کراچی —
پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئندہ ماہ شروع ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے ٹیم کو نیشنل ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں میگا ایونٹ کی تیاریوں کو موقع فراہم کیا ہے۔
کھلاڑیوں کو یہ موقع ایسے وقت ملا ہے جب نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان کے خلاف سیریز منسوخ کر دی تھی جس سے گرین شرٹس کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں کو دھچکا لگا ہے۔
اٹھارہویں نیشنل ٹی ٹوئنٹی کا باقاعدہ آغاز جمعرات کو ناردرن اور بلوچستان کی ٹیموں کے درمیان پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں میچ سے ہو گا۔ اس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 33 میچز کھیلے جائیں گے۔
ایونٹ دو مرحلوں میں ہوگا جس میں پہلا مرحلہ 23 ستمبر سے تین اکتوبر کے درمیان راولپنڈی اور دوسرا چھ اکتوبر سے 13 اکتوبر کو لاہور میں کھیلا جائے گا۔
ایونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے پاکستان اسکواڈ میں جگہ بنانے والے تمام کھلاڑی اس میں جلوہ گر ہوں گے۔ وہ کھلاڑی جو میگا ایونٹ کے لیے ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے وہ بھی اچھی کارکردگی دکھا کر سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرسکیں گے۔
اس سے قبل یہ ٹورنامنٹ 30 ستمبر سے 18 اکتوبر کے درمیان ملتان میں کھیلا جانا تھا۔ لیکن نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کے بعد اسے انہی تاریخوں پر کرانے کا فیصلہ کیا، جن پر انٹرنیشنل میچز ہونا تھے۔
خیبر پختونخوا کی ٹیم ٹائٹل کا دفاع کرے گی
پاکستان میں نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ مختلف ناموں سے سن 2005 سے کھیلا جارہا ہے لیکن گزشتہ دو سیزن نئے فارمیٹ کے تحت ہوئے ہیں جس میں ملک بھر سے چھ بہترین ٹیمیں ٹرافی کے لیے مدِ مقابل ہوتی ہیں۔
گزشتہ دو برس کی طرح اس بار بھی بلوچستان، سینٹرل پنجاب، سدرن پنجاب، خیبر پختونخوا، ناردرن اور سندھ کی ٹیمیں ایونٹ میں مدِ مقابل ہوں گی۔
سن 2019 میں کھیلا گیا ایونٹ عماد وسیم کی قیادت میں ناردرن نے جیتا تھا جب کہ گزشتہ برس محمد رضوان کی شاندار کارکردگی کی بدولت خیبر پختونخوا کی ٹیم ٹرافی لے جانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یوں اس بار محمد رضوان کی ٹیم ایونٹ کی دفاعی چیمپٔن ہونے کے ساتھ ساتھ فیورٹ بھی ہو گی۔
ماضی کے فارمیٹ کی اگر بات کی جائے تو اس میں سب سے کامیاب ٹیم سیالکوٹ اسٹالینز کی رہی تھی جس نے چھ مرتبہ یہ ایونٹ جیتا تھا۔ لاہور لائنز نے تین اور پشاور پینتھرز کی ٹیموں کو دو مرتبہ چیمپٔن رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ لاہور وائٹس، لاہور بلیوز، کراچی بلیوز، اور فیصل آباد وولوز ایک ایک بار ایونٹ کی فاتح رہ چکی ہیں۔
📢 The six squads for National T20 (2021-2022) announced! 📢 More details ➡️ https://t.co/4EX0PhGhBi#HarHaalMainCricket | #NationalT20Cup pic.twitter.com/0FeYyZAknA— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) September 20, 2021
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم سینٹرل پنجاب کی قیادت کریں گے۔ نائب کپتان شاداب خان ناردرن، سابق کپتان سرفرز احمد سندھ ، ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان محمد رضوان خیبر پختونخوا، صہیب مقصود سدرن پنجاب اور امام الحق بلوچستان کی قیادت کریں گے۔
پی سی بی نے آئندہ ماہ ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے 15 رکنی اسکواڈ کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا لیکن نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ میگا ایونٹ کے لیے اسکواڈ میں جگہ بنا سکتے ہیں۔
محمد رضوان کی خیبرپختونخوا
دفاعی چیمپٔن خیبر پختونخوا کی قیادت محمد رضوان کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی نیشنل ٹیم کے دو کامیاب کھلاڑی محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی اس ٹیم کا حصہ ہیں جب کہ پاکستان کی جانب سے وائٹ بال کرکٹ میں سب سے بڑی اننگز کھیلنے والے فخر زمان بھی اسی ٹیم میں شامل ہیں۔
گو کہ فخر زمان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے منتخب کردہ ٹیم میں متبادل کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ لیکن ایونٹ میں بہترین کارکردگی انہیں فائنل الیون میں جگہ دلا سکتی ہے۔
ان کے برعکس افتخار احمد کے لیے یہ ایونٹ کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا کیوں کہ ان کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھنے کے باوجود وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے 15 رکنی اسکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
حال ہی میں کشمیر پریمئیر لیگ کے فائنل میں فیصلہ کن اوور پھینک کر راولاکوٹ ہاکس کو کامیابی دلانے والے آصف آفریدی، پاکستان کے لیے ڈیبیو کرنے والے محمد وسیم جونئیر اور نیشنل ٹیم کا حصہ بننے والے ارشد اقبال کی موجودگی سے بھی دفاعی چیمپٔن کو فائدہ ہوگا۔
دوسری جانب گزشتہ سال کی رنرز اپ سدرن پنجاب کی قیادت میں تبدیلی ہوئی ہے۔ شان مسعود کی جگہ صہیب مقصود کپتانی کے فرائض انجام دیں گے۔ ان کے پاس اگر عامر یامین جیسا منجھا ہوا آل راؤنڈر ہے تو دلبر حسین اور محمد الیاس جیسے فاسٹ بالرز بھی ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Sohaib Maqsood will lead Southern Punjab in the upcoming edition of the National T20 Cup.18-year-old spin prodigy Faisal Akram is also part of the squad. What do you make of this squad?#CricketTwitter pic.twitter.com/d2kjRC7Doe— Grassroots Cricket (@grassrootscric) September 20, 2021
اس ایونٹ کے ذریعے اعظم خان اور خوشدل شاہ کو بھی اپنا لوہا منوانے کا موقع ملے گا۔ یہ دونوں کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اسکواڈ کا حصہ ہیں اور اگر وہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو گئے تو امکان ہے کہ ان کی سلیکشن پر ہونے والی تنقید ختم ہوجائے گی۔
گزشتہ سیزن کی سیمی فائنلسٹ سندھ اور ناردرن بھی اس سال بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گی۔ سندھ کی ٹیم کی قیادت پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد کریں گے جنہیں حال ہی میں قومی ٹیم سے ڈراپ کیا گیا تھا۔
مایہ ناز آل راؤنڈر انور علی ان کے نائب ہوں گے جب کہ شرجیل خان جیسے سینئر بلے باز کی موجودگی سے ٹیم کو فائدہ ہوگا۔ شان مسعود اس بار سدرن پنجاب کی جگہ سندھ الیون کا حصہ ہوں گے جب کہ انجری سے صحت یاب ہونے والے رومان رئیس بھی اسکواڈ کا حصہ ہیں۔
نوجوان کھلاڑیوں دانش عزیز، سعود شکیل، محمد حسنین، شاہنواز داہانی اور زاہد محمود کی اسکواڈ میں موجودگی سے بھی سرفراز احمد خوب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں اب تک سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے خرم منظور بھی سندھ کی ٹیم میں شامل ہیں۔
اس بار ناردرن کی قیادت عماد وسیم کی جگہ شاداب خان کریں گے جب کہ محمد نواز ان کے نائب ہوں گے۔ اس ٹیم میں جہاں کئی سینئرز کھلاڑی موجود ہیں وہیں کئی ابھرتے ہوئے جونئیرز بھی اپنا ہنر دکھانے کے لیے بے تاب ہوں گے۔
ناردرن کے اسکواڈ میں جہاں انڈر 19 ٹیم کے سابق کپتان و وکٹ کیپر بلے باز روحیل نذیر ہیں، وہیں جارح مزاج حیدر علی بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔
اردرن کے اسکواڈ میں جہاں انڈر 19 ٹیم کے سابق کپتان و وکٹ کیپر بلے باز روحیل نذیر ہیں، وہیں جارح مزاج حیدر علی بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔
فاسٹ بالر حارث روؤف، محمد موسیٰ اور زمان خان بھی اسی ٹیم میں شامل ہیں جب کہ دو سال قبل ایونٹ جیتنے والے کپتان عماد وسیم اس بار ایک کھلاڑی کی حیثیت سے ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
ناردرن کی ٹیم میں شامل آصف علی کے پاس سنہری موقع ہوگا کہ وہ اپنے ناقدین کو خاموش کرا سکیں۔ لیکن اگر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اسکواڈ میں ان کی جگہ خطرے میں پڑسکتی ہے۔
آخر میں بات ان دو ٹیموں کی جو گزشتہ سال ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ نہیں بنا سکی تھیں۔ نیشنل ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی سینٹرل پنجاب اور امام الحق کی بلوچستان۔ اس بار سینٹرل پنجاب کی ٹیم میں اسٹارز کی بھرمار ہے اور امکان ہے کہ وہ پچھلے سال کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔
بابر اعظم کی قیادت میں ٹیم کی بیٹنگ اور بالنگ دونوں ہی مضبوط نظر آرہی ہیں، ایک طرف عبداللہ شفیق کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ سلیکٹرز کو اپنی جانب متوجہ کریں وہیں احمد شہزاد بھی کشمیر پریمیئر لیگ میں بہترین کارکردگی کو دہرانے کی کوشش کریں گے۔
سینئر کھلاڑی محمد حفیظ اور شعیب ملک مڈل آرڈر کو مضبوط بنائیں گے جب کہ آل راؤنڈرز حسن علی، فہیم اشرف اور حسین طلعت دہرے ٹیلنٹ کی وجہ سے ہر شعبے کے لیے آئیڈیل ہوں گے۔
قومی ٹیم سے باہر لیکن متبادل کھلاڑیوں کی فہرست میں موجود عثمان قادر کے پاس اس سے اچھا موقع نہیں ہوگا کہ وہ اپنے کپتان اور سلیکٹرز کو متاثر کریں۔ یہی کچھ وہاب ریاض بھی کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان کی ٹیم نے اس مرتبہ حارث سہیل کی جگہ امام الحق کو کپتان مقرر کیا ہے جو نائب کپتان بسم اللہ خان کے ہمراہ اننگز کا آغاز کریں گے۔ قومی ٹیم سے باہر حارث سہیل اور جنید خان کے پاس سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے جب کہ یاسر شاہ پرفارم کرکے اپنی کھوئی ہوئی فارم واپس بحال کرسکتے ہیں۔
نیشنل ٹی ٹوئنٹی ریکاڑدز کے آئینے میں
اس وقت نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کا سب سے کامیاب بلے باز خرم منظور اس بار سندھ کی ٹیم میں ہے۔ ٹورنامنٹ کی تاریخ میں وہ اب تک چار سینچریوں کی مدد سے 2643 رنز بنا چکے ہیں۔
ایونٹ میں دو ہزار سے زائد رنز بنانے والوں میں کامران اکمل، (2377)، شعیب ملک (2217) اور عمر امین (2047) شامل ہیں۔ محمد حفیظ (1991) اور صہیب مقصود (1883) کے ساتھ اس سنگ میل کے قریب ہیں۔
حیران کن طور پر کوئی بھی بالر بالر ایونٹ کے 17 برسوں میں 100 وکٹیں حاصل نہیں کرسکا۔ سعید اجمل آج بھی 89 وکٹوں کے ساتھ ٹاپ بالر ہیں جب کہ وہاب ریاض (81) اور انور علی (79) وکٹوں کے ساتھ اس ریکارڈ سے قریب ہیں۔
اگر محمد حفیظ اس ایونٹ میں ایک وکٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایک ہزار رنز اور پچاس وکٹیں لینے والے پہلے آل راؤنڈر بن جائیں گے۔
ایونٹ میں سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ فی الحال صہیب مقصود کے پاس ہے جنہوں نے گزشتہ سیزن میں 20 چھکے مار کر اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچایا تھا۔ جارح مزاج آصف علی 86 چھکوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
ایک ریکارڈ جو اب بھی ٹوٹنے کا منتظر ہے وہ خوشدل شاہ کا ہے جنہوں نے گزشتہ ایڈِشن میں 35 گیندوں پر سینچری کی تھی۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ عمر اکمل کے پاس تھا جنہوں نے 43 گیندوں پر سو رنز بنائے تھے۔
بالنگ میں آف اسپنر عرفان الدین کا 25 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ 15 سال بعد آج بھی قائم ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ
کراچی ڈولفنز کی نمائندگی کرتے ہوئے سیالکوٹ اسٹالینز کے خلاف سر انجام دیا تھا۔