
البتہ فواد عالم کا آن لائن سیشنز میں شریک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب بھی بورڈ کی نظروں میں ہیں۔ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کی بنا پر ٹیم میں جگہ بنانے کے مستحق ہیں۔
فیصل اقبال کے بقول ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے ٹاپ پانچ کھلاڑیوں کو کانٹریکٹ ضرور ملنا چاہیے۔
یکم جولائی سے نافذ العمل سینٹرل کانٹریکٹ میں ٹیسٹ اور ون ڈے ڈیبیو پر سینچری بنانے والے ٹیسٹ اوپنرز عابد علی اور شان مسعود کو بی کیٹیگری میں ترقی دے دی گئی ہے۔
تینوں فارمیٹس میں وکٹ کیپنگ کے فرائض سر انجام دینے والے محمد رضوان بھی اسی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ فاسٹ بالر نسیم شاہ اور مڈل آرڈر بیٹسمین افتخار احمد کو سی کیٹیگری میں جگہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
کرکٹ ماہرین کے بقول فخر زمان اور امام الحق کو بھی سی کیٹیگری میں ڈال کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ان کی کارکردگی میں بہتری نہ آئی، تو اگلے سال وہ بھی سینٹرل کانٹریکٹ سے محروم ہوسکتے ہیں۔
عالیہ رشید کا ماننا تھا کہ سینٹرل کانٹریکٹ نہ ملنے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ وہ کھلاڑی پاکستان کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ بورڈ جس راستے پر چل رہا ہے وہ ٹھیک ہے اور اگر پاکستان کو آگے دیکھنا ہے تو اس قسم کے فیصلے لینا پڑیں گے۔