شوبز

پاکستانی ڈرامے کو غیر معذرت خواہ ورکنگ وومن کا تصور دینے والی حسینہ معین

Written by Omair Alavi

کراچی — 

دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی ڈرامے دیکھے جاتے ہیں، وہاں لوگ حسینہ معین کے ڈراموں کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ ان کے نام کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کو ہر گھر میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا، بلکہ اپنی کہانیوں کے ذریعے ناظرین کی اصلاح کی بھی کوشش کی۔

ستر کی دہائی میں شہزوری ہو، انکل عرفی ہو، یا پھر کرن کہانی؛ 80 کے عشرے میں ان کہی، تنہائیاں اور دھوپ کنارے؛ اور نوے کی دہائی میں آہٹ، کسک اور دیس پردیس؛ حسینہ معین نے ہر دور میں اپنے مداحوں کو مایوس کیے بغیر ہٹ ڈرامے پیش کیے۔

اپنے کریئر کا آغاز اسٹیج اور ریڈیو سے کرنے والی حسینہ معین نے فلموں میں بھی طبع آزمائی کی۔ لیکن یہاں انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جیسی انہیں ٹی وی پر ملتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ٹیلی ویژن پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور بحیثیت ایک قابلِ اعتماد اور ترقی پسند ڈرامہ نگار کے عزت، شہرت اور نام کمایا۔

حسینہ معین حسنات بھائی، بقراط اور قباچہ جیسے یادگار کرداروں کی خالق تھیں۔ پانچ دہائیوں پر محیط کریئر میں انہوں نے لاتعداد ہٹ ڈرامے تو لکھے لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی ایسے کردار تخلیق کرنا تھی جو ڈرامہ سیریل ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کو یاد رہ جاتے تھے۔

‘انکل عرفی’ میں جمشید انصاری نے جس مہارت سے حسنات بھائی کو سب کا پسندیدہ بھائی بنایا؛ ‘ان کہی’ میں سلیم ناصر نے جس طرح خود کو دنیا کے تمام ماموؤں کا لیڈر ثابت کیا؛ بہروز سبزواری جیسے ‘تنہائیاں’ میں قباچہ بن کر ہمیشہ کے لیے قباچہ ہوگئے؛ ایسے یادگار کرداروں کی مثال پاکستانی ڈراموں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

ان کہی میں کام کرنے کے بعد ایک عام اداکار شیخ جاوید اقبال، ‘جاوید شیخ’ بن گیا۔ یہ ان کا ہی کمال تھا۔

جاوید شیخ

کچھ عرصہ قبل جب ایک انٹرویو میں میں نے حسینہ معین سے پوچھا تھا کہ اب ویسے یادگار کردار کیوں نہیں بنتے تو ان کا کہنا تھا کہ جب تک کرداروں میں جان ڈالنے والے اور محنت کرنے والے اداکار موجود تھے، ایسے کردار بنتے تھے۔ اداکار ختم تو کردار ختم۔

اپنے کریئر کے آغاز سے 90 کی دہائی تک حسینہ معین محسن علی، شیریں پاشا، شعیب منصور، ساحرہ کاظمی اور شہزاد خلیل جیسے پائے کے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ہدایت کاروں کے بعد آنے والی نسل نے نہ تو کرداروں کو اس طرح سمجھا، نہ ہی کہانی کو اپنا سمجھ کر ڈرامہ بنایا۔

ڈراموں میں خواتین کو مردوں کے برابر دکھایا

پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کا پہلا اوریجنل ڈرامہ ‘کرن کہانی’ حسینہ معین نے تحریر کیا تھا۔ اس سے قبل پی ٹی وی پر زیادہ تر انگریزی اور اردو لٹریچر کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی تھی۔ ‘کرن کہانی’ کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج بھی جاری ہے۔

انہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے خواتین کو نہ صرف ایک جیتے جاگتے انسان کے طور پر پیش کیا بلکہ انہیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے بھی دکھایا۔ ‘ان کہی’ میں ثناء مراد اپنے چھوٹے بھائی کے علاج کے لیے نوکری کرتی ہے تو ‘تنہائیاں’ میں زارا احمد اپنے مرحوم والد کا گھر دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بزنس شروع کرتی ہے۔

اور تو اور ‘دھوپ کنارے’ میں ڈاکٹر زویا کو ایک خود مختار اور پڑھی لکھی عورت کے طور پر پیش کیا گیا جو اچھے برے کا فرق بھی جانتی ہیں اور اپنے کام میں بھی ماہر ہوتی ہیں۔

اس دور کی ہر اداکارہ کی کوشش ہوتی تھی کہ حسینہ معین کے ڈرامے کی ہیروئن بنیں۔ روحی بانو، شہناز شیخ، مرینہ خان اور نادیہ جمیل جیسی منجھی ہوئی اداکاراؤں نے اپنے کریئر کا آغاز حسینہ معین کے ڈراموں سے کیا اور آج بھی لوگوں کو ان ڈراموں کی وجہ سے یاد ہیں۔

کامیڈی اور سنجیدہ، دونوں ڈراموں کی ماہر

ٹی وی ناظرین کو وقتاً فوقتاً ہنسانے والی حسینہ معین کو سنجیدہ ڈراموں پر بھی کمال حاصل تھا۔ پی ٹی وی کا ڈرامہ ‘آہٹ’ ہو یا این ٹی ایم پر نشر ہونے والا ‘پڑوسی’، انہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے معاشرتی برائیوں کی انہیں ‘گلوریفائی’ کیے بغیر عکاسی کی۔

ہم جب ڈراموں میں کسی کردار کو بیمار یا مرتا ہوا دکھانے کی بات کرتے تھے تو حسینہ آپا اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔

ذوالفقار شیخ

‘آہٹ’ کی کہانی ایک ایسے نوجوان جوڑے کے گرد گھومتی ہے جس کے بچے زیادہ اور آمدنی محدود ہوتی ہے جب کہ ‘پڑوسی’ میں ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جن کے شوہر دوسری شادی کرکے پہلی بیوی سے ہونے والے بچوں کو بھول جاتے ہیں۔

انہوں نے صرف خواتین کے مسائل پر ہی ڈرامے نہیں لکھے بلکہ مرد کرداروں کی مشکلات اور پریشانیوں کو بھی اجاگر کیا۔ فلم اور ٹی وی کے مشہور اداکار جاوید شیخ اپنی کامیابی کا کریڈٹ حسینہ معین کو دیتے ہیں جنہوں نے انہیں ‘ان کہی’ میں موقع دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جاوید شیخ نے کہا کہ حسینہ معین ایک باکمال خاتون تھیں اور ہماری انڈسٹری کا ایک سرمایہ تھیں۔

"میری کامیابی میں حسینہ معین کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کے ڈرامہ سیریل ‘ان کہی’ میں کام کرنے کے بعد ایک عام اداکار شیخ جاوید اقبال، ‘جاوید شیخ’ بن گیا۔ یہ ان کا ہی کمال تھا کہ ان کے لکھے ہوئے مکالمے میرے حصے میں آئے اور وہ سیریل کامیاب ہوا۔”

جاوید شیخ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس ڈرامے کے دوران حسینہ معین سے بہت کچھ سیکھا۔

"صبر کیا ہوتا ہے، تحمل کیا چیز ہے، اور بردباری کیا ہوتی ہے۔ یہ سب حسینہ معین کو دیکھ کر سیکھا۔ ان کی وفات کی خبر ہم سب پر بجلی کی طرح گری ہے۔”

فلموں میں طبع آزمائی

حسینہ معین کی پہلی فلم 1978 میں اداکار و ہدایت کار سید کمال کی ‘یہاں سے وہاں تک’ تھی جس میں معروف اداکار وحید مراد اور سید کمال نے پہلی اور آخری بار اکٹھے کام کیا۔ آٹھ سال بعد انہوں نے عثمان پیرزادہ کی ‘نزدیکیاں’ کے مکالمے لکھے۔ لیکن یہ دونوں فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔

اداکار جاوید شیخ نے بھی 1998 میں ان کے ساتھ ایک فلم بنائی جو باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہیں ہوئی لیکن جاوید شیخ کے بقول یہ تجربہ یادگار رہا۔

"ہم نے ایک انگلش فلم ‘اونلی یو’ کا آئیڈیا دیا تھا جسے انہوں نے ‘کہیں پیار نہ ہو جائے’ بنا دیا تھا۔ ان سے فلم لکھوانے اور اس میں اداکاری و ہدایت کاری کرنے کا بھی ایک اپنا ہی مزہ تھا۔”

بھارت میں پذیرائی اور راج کپور کے ساتھ کام

نوے کی دہائی میں جب پاکستانی اداکار بھارت میں کام کرنے کے خواہش مند تھے، حسینہ معین نے سرحد پار ایک نہیں بلکہ متعدد پراجیکٹس میں کام کیا۔

سال 1991 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘حنا’ کے مکالمے حسینہ معین نے لکھے تھے اور فلم کو بھارت نے اکیڈمی ایوارڈز کے لیے بھی بھیجا تھا۔ بھارتی فلمساز راج کپور نے اپنی زندگی میں اس فلم کے اسکرپٹ کے لیے حسینہ معین کا انتخاب کیا تھا کیوں کہ فلم کی کہانی کشمیر کے گرد گھومتی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ مقامی زبان میں ہی مکالمے ہوں۔

گھر میں کسی لڑکی کو اداکاری کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن حسینہ معین کا نام سن کر میرے والد یحییٰ بختیار نے مجھے اجازت دے دی تھی۔

زیبا بختیار


بعد ازاں اپنے ایک انٹرویو میں حسینہ معین نے بتایا تھا کہ جب 1988 میں راج کپور کی طبیعت بگڑی تو ان کے بڑے بیٹے رندھیر کپور نے انہیں بھارت آنے کی دعوت دی تاکہ ان کے والد کی طبیعت اپنی نامکمل فلم کی مصنفہ کو دیکھ کر بہتر ہو جائے۔ حسینہ معین کے بقول انہوں نے بھارت جانے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ کہیں ان کی موجودگی سے راج کپور کو ایسا نہ لگے کہ ان کی نامکمل فلم اب کبھی نہیں بن سکے گی اور کہیں ان کی طبیعت مزید بگڑ نہ جائے۔

فلم ‘حنا’ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ زیبا بختیار نے ان کے ساتھ ڈرامہ سیریل ‘تان سین’ میں بھی کام کیا تھا۔

زیبا بختیار کہتی ہیں ان کے گھر میں کسی لڑکی کو اداکاری کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن حسینہ معین کا نام سن کر ان کے والد یحییٰ بختیار نے انہیں اجازت دے دی تھی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زیبا بختیار نے کہا کہ حسینہ معین سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ لیکن انہیں مزید بہت کچھ سیکھنا تھا جس کی وقت نے انہیں مہلت نہیں دی۔

زیبا بختیار نے بتایا کہ فلم ‘حنا’ میں ان کی کاسٹنگ کے لیے حسینہ معین ہی نے ہدایت کار رندھیر کپور سے بات کی تھی۔

"جس وقت مجھے ‘حنا’ میں کاسٹ کیا گیا، میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے حسینہ آپا کا ڈرامہ ‘تان سین’ کر رہی تھی۔ بھارت جاکر کام کرنے کی اجازت ملنا مشکل تھی۔ لیکن حسینہ معین کی وجہ سے اجازت بھی ملی اور فلم کا سفر یادگار بھی بن گیا۔”

زیبا بختیار کے بقول حسینہ آپا میں ایک ایسی معصومیت تھی جو انہیں دوسروں سے مختلف بناتی تھی۔

"ایک طرف انہوں نے فلم ‘حنا ‘کے جان دار مکالمے لکھے تو دوسری جانب وہ شوٹنگ ختم ہونے کی منتظر رہتی تھیں تاکہ جلد بازار جائیں اور وہاں سے چاندی کی چوڑیاں، بالیاں اور پازیب خریدیں۔”

زیبا بختیار کے بقول حسینہ معین کے ڈراموں سے پاکستان میں ایک ‘سوشل چینج ‘ آیا جس میں خواتین کو مضبوط کردار ملے اور انہیں مردوں کے برابر کام کرتا دکھایا گیا۔

"جس وقت ‘کرن کہانی’ نشر کیا گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری والدہ اور ان کی سہیلیاں حیرت سے ڈرامہ دیکھتی تھیں جس میں ایک لڑکی کی بیک وقت تین لوگوں سے منگنی ہوتی ہے اور انہیں یہ ڈراما پسند بھی آتا تھا۔”

حسینہ معین نے دو بھارتی ڈرامے بھی لکھے جن میں دور درشن میٹرو کا ڈرامہ ‘کشمکش ‘اور اسٹار پلس کا ڈرامہ ‘تنہا’ شامل تھا۔ 1995 میں نشر ہونے والے ‘کشمکش ‘میں مرکزی کردار معروف بھارتی اداکار جاوید جعفری اور سچیترا کرشنا مورتی نے ادا کیے تھے جب کہ اداکار علی خان بھی اس ڈرامے کی کاسٹ کا حصہ تھے۔

‘تنہا’ میں بھارتی اداکارہ سشما سیٹھ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈرامے میں پاکستانی اداکار ساجد حسن اور مرینہ خان نے بھی اداکاری کی۔

حسینہ معین کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنے کی حامی اس لیے بھری تھی کیوں کہ وہاں کے مسلمان پاکستانی ڈراموں سے متاثر تھے۔

‘تنہا ‘کے مسلمان پروڈیوسر نوید انتولن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ بھارتی فلموں میں مقامی مسلمانوں کی ترجمانی درست نہیں ہوتی۔ ہر مسلمان بھارت میں پان نہیں کھاتا اور نہ ہی اس کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہوتا ہے۔ ان ڈراموں کے ذریعے بھارت کے مسلمان گھرانوں کے مسائل اجاگر کیے گئے جس کی وجہ سے یہ ڈرامے بے حد مقبول ہوئے۔

دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں پر ڈرامے

حسینہ معین نے کریئر کے آخری دنوں میں کم ڈرامے لکھے۔ آخری برسوں میں انہوں نے زیادہ تر کام ذوالفقار شیخ کی پروڈکشن کمپنی کے ساتھ کیا۔ ان کے آخری دہائیوں کے ڈراموں کی زیادہ تر کہانیاں دیارِ غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان کے ڈرامے ‘دیس پردیس’، ‘آنسو’ اور ‘دی کاسل، ایک امید’ کو لوگوں نے خاصا پسند کیا۔

حسینہ معین اور ذوالفقار شیخ (فائل فوٹو)
حسینہ معین اور ذوالفقار شیخ (فائل فوٹو)

حسینہ معین نے اپنا آخری بڑا پراجیکٹ فلم ‘سچ’ بھی ذوالفقار شیخ کے ساتھ کیا۔ جس میں نئے اداکاروں کو متعارف کرایا گیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ذوالفقار شیخ کا کہنا تھا کہ حسینہ آپا ایک نفیس، خوش مزاج اور کسی کو دکھ نہ دینے والی خاتون تھیں جو ہمیشہ ہنستی رہتی تھیں۔ وہ ہر کسی سے پیار سے پیش آتی تھیں اور سب کو اپنا بھائی، بہن اور بچہ بنا لیتی تھیں۔

ذوالفقار شیخ کے بقول حسینہ معین کے ڈراموں میں نہ تو کوئی کردار کوئی غلط کام کر سکتا تھا او ر نہ ہی وہ کسی کو مرنے دیتی تھیں۔

"ہم جب ڈراموں میں کسی کردار کو بیمار یا مرتا ہوا دکھانے کی بات کرتے تھے تو حسینہ آپا اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے ڈرامے میں کوئی نہیں مرے گا۔ نہ ہی کسی کے ساتھ کچھ برا ہوگا۔ کسی کو دکھ نہ دینے کی ان کی یہ عادت انہیں لوگوں میں مزید مقبول کر دیتی تھی۔”

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔