کراچی —
پاکستان کرکٹ ٹیم نے کئی کھلاڑیوں کو عالم جوانی میں ٹیسٹ کیپ دے کر انہیں ایک لمبے کریئر کی امید دی۔ لیکن 36 سالہ تابش خان کے حالیہ ٹیسٹ ڈیبیو نے ایک مرتبہ پھر اس بحث کو چھیڑ دیا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر کھلاڑی 30 سال کے بعد ہی ٹیسٹ ڈیبیو یا کم بیک کیوں کرتے ہیں؟
ماہرینِ کرکٹ بھی اس حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کچھ کے خیال میں فرسٹ کلاس کی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ کیپ دینا بہترین پالیسی ہے تو کچھ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی لیول پر اچھی کارکردگی کے بعد کھلاڑی کو ٹیسٹ کرکٹ میں جگہ دینا غلط نہیں۔
تابش خان کی ٹیسٹ کرکٹ میں تاخیر سے انٹری کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں ایسے کئی کھلاڑیوں نے پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں نمائندگی کی جو اگر کسی اور ملک میں ہوتے تو یا تو ٹیسٹ ڈیبیو کرچکے ہوتے یا پھر بڑھتی عمر کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کر ریٹائر ہوجاتے۔
فرسٹ کلاس لیول پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے عمران طاہر نے پاکستان کے بجائے جنوبی افریقہ سے کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دی اور آئی سی سی رینکنگ میں ایک وقت میں ٹاپ بالر بھی رہے۔
Fast bowler Tabish Khan makes his debut for Pakistan today 👏#ZIMvPAK pic.twitter.com/uifOZm5XU9
— ICC (@ICC) May 7, 2021
اسی طرح ٹیسٹ کرکٹر یاسر عرفات نے کنٹری کرکٹ کی جگہ کاؤنٹی کرکٹ میں نام کمایا اور زمبابوے کے کامیاب آل راؤنڈر سکندر رضا کو پاکستان میں رہتے ہوئے کرکٹ کا شوق ہی نہیں ہوا۔
ایسے ہی چند کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں جو بڑھتی عمر میں ٹیسٹ کیپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اپنی 32ویں سالگرہ کے بعد ٹیسٹ کیپ حاصل کرنے والے اسپنرز
انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کے لیے تقریباً ساڑھے چار سو اور صرف ٹیسٹ کرکٹ میں 178 وکٹیں حاصل کرنے والے آف اسپنر سعید اجمل نے اگر ٹیسٹ ڈیبیو پہلے کر لیا ہوتا تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی دنیا میں پوزیشن بھی اچھی ہوتی اور سعید اجمل کی وکٹوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی۔
سن 1977 میں پیدا ہونے والے سعید اجمل نے 2009 میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور 32 سال کی عمر میں کھیلے گئے پہلے ہی میچ میں پانچ وکٹوں سے کریئر کا آغاز کیا۔
گو کہ ان کا ٹیسٹ کریئر صرف پانچ سال ہی جاری رہا لیکن اس دوران سعید اجمل نے اپنی نپی تلی بالنگ اور ‘دوسرا’ سے دنیا کے بہترین بلے بازوں کو پریشان رکھا۔
متنازع ایکشن کی وجہ سے سعید اجمل کا کریئر جلد ختم ہو گیا لیکن ان کے کارنامے آج بھی سب کو یاد ہیں۔
بلال آصف
ایک ایسے وقت میں جب سعید اجمل اور محمد حفیظ کو متنازع ایکشن کی وجہ سے بالنگ سے روک دیا گیا تھا تو بلال آصف کے ٹیم میں آنے سے آف اسپن کا شعبہ مضبوط ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
پانچ میچز میں سولہ وکٹیں حاصل کرنے والے بلال آصف نے فرسٹ کلاس کریئر کا آغاز ہی 26 سال کی عمر میں کیا تھا۔ اسی وجہ سے جس وقت انہوں نے ٹیسٹ ڈیبیو کیا تو ان کی عمر 33 سال تھی۔
اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر اس آف اسپنر نے چھ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے پانچویں اور آخری میچ میں بھی نیوزی لینڈ کے پانچ بیٹسمینوں کو ٹھکانے لگایا تھا۔
ایکشن تو ان کا بھی رپورٹ ہوا تھا لیکن یہ بہترین کارکردگی انہوں نے نئے ایکشن کے ساتھ حاصل کی تھی۔ لیکن یاسر شاہ کی مسلسل شاندار پرفامنس، اور شاداب خان کی آمد سے اس نوجوان آل راؤنڈر کا کریئر مشکلات کا شکار ہو گیا، بیٹنگ میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے ان کا ٹیسٹ کریئر صرف دو ماہ جاری رہ سکا۔
ذوالفقار بابر
اپنے ٹیسٹ ڈیبیو سے قبل 300 سے زائد کھلاڑیوں کو فرسٹ کلاس کرکٹ میں آؤٹ کرنے والے ذوالفقار بابر کا تعلق اوکاڑہ سے ہے۔ جہاں ان سے پہلے کوئی کرکٹر قومی ٹیم میں جگہ نہ بناسکتا تھا۔ لیکن اس لیفٹ آرم اسپنر نے 34 سال کی عمر میں ٹیم میں جگہ بنائی۔
اپنی 35ویں سالگرہ سے صرف دو ماہ قبل ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے ذوالفقار بابر نے 15 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 54 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
سن 2016 میں پاکستان کے لیے آخری بار ٹیسٹ کھیلا، لیکن ایک ٹیسٹ ففٹی اسکور کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کے لیے کھیلنے کے لیے کب سے تیار بیٹھے تھے۔
نعمان علی
سب سے آخر میں بات ہرارے ٹیسٹ کے ہیرو نعمان علی کی جس نے نہ صرف میچ میں 97 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی بلکہ دوسری اننگز میں پانچ کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کیا۔
سن 1986 میں سندھ کے شہر سانگھڑ میں پیدا ہونے والے اس کھلاڑی نے فرسٹ کلاس ڈیبیو 2007 میں کیا اور ٹیسٹ ڈیبیو کے لیے انہیں 14 سال انتظار کرنا پڑا۔
اس دوران نعمان علی نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں وکٹوں کی لائن لگائی اور اپنی نپی تلی بالنگ سے اپنا لوہا منوایا۔
جب انہیں 34 سال کی عمر میں ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیا گیا تو اننگز میں پانچ وکٹیں اور میچ میں سات وکٹیں حاصل کر کے انہوں نے ثابت کیا کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔
وہ فاسٹ بالرز جن کا کریئر سست روی کا شکار رہا
تابش خان 36 سال کی عمر میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے سب سے بڑی عمر کے تو پاکستانی فاسٹ بالر بن گئے، لیکن وہ تیسویں سالگرہ کے بعد ٹیسٹ کیپ لینے والے اکیلے بالر نہیں۔ ان سے پہلے فاسٹ بالر اعزاز چیمہ اور محمد عرفان یہ کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔
اعزاز چیمہ ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جو اپنی سالگرہ کے دن ٹیسٹ ڈیبیو کر رہے تھے، لیکن یہ ان کی 32ویں سالگرہ تھی۔ انہیں فرسٹ کلاس ڈیبیو کے دس سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا تھا۔
پہلے ہی ٹیسٹ میں آٹھ وکٹیں حاصل کرنے والے اس بالر نے مزید چھ ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
آج انہیں لوگ 2012 میں ہونے والے ایشیا کپ کے فائنل کے آخری اوور کی وجہ سے جانتے ہیں جس میں انہوں نے بنگلا دیشی شائقین کے سامنے میزبان ٹیم کو رنز نہ بنانے دیے، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ بحیثیت ٹیسٹ بالر، ڈیبیو پر سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بالرز میں محمد زاہد کے بعد ان کی دوسری پوزیشن ہے۔
سن 1982 میں گگو منڈی میں پیدا ہونے والے محمد عرفان کو لوگ ان کے لمبے قد کی وجہ سے تو جانتے ہیں، لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کی کرکٹ میں انٹری ہر موقع ہر لیٹ ہوئی۔
جس عمر میں لوگ اپنا ٹیلنٹ بہتر کر رہے ہوتے ہیں، یہ لیفٹ آرم فاسٹ بالر محنت مزدوری کر رہا تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کی تو اس وقت ان کی عمر 27 سال تھی۔ ون ڈے ڈیبیو کیا تو 28ویں سالگرہ کے بعد اور ٹیسٹ ڈیبیو کیا تو اپنی 31ویں سالگرہ سے چار ماہ قبل۔
سات فٹ ایک انچ لمبے فاسٹ بالر نے پاکستان کے لیے صرف چار ٹیسٹ کھیل کر دس وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں ان کی کارکردگی زیادہ بہتر رہی۔
کچھ بلے بازوں کے لیے، انتہا ہوگئی انتظار کی!
پاکستان میں کچھ ایسے بلے باز بھی گزرے ہیں جن کا فرسٹ کلاس ریکارڈ تو شاندار تھا لیکن سلیکٹرز کی نظر کرم ان پر کافی دیر سے پڑی۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایوب ڈوگر بھی ایسے ہی ایک کھلاڑی تھے جنہوں نے 2012 میں 32 سال کی عمر میں پاکستان کے لیے پہلا ٹیسٹ تو کھیلا اور یہی میچ ان کا آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا۔
مسلسل تین فرسٹ کلاس سیزن میں ایک ہزار سے زائد رنز اسکور کرنے والے اس کرکٹر کو 32 سال کی عمر میں ٹیم میں شامل کیا گیا۔ سینئر بلے بازوں مصباح الحق، یونس خان اور نوجوان بیٹسمین اظہر علی اور اسد شفیق کی موجودگی کی وجہ سے وہ صرف ایک ٹیسٹ میچ ہی کھیل سکے۔
پاکستان ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین عابد علی کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ٹیسٹ اور ون ڈے ڈیبیو پر سینچری بنانے والے دنیا کے واحد کرکٹر نے اپنا فرسٹ کلاس کرکٹ کا پہلا میچ دسمبر 2007 میں کھیلا تھا اور ٹھیک 12 سال بعد دسمبر 2019 میں انہوں نے ٹیسٹ ڈیبیو کیا۔
قومی ٹیم میں جگہ بنانے سے پہلے وہ ڈومیسٹک لیول پر 6000 سے زیادہ رنز بنا چکے تھے۔
عابد علی نے مارچ 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے ڈیبیو پر سینچری بناکر سلیکٹرز کی توجہ حاصل کی جس کے بعد اسی سال دسمبر میں پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں 100 کا ہندسہ عبور کر کے ٹیسٹ ٹیم میں بھی جگہ پکی کی۔
وہ پاکستان کی جانب سے پہلے دو ٹیسٹ میں سینچری بنانے والے پہلے کرکٹر تو تھے ہی لیکن زمبابوے کے خلاف ڈبل سینچری بنا کر وہ سری لنکا کے مارون اتاپتو کے بعد دوسرے ایشیائی اوپنر بن گئے جس نے بر اعظم افریقہ میں ڈبل سینچری اسکور کی۔
ذکر کچھ لیٹ کم بیک کرنے والے نامور کرکٹرز کا
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں بعض کرکٹرز ایسے بھی ہیں جنہوں نے عالمِ جوانی میں ٹیسٹ ڈیبیو تو کیا لیکن انہیں ٹیسٹ ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑا۔
انہی کھلاڑیوں میں سے ایک مصباح الحق ہیں جنہوں نے ٹیسٹ ڈیبیو سن 2001 میں اپنی 27ویں سالگرہ سے دو ماہ قبل کیا اور پہلے دو سال میں پانچ ٹیسٹ میچ بھی کھیلے لیکن ٹیم کا مستقل حصہ بننے کے لیے انہیں مزید چار سال انتظار کرنا پڑا۔
تینتیس سال کی عمر میں کم بیک کرنے والے اس کھلاڑی نے پہلے بحیثیت کھلاڑی ٹیم میں اپنی جگہ پکی کی اور پھر بطور کپتان پاکستان ٹیم کی ایسی قیادت کی کہ ماضی کے سارے کپتانوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور ان دنوں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ بطور ہیڈ کوچ منسلک ہیں۔
وہ ٹیسٹ کرکٹ میں دیر سے تو آئے لیکن انہوں نے 75 ٹیسٹ میں 10 سینچریوں اور 39 نصف سینچریوں کی بدولت 5222 رنز بنائے۔
کچھ اسی قسم کا معاملہ فواد عالم کے ساتھ بھی ہوا ہے جنہوں نے سن 2009 میں اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سینچری اسکور کی۔ لیکن دوسری سینچری کے لیے انہیں گیارہ سال انتظار کرنا پڑا۔
ان گیارہ برسوں کے دوران جہاں مینجمنٹ بدلی، کپتان بدلے، کھلاڑی آئے گئے اور کرکٹ کھیلنے کا طریقہ بھی بدلا۔ لیکن نہ بدلی تو فواد عالم کی پاکستان کے لیے کھیلنے کی آرزو۔ انہوں نے کم بیک کرتے ہی تین سینچریاں اسکور کر کے سب کو بتا دیا کہ وہ اب بھی فارم میں ہیں۔
فواد عالم نے اب تک اپنے کریئر کے دوران 11 میچز میں 700 سے زائد رنز بنائے ہیں جن میں چار سینچریاں شامل ہیں۔ وہ حالیہ کرکٹرز میں دنیا کے واحد بیٹسمین ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں جب بھی 50 کا ہندسہ عبور کیا تو سینچری ضرور بنائی۔ اسی لیے ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی سینچریوں کی تعداد چار اور نصف سینچریوں کی تعددا صفر ہے۔