شوبز فلمی جائزے

مہیش بھٹ کی فلم نے پروین بابی کا کریئر کیسے ختم کیا؟

Written by ceditor

ستر اور اسی کی دہائی میں بالی وڈ پر راج کرنے والوں میں اداکارہ پروین بابی بھی شامل تھیں جنہوں نے نہ صرف اپنی اداکاری سے کئی فلموں کو یادگار بنایا بلکہ مغربی انداز اپنا کر آنے والی اداکاراؤں کے لیے نئی راہیں کھولیں۔کراچی —

سن 1973 میں جب پروین بابی نے فلموں میں ڈیبیو کیا تو اس وقت ہندی سنیما میں صرف ولن کی ساتھی خواتین ہی مغربی لباس پہنتی تھیں یا انہیں سگریٹ پیتے دکھایا جاتا تھا۔ تاہم پروین بابی اور زینت امان دونوں نے اپنے انداز سے بالی وڈ میں ماڈرن ہیروئن کو متعارف کیا۔

یہی وجہ تھی کہ سن 1976 میں معروف امریکی جریدے ‘ٹائم’ نے ایشائی فلم انڈسٹری پر ایک مضمون چھاپا تو اس کے سرورق کے لیے پروین بابی کا انتخاب کیا۔

لیکن، دیوار، مجبور، امر اکبر انتھونی، کالا پتھر اور دیش پریمی جیسی فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ نے صرف 10 سال تک ہی بالی وڈ پر راج کیوں کیا؟

بائیس جنوری 2005 میں 55 سالہ پروین بابی ممبئی میں اپنے فلیٹ پر مردہ پائی گئی تھیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان کی موت کی وجہ ذہنی اور جسمانی بیماریاں قرار پائیں تھیں۔

ان کی موت کے 15 سال بعد سن 2020 میں مصنفہ کرشمہ اوپاڈھیائی کی کتاب ‘پروین بابی: اے لائف’ منظرِ عام پر آئی جس میں اداکارہ کے فنی کریئر اور نجی زندگی پر بات کی گئی۔ کتاب میں ان معاملات کو بھی سامنے لایا گیا جن کی وجہ سے بالی وڈ ایک کامیاب اداکارہ سے محروم ہو گیا۔

مصنفہ نے اس بائیوگرافی کے لیے پروین بابی کے قریبی ساتھیوں سے گفتگو بھی کی اور اداکارہ کے کئی انٹرویوز بی پڑھے۔

ان کے مطابق پروین بابی سکٹزوفرینیا کے مرض کا شکار تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے فلموں سے متعدد مرتبہ بریک لیا اور 1983 میں لیا جانے والا بریک ان کا آخری ثابت ہوا۔

اس کتاب کے مطابق اداکارہ نے اپنے کریئر کے دوران جتیندر، دھرمیندر، رشی کپور، ششی کپور اور راجیش کھنہ جیسے اسٹارز کے ساتھ تو کام کیا لیکن امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی جوڑی کو خوب پذیرائی ملی۔

البتہ امیتابھ بچن سے پروین بابی کا یکطرفہ لگاؤ ہی ان کے زوال کا باعث بنا کیوں کہ ان کے خیال میں امیتابھ بچن نے فلم ‘سلسلہ’ سے انہیں باہر کر کے ان سے دشمنی مول لی جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک ساتھی اداکار کے خلاف رہیں۔

کون سی وجوہات پروین بابی کی بالی وڈ میں انٹری کا سبب بنیں؟

چار اپریل 1949 کو بھارتی ریاست جوناگڑھ میں پیدا ہونے والی پروین بابی کا تعلق نواب آف جوناگڑھ کےخاندان سے تھا لیکن انہوں نے فلموں میں انٹری کے لیے خاندان کو کبھی استعمال نہیں کیا۔

ان کی بائیوگرافی کے مطابق والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے ان کی دیکھ بھال کی اور جوناگڑھ سے احمدآباد جاکر پڑھائی کی اجازت بھی انہیں صرف اس شرط پر ملی تھی تاکہ وہ گریجویشن کے بعد واپس آکر شادی کر لیں۔

سن 1969 میں ان کی قریبی رشتہ دار جمیل سے منگنی بھی ہوئی جو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن میں پائلٹ تھے اور ان کے گھر والے قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

پروین بابی اپنے کالج کی چھٹیوں کے دوران 1969 میں کراچی آئی تھیں جہاں ان کی اور جمال کی منگنی کی تقریب میں ان کے متعدد رشتہ داروں نے شرکت کی تھی اور امکان تھا کہ دونوں بہت جلد رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں گے۔

تاہم 1971 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس کے بعد ان کی ولدہ نے اس منگنی کو توڑ دیا اور پروین کو اس کے بارے میں ایک خط کے ذریعے مطلع کر دیا۔

اس کتاب میں درج ہے کہ یہی پروین کی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کو خیر خواہ ماننے سے انکار کر دیا۔

پروین نے سرِعام سگریٹ نوشی کا آغاز تو پہلے ہی کر دیا تھا لیکن اس واقعے کے بعد وہ کھلم کھلا مغربی لباس بھی پہننے لگیں جسے اُس زمانے میں برا سمجھا جاتا تھا۔

‘پروین بابی: اے لائف’ کی مصنفہ کے بقول پروین بابی نے پہلے کالج میں اداکاری کی پھر انہیں ماڈلنگ کی آفر ہوئی جسے انہوں نے فوراً قبول کرلیا۔ اس کی بڑی وجہ ان کی والدہ کی جانب سے کم جیب خرچ بھیجنا بھی تھا جس سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں۔

گوکہ پروین بابی کی پہلی فلم ‘چریترا’ 1973 میں ریلیز ہو کر ناکام ہوئی لیکن کئی ہدایت کار ان کی اداکاری سے کافی متاثر ہوئے جس میں اداکار سنجے خان بھی شامل تھے۔ تاہم ان کے بڑے بھائی اداکار فیروز خان ‘بھابی’ کو کاسٹ کرنے پر انہیں چھیڑتے تھے۔

سن 1974 میں ہدایت کار روی ٹنڈن کی فلم ‘مجبور’ پروین بابی کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی جس میں انہوں نے پہلی بار امیتابھ بچن کے ساتھ کام کیا۔

بعد ازاں یش چوپڑا کی فلم ‘دیوار’ سے ان کا بیڈ گرل کا امیج مقبول ہوا جس کے بعد ان کا موازنہ ساتھی اداکارہ زینت امان سے کیا جانے لگا۔

کریئر کے آخری دنوں میں انہوں نے زینت امان کے ساتھ ‘اشانتی’ اور ‘مہان’ جیسی فلموں میں بھی کام کیا لیکن اس سے قبل ایک انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ڈانس سے انہیں خوف آتا ہے لیکن اگر زینت ڈانس کر سکتی ہے تو وہ بھی کرسکتی ہیں۔

‘پروین بابی: اے لائف’ میں اداکارہ کے فلمی کریئر کے ساتھ ساتھ ان کی نجی زندگی پر بھی کافی بات ہوئی۔

ایک جانب مصنفہ نے اداکارہ کے لائف اسٹائل پر بات کی تو دوسری طرف اداکار ڈینی ڈینزونگپا، کبیر بیدی اور مہیش بھٹ سے ان کے تعلقات کی تفصیلات بھی کتاب میں شامل کیں۔

مصنفہ نے ہدایت کار پرکاش مہرا کے ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ پروین بابی فلم ‘نمک حلال’ کے گانے ‘رات باقی بات باقی’ کی شوٹنگ کے دوران اسکرین پر نظر آنے والے غنڈوں سے ڈر گئی تھیں اور بضد تھیں کہ یہ انہیں قتل کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

مہیش بھٹ کی فلم نے پروین بابی کا کریئر کیسے ختم کیا؟

پروین بابی کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے بالی وڈ میں ‘لیو ان’ یعنی بغیر شادی کے کسی کے ساتھ رہنے کا رواج ڈالا۔

ان کے پہلے بوائے فرینڈ ساتھی اداکار ڈینی ڈین زونگپا تھے جب کہ بعد میں ان کا نام اداکار کبیر بیدی اور ہدایت کار مہیش بھٹ کے ساتھ بھی جوڑا گیا۔

تاہم مصنفہ کے مطابق 70 کی دہائی میں اطالوی منی سیریز ‘سندوکن’ کی مقبولیت کے بعد پروین بابی جب کبیر بیدی کے ہمراہ یورپ کے دورے پر گئیں تو وہاں انہیں خاص پذیرائی نہیں ملی اور یہیں سے ان کی وہ عادتیں سامنے آنے لگیں جس کی وجہ سے ان کا کریئر جلد ختم ہو گیا۔

ایک انٹرویو میں کبیر بیدی نے بتایا کہ پُرکشش ترین اداکاراؤں میں سے ایک سمجھی جانے والی انٹرنیشنل اسٹار جینا لولوبریجیڈا نے جب ان کے اعزاز میں ایک دعوت رکھی تو پروین بابی کو میزبان کے ساتھ ڈانس کرنا اچھا نہیں لگا۔

بعد میں انہوں نے کبیر بیدی کو ڈانس فلور پر ہی الٹی میٹم دیا کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں دعوت چھوڑ کر جانا پڑے گا اور کبیر بیدی کے بقول انہوں نے ایسا کر کے اپنی میزبان کو ناراض کیا۔

کتاب کے مطابق پروین بابی اسکینڈلز سے نہیں ڈرتی تھیں لیکن اکیلے پن سے ان کا دل گھبراتا تھا۔ ڈینی اور کبیر بیدی سے بریک اپ کے بعد مہیش بھٹ ان کی زندگی میں آئے جس کی وجہ سے ان کے کریئر اور زندگی دونوں میں ٹہہراؤ آیا۔

مصنفہ کے مطابق یہی وہ دور تھا جب پروین بابی کی ذہنی بیماری کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔

مہیش بھٹ کے ایک پرانے انٹرویو میں انہوں نے اس شام کا ذکر کیا جب پروین بابی کی والدہ جمال نے مہیش بھٹ سے درخواست کی کہ وہ پروین کو جا کر سنبھالیں۔

مہیش بھٹ کے بقول جب وہ کمرے میں داخل ہوئےتو وہاں پروین ایک چاقو تھامے کونے میں ڈری سہمی بیٹھی تھیں اور بار بار دہرا رہی تھیں کہ انہیں قتل کرنے کے لیے کچھ افراد آ رہے ہیں جو ان کے اوپر فانوس گرا دیں گے۔

اس واقعے کے بعد مہیش بھٹ کو ڈاکٹر نے بتایا کہ پروین بابی سکیٹزوفرینیا کا شکار ہو سکتی ہیں لیکن اداکارہ نے علاج کے لیے صاف منع کر دیا تھا۔ انہیں صرف فلاسفر یو جی کرشنامورتی پر اعتماد تھا جن کے کہنے پر وہ دوا بھی لیتی تھیں اور آرام بھی کرتی تھیں۔

مہیش بھٹ کا کہنا تھا کہ جب پروین بابی نے انہیں الٹی میٹم دیا کہ وہ یو جی اور ان میں سے کسی ایک کو چنیں تو مہیش بھٹ نے یوجی کو چنا جس کی وجہ سے دونوں کے تعلقات ختم ہو گئے۔

اپنے بریک اپ کے بعد جب مہیش بھٹ نے ان تجربات کو فلم ‘ارتھ’ میں پیش کیا تو مصنفہ کے بقول اس سے پروین بابی کو بہت دکھ پہنچا۔

اس فلم میں اداکارہ سمیتا پاٹیل نے مبینہ طور پر پروین بابی کا کردار ادا کیا تھا۔

ان کے مطابق مہیش بھٹ کے منع کرنے کے باوجود اداکارہ نے یہ فلم دیکھی اور اس سے اتنی بری طرح متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ہمیشہ کے لیے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

‘امیتابھ بچن مجھے مارنا چاہتا ہے، مجھے کھانے میں زہر دیا جاتا ہے’

نومبر 1989 میں جب پروین بابی نے بالآخر بھارت واپس آنے کا فیصلہ کیا تو انہیں ایئرپورٹ پر لینے کے لیےجانے والوں نے پہنچاننے سے انکار کر دیا۔ ان کا وزن بڑھ چکا تھا اور انہیں ان کے مینیجر صرف اس طرح پہچان سکے تھے کیوں کہ وہ اپنے نام کا بورڈ پکڑی ہوئی تھیں۔

اپنی واپسی کے بعد انہوں نے فلموں سے مکمل طور پر دوری اختیار کی اور پرانے دوستوں سے ملنے سے انکار کر دیا۔ جو بھی ان سے ملتا وہ ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو جاتا تھا۔

کبھی وہ امریکی انٹیلی جینس ایجنسی کو اپنی اس حالت کا ذمے دار قرار دیتیں تو کبھی سپر اسٹار امیتابھ بچن کو، جنہیں وہ فلم ‘سلسلہ’ سے نکالے جانے پر اپنا دشمن سمجھ بیٹھی تھیں۔

اسی کی دہائی میں سائز زیرو کی وجہ سے شہرت پانے والی اداکارہ آخری دنوں میں صرف دودھ اور انڈے کی ڈائٹ پر اس لیے آگئی تھیں کیوں کہ انہیں شک تھا کہ ان کے کھانے میں امیتابھ بچن یا ان کے سہولت کار زہر ملا کر دیتے ہیں۔

مصنفہ نے ان کے آخری دنوں کے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی بات کی جن کے بقول پروین اداکاری کے بعد انٹیریئر ڈیزائننگ کی جانب آئی تھیں لیکن دماغی حالت درست نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی نے بھی کام نہیں دیا جس کا انہیں افسوس ہوا۔

کتاب کے مطابق زندگی کے آخری حصے میں پروین بابی مذہب تبدیل کر کے عیسائی ہو گئی تھیں لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی تدفین اسلامی عقائد کے مطابق ہوئی تھی کیوں کہ ان کے رشتہ داروں نے اس مذہب کی تبدیلی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کے جنازے میں صرف ان کے تین سابق بوائے فرینڈرز اداکار ڈینی ڈینزونگپا، کبیر بیدی اور ہدایت کار مہیش بھٹ شریک ہوئے تھے۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor