میچ کے بارہویں اوور میں بھارتی بلے بازوں ہاردک پانڈیا اور وراٹ کوہلی کے 20 رنز کے بعد لیفٹ آرم اسپنر محمد نواز کو کپتان بابر اعظم نے بالنگ اٹیک سے ہٹا دیا تھا۔
تاہم تمام فاسٹ بالرز اور شاداب خان کے اوورز ختم ہوجانے کی وجہ سے بابر اعظم کو محمد نواز سے آخری اوور کرانا پڑا جو گرین شرٹس کو مہنگا پڑا۔
آخری اوور کی پہلی گیند پر بھارت کو جب جیت کے لیے 16 رنز درکار تھے تو محمد نواز نے ہاردک پانڈیا کو 40 رنز کے انفرادی اسکور پر آؤٹ کرکے میچ میں دلچسپی پیدا کردی۔ ایسے میں نئے بلے باز دنیش کارتھک کریز پر آئے اور انہوں نے ایک رن بناکر وراٹ کوہلی کو واپس اسٹرائیک دی جو اس وقت 74 رنز پر بیٹنگ کررہے تھے۔
کوہلی نے اوور کی تیسری گیند پر دو رنز لیے جب کہ اگلی گیند محمد نواز نے اونچی پھینکی جسے وراٹ کوہلی نے کریز سے آگے نکل کر لیگ سائیڈ پر باؤنڈی کے پار پھینک دیا۔
اس موقع پر جب لیگ امپائر نے نو بال کا اشارہ نہیں دیا تو وراٹ کوہلی نے غصے میں ان سے دریافت کیا کہ ‘کیا یہ نو بال نہیں تھی ‘جس کے بعد اسکوائر لیگ پر کھڑے جنوبی افریقی امپائر مرائس ایراسمس نے نو بال کا اشارہ دیا۔
اس اشارے کے ساتھ ہی بھارت کو چھ کے بجائے سات رنز مل گئے اور محمد نواز کو گیند بھی دوبارہ پھینکنا پڑی۔ اس موقع پر کپتان بابر اعظم اور ساتھی کھلاڑیوں کا احتجاج رنگ نہ لایا اور پاکستان کو امپائر کے فیصلے پر اکتفا کرنا پڑا۔
اگلی گیند محمد نواز نے وائڈ پھینکی جس کے بعد بھارت کو ہدف تک پہنچنے کے لیے صرف پانچ رنز رہ گئے جب کہ اس کے پاس تین گیندیں باقی تھیں۔
Etched in history 📸#T20WorldCup #INDvPAK pic.twitter.com/CDXZSfaxLz
— T20 World Cup (@T20WorldCup) October 23, 2022
وائڈ گیند پھینکنے کی وجہ سے محمد نواز کو فری ہٹ والی گیند دوبارہ کرنا پڑی جو جا کر تو وکٹ پر لگی لیکن پھر تھرڈ مین کی جانب چلی گئی۔ پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان نے ایسے میں امپائرز سے دریافت کیا کہ بولڈ ہونے کی وجہ سے گیند ڈیڈ کیوں نہیں قرار دی گئی؟ لیکن اسی اثنا میں بھارتی بلے باز تین رنز بناچکے تھے جنہیں امپائرز نے بائی قرار دے کر اسکور میں شامل کرلیا۔
جب اوور کی پانچویں گیند پر دنیش کارتھک کو محمد رضوان نے اسٹمپ آؤٹ کیا تو بھارت کو ایک گیند پر دو رنز درکار تھے۔ اس مارجن کو محمد نواز نے ایک اور وائڈ پھینک کر مزید کم کردیا اور روی چندن ایشون نے آخری گیند پر باؤنڈری لگا کر ٹیم کو کامیابی دلادی۔
کرکٹرز اور صارفین نے آن فیلڈ امپائر کے فیصلوں کو کیسے دیکھا؟
میچ کے دوران اور ختم ہونے بعد امپائر کے ان دو فیصلوں سے متعلق سوشل میڈیا پر خاصی بحث ہوئی۔
سابق آسٹریلوی اسپنر بریڈ ہوگ نے اپنے ٹویٹ میں اسکوئر لیگ سے لی گئی وراٹ کوہلی کی تصویر شیئر کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر فیلڈنگ ٹیم کو آن فیلڈ امپائر کے فیصلے سے مسئلہ تھا تو انہوں نے تھرڈ امپائر سے رجوع کیوں نہیں کیا؟
Why was no ball not reviewed, then how can it not be a dead ball when Kohli was bowled on a free hit. #INDvPAK #T20worldcup22 pic.twitter.com/ZCti75oEbd
— Brad Hogg (@Brad_Hogg) October 23, 2022
اسی ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب فری ہٹ پر وراٹ کوہلی بولڈ ہوگئے تھے تو گیند کو ڈیڈ کیوں نہیں قرار دیا گیا؟ اور انہیں تین رنز کیوں بنانے دیے گئے۔
بریڈ ہوگ کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے گلوکار و اداکار علی ظفر نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ قانون کیا ہے لیکن اس تنازع کی چھان بین ہونی چاہیے۔
Hmmmmmm. This should be probed? I don’t know. What do the experts and the rules say ? Because that ball was the #turningpoint and @babarazam258 could be seen protesting with the umpires right after. #NoBall https://t.co/x96gj9mA9M
— Ali Zafar (@AliZafarsays) October 23, 2022
معروف کامیڈین ارسلان نصیر نے بھارت کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور کوہلی نے اچھا تو کھیلا لیکن وہ نو بال نہیں تھی۔
Great fight Pakistan! Well Played India & Virat Kohli!
— Arslan Naseer – CBA (@ArslanNaseerCBA) October 23, 2022
BTW wo no ball nahi thi …
#PakVsInd
پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان جویریہ خان نے بھی ارسلان نصیر جیسی ہی ایک ٹویٹ کی۔
For sure it wasnt a No ball !!#T20WorldCup | #INDvPAK
— Javeria Khan (@ImJaveria) October 23, 2022
ٹوٹر صارف فرید خان نے کہا کہ امپائرز نے گیند باؤنڈری سے باہر جانے کے بعد اسے نوبال قرار دیا۔
Probably best if you can delete this please .. it’s fake news and a fake quote and definitely not what a great game of cricket like todays deserves !! Thanks
— Nasser Hussain (@nassercricket) October 23, 2022
آن فیلڈ امپائر کا کوئی فیصلہ غلط نہیں تھا: کرکٹ کی بائیبل وزڈن کی رائے
آن فیلڈ امپائز نے وراٹ کوہلی کو بولڈ ہونے کے بعد بھاگنے سے روکا کیوں نہیں؟ یہ سوال ہر اس کرکٹ صارف کے دماغ میں تھا جو پاکستان کی ٹیم کو سپورٹ کر رہا تھا۔ لیکن اگر کرکٹ کے قوانین یا ٹورنامنٹ کے قواعد و ضوابط (پلیئنگ کنڈیشنز)پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وراٹ کوہلی کو قانون کا پتا تھا۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط کی شق 20 کے مطابق "کسی بھی گیند کو صرف اس صورت میں ڈیڈ بال قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ وکٹ کیپر یا بالر کے ہاتھ میں آجائے، اس کی باؤنڈری اسکور ہوجائے یا بیٹس مین آؤٹ ہوجائے۔”
اس قانون میں یہ بھی درج ہے کہ اگر گیند کسی کھلاڑی یا امپائر کے کپڑوں میں پھنس جائے یا اسپائڈر کیم یا اس کے تار سے ٹکراجائے تب ہی اسے ڈیڈ قرار دیا جاسکتا ہے۔
پاکستانی اننگز کے دوران بلے باز شان مسعود کی لگائی ہٹ اسپائڈر کیم کی وجہ سے کھلاڑیوں کو نظر نہیں آئی جسے امپائرنے ڈیڈ بال قرار دیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب ہر کوئی اپنے انداز میں اس قانون یا پلیئنگ کنڈیشن کی تشریح کررہا تھا کرکٹ مبصر ڈاکٹر نعمان نیاز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے شائقین کو بتایا کہ اصل میں فری ہٹ پر آؤٹ ہونے پر قانون کیا کہتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر فری ہٹ پر بلے باز کیچ آؤٹ ہوتا ہے تو بھاگنے والے رنز اس کے اسکور میں جمع ہوجائیں گے۔ اگر گیند اس کے بلے سے لگ کر وکٹ پر لگتی ہے اور وہ رنز بناتا ہے تو وہ بھی اسی کے اسکور کا حصہ بنیں گے۔ تاہم اگر وہ بغیر ایج لگے بولڈ ہوتا ہے اور پھر رنز کے لیے بھاگتا ہے تو انہیں فاضل رنز تصور کیا جائے گا۔
‘If a batsman is caught on a free hit he can run and the score will be added to his total & if he is bowled with an edge then he can take runs which will be added to his total. But if he gets out bowled without an edge, he can run but the runs will go into extras’ (byes)
— Dr. Nauman Niaz (@DrNaumanNiaz) October 23, 2022
دوسری جانب کرکٹ کے معتبر میگزین ‘وزڈن’ کی ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہوئے بین گارڈرنر کا کہنا تھا کہ "محمد نواز کی پھینکی ہوئی ویسٹ ہائی گیند کو چیلنج کرنا اس لیے ناممکن تھا کیوں کہ قواعد و ضوابط اس کی اجازت نہیں دیتے۔
اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا کہ تھرڈ امپائر صرف فرنٹ فٹ نو بال ہوجانے کی صورت میں مداخلت کرسکتا ہے۔ ویسٹ ہائی نوبال کے معاملے میں نہیں۔ اس لیے امپائرز کو الزام دینا درست نہیں ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وراٹ کوہلی اپنی کریز میں کھڑے بھی رہتے تب بھی گیند ان کی ویسٹ سے اونچی ہوتی اور اسی لیے لیگ امپائر نے اسے نوبال قرار دیا۔
انہوں نے وکٹ سے لگ کر تھرڈ مین کی جانب جانے والی گیند کو ڈیڈ بال نہ قرار دینے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ محمد رضوان کا احتجاج درست نہیں تھا۔ پلیئنگ کنڈیشنز میں صاف صاف درج ہے کہ کوئی بھی اسٹرائکر صرف ان قواعد کی رو سے آؤٹ ہوسکتا ہے جو ایک نو بال پر اپلائی ہوتی ہیں۔
ان کے بقول میگا ایونٹ کے قواعد و ضوابط میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وکٹ گر جانے کی صورت میں بال کو ڈیڈ قرار دے دیا جائے گا بلکہ یہ درج ہے کہ بلے باز کے آؤٹ ہونے کی صورت میں ہی گیند ڈیڈ قرار دی جائے گی۔
There were two marginal decisions – the Axar run out and the waist-high no ball – and two definitely correct decisions – not reviewing the no ball, and the free hit remaining live.
— Ben Gardner (@Ben_Wisden) October 23, 2022
There's no conspiracy. The umpires got the big calls right.#INDvPAK https://t.co/rwWCmWNaiO
اپنے تبصرے میں انہوں نے شائقین کی توجہ بھارتی کھلاڑی پٹیل کے رن آؤٹ کی طرف بھی دلائی جن کے آؤٹ ہونے پر نہ تو مخالف کپتان بابر اعظم کو یقین تھا نہ ہی وکٹ کیپر محمد رضوان کو۔ کیوں کہ محمد رضوان نے بابر اعظم کی پھینکی ہوئی تھرو کو پکڑے بغیر وکٹ گرادی تھی۔ لیکن ری پلے میں نظر آیا کہ ان کے ہاتھ سے پہلے گیند وکٹ سے ٹکراگئی تھی۔
بین گارڈنر کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر بھی اعتراض کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ امپائر کے فیصلے کو سب ہی نے تسلیم کیا۔ اسی طرح دیگر فیصلوں پر بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے دونوں ٹیموں کے ساتھ ساتھ امپائرز بھی ایک اچھے میچ کا حصہ تھے۔