راچی —
بچپن میں ایک حادثے کے باعث میڈیم نور جہاں کا دایاں کان ناکارہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک ہیڈ فون لگا کر کے گانا ریکارڈ کراتی تھیں البتہ کئی گلوکار ان کی دیکھا دیکھی ایک کان میں ہیڈ فون لگا کر گانا ریکارڈ کرانے لگے۔
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فن کار جب لیجنڈ بنتا ہے تو کس طرح وہ اس فن کے لیے ایک مثال اور معیار بن جاتا ہے۔ یہ واقعہ نور جہاں پر شائع ہونے والی ایک کتاب ‘کہاں تک سناؤں’ میں شامل ہے جو ان کے ایک طویل انٹرویو پر مشتمل ہے۔
نور جہاں کا انتقال 23 دسمبر 2000 میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی نور جہاں کی مدھر اور کانوں میں رس گھولتی آواز ان کے مداحوں کے دل و دماغ میں زندہ ہے۔
میڈم نور جہاں کی زندگی اور شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ ان کے گیتوں کی عوامی مقبولیت اور پذیرائی نے انہیں فن گائیکی کی دنیا میں ’ملکۂ ترنم‘ بنایا۔
اس صدی میں ہوش سنبھالنے والوں کے لیے آج بھی یہ بات باعثِ حیرت ہو کہ میڈم نور جہاں اپنے زمانے کی صفِ اول اداکارہ بھی تھیں۔
ملکہ ترنم کا یہ طویل انٹرویو صحافی وسیم اکبر نے 1972 اور 1973 میں ہفت روزہ ‘پیمان’ میں سلسلہ وار شائع کیا تھا۔ اس انٹرویو میں ملکہ ترنم نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کھل کر بات کی تھی۔
اپنے اس طویل انٹرویو میں نور جہاں نے اپنی ذاتی زندگی اور اپنے فنی سفر کے آغاز سے متعلق ایسے انکشافات کیے ہیں جو عام قارئین کے ساتھ ساتھ میڈم کے بہت سے چاہنے والوں کے لیے بھی حیران کن تھے۔
اس کا اندازہ اس بات بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان انکشافات پر میڈم نور جہاں کے پہلے شوہر شوکت حسین رضوی نے میگزین پر ہتکِ عزت کا دعوٰی دائر کر دیا تھا جس کے بعد نور جہاں نے تو اس بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن شوکت رضوی نے سینئر صحافی منیر احمد منیر کی مدد سے ‘نور جہاں اور میں’ کے عنوان سے پورا ایک کتابچہ تیار کرایا تھا۔
اس میں سعادت حسن منٹو کے لکھے گئے خاکے ‘نورجہاں، سرور جہاں’ کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔
نور جہاں نے اپنے انٹرویو میں کن رازوں سے پردہ اٹھایا؟
نور جہاں کے انٹرویو پر مبنی کتاب ‘کہاں تک سنو گے’ میں ملکہ ترنم نے اپنے پہلے شوہر شوکت حسین رضوی پر خوب تنقید کی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ شادی سے قبل وہ بھارت کی صفِ اول کی اداکارہ و گلوکارہ تھیں اس لیے یہ کہنا کہ ان کے پاس پیسہ نہیں تھا، سراسر غلط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 40 کی دہائی میں انہوں نے شوکت حسین رضوی سے محبت کی شادی کی تھی البتہ 15 برس گزرنے کے بعد وہ اداکارہ یاسمین اور دیگر خواتین کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے تو انہیں مجبوراً اپنے بچوں کی خاطر علیحدگی اختیار کرنا پڑی تھی۔
شوکت رضوی نے بعد میں جو کتابچہ شائع کیا تھا اس میں اداکارہ یاسمین اور دیگر اداکاراؤں کے ساتھ نام منسوب کیے جانے کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ حالاں کہ نور جہاں کو چھوڑنے کے بعد انہوں نے یاسمین سے ہی شادی کی تھی۔
میڈم نور جہاں نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ اعجاز درانی سے جب وہ پہلی بار ملیں تو وہ صرف اعجاز تھے۔ وہ اس وقت فلمی دنیا میں آنے کے لیے تگ و دو کررہے تھے۔
نور جہاں کے بقول "انہوں نے اعجاز کو سہارا دیا، ان سے شادی کی لیکن شادی کے بعد اعجاز نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔”
اپنے انٹرویو میں میڈم نے اپنے اور پاکستان کی جانب سے اولین ٹیسٹ سنچری بنانے والے کرکٹر نذر محمد کے معاشقے سے متعلق خبروں کو بھی بے بنیاد قرار دیا تھا۔
‘نذر محمد عاشق نہیں، دوست اور ہمدرد تھے’
نور جہاں کے مطابق چوں کہ نذر محمد موسیقار فیروز نظامی کے چھوٹے بھائی تھے اور خود بھی گانا گایا کرتے تھے اس لیے وہ نذر کو بہت پہلے سے جانتی تھیں۔
نور جہاں کا یہ بھی کہنا تھا کہ نذر محمد ان کے عاشق نہیں، دوست اور ہمدرد تھے۔ جنہوں نے ہر موقع پر ان کا ساتھ دیا۔
ستر کی دہائی میں شائع ہونے والے میڈم نور جہاں کے انٹرویو نے ان خبروں کی بھی تردید کی تھی جس میں ان کا نام ملک کے صدر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس ہوتا ہے کہ ملک کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں بجائے ان کو پذیرائی کے انہیں اسکینڈلز کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔
میڈم کے بقول "اگر وہ کسی اور ملک میں ہوتیں تو کوئی ان کے بارے میں اسکینڈل بنانے کا نہیں سوچتا البتہ پاکستان میں جہاں انہوں نے جنگی ترانے، بے تحاشہ ہٹ نغمے گائے اور فلموں میں کام کیا وہاں کسی پر بھی کیچڑ اچھالا جا سکتا ہے۔‘‘
‘نورجہاں، سرور جہاں’
شوکت حسین رضوی کے کتابچے میں سعادت حسن منٹو کے ایک خاکے کا حوالہ بارہا دیا گیا ہے۔
منٹو نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں فلم انڈسٹری میں بھی کافی وقت گزارا۔
انہوں نے بمبئی اور لاہور کی فلمی صنعت، ہدایت کاروں اور فلمی ستاروں کو قریب سے دیکھا تھا۔
انہوں نے اپنے بے لاگ انداز میں نورجہاں کا ایک خاکہ لکھا تھا جو 1953 میں ’’نورجہاں، سرور جہاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
اس خاکے میں منٹو نے نورجہاں کی شخصیت پر تبصرے کے ساتھ ان کی زندگی سے متعلق کئی دلچسپ حقائق بھی بیان کیے تھے۔
اچار اور ٹھنڈا پانی
عام خیال یہ ہے کہ گانے والے اپنے گلے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اپنی آواز کی حفاظت کے لیے کھٹی اور ٹھنڈی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں لیکن نور جہاں سے متعلق منٹو الگ ہی داستان سناتے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ نور جہاں ریکارڈنگ سے پہلے پاؤ پاؤ بھر اچار کھاتی تھیں اور اس کے بعد برف کا پانی پیتی تھیں جس سے ان کی آواز میں نکھار پیدا ہوتا تھا۔
باورچی خانے میں تصویر
منٹو نے یہ بھی لکھا کہ قیامِ پاکستان سے قبل ایک عدالتی جنگ میں میڈم نورجہاں نے سید شوکت حسین رضوی کو اپنا بھائی بنا لیا تھا اور بعد میں انہی صاحب سے شادی کی۔
ان کے بقول مشہور ہدایت کار کمال امروہوی بھی نورجہاں میں دلچسپی لیتے تھے لیکن میڈم کو ان سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔
انہوں نے اس خاکے میں یہ بھی لکھا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد نورجہاں کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا اور ان پر مر مٹنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔
نور جہاں کی بے پناہ مقبولیت کے بارے میں منٹو نے لکھتے ہیں کہ ’’نور جہاں کے کئی عاشق ہوں گے۔ میں ایسے کئی باورچیوں کو جانتا ہوں جو چولہے کے پاس نورجہاں کی تصویریں لگا کر اپنے صاحبوں اور میموں وغیرہ کا کھانا پکاتے ہیں اور اس کے گائے ہوئے گیت اپنی کن سری آواز میں گاتے ہیں۔‘‘
منٹو کے اس خاکے میں کئی ایسے واقعات کا بھی تذکرہ ہے جن سے لوگوں کی نورجہاں سے والہانہ محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس میں خاکے میں ایک ایسے حجام کی کہانی بھی شامل ہے جس نے نور جہاں کی محبت کا اپنا دعویٰ درست کرنے کے لیے اپنے دوست کو تیز استرا تھما کر کاٹنے کے لیے اپنا ہاتھ پیش کر دیا تھا۔
‘میڈم کو سن کر تلفظ درست کیا’
نور جہاں کا شمار برصغیر کے ان گنتی کے چند فن کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی مہارت کا اثر ان کے ہم عصروں نے بھی قبول کیا۔ چاہے یہ فن اداکاری کا ہو یا گائیکی کا۔
معروف صحافی گنیش انان تھرامان کی کتاب ‘بالی وڈ میلوڈیز’ کے مطابق مشہور بھارتی پلے بیک گلوکارہ لتا منگیشکر نے بھی یہ قبول کیا کہ اپنے کریئر کے آغاز میں انہوں نے نورجہاں کی طرح گانے کی کوشش کی تھی۔
لتا منگیشکر کا کہنا تھا کہ بطور گلوکارہ کریئر کے آغاز سے قبل ہی وہ نور جہاں سے متاثر تھیں کیوں کہ ایک تو ان کا اسٹائل منفرد تھا اور دوسرا ان کی آواز بھی کمال کی تھی۔
لتا منگیشکر کے مطابق کلاسیکل موسیقی میں تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے انہیں اندازہ تھا کہ فلموں میں گلوکاری کے لیے کیا الگ کرنا پڑتا ہے۔
’میں نورجہاں بننا چاہتی تھی‘
ان کے بقول "میں نے پہلی بار نور جہاں کو فلم ‘خاندان’ کے گانوں میں سنا اور ان کی مداح بن گئی۔ جب 1944 میں فلم ‘بڑی ماں’ کی شوٹنگ کے لیے وہ کولہاپور آئیں تو مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا اور میں سارا وقت انہیں دیکھتی ہی رہتی تھی۔”
لتا کہتی ہیں کہ نورجہاں دیدی کو معلوم تھا کہ میں گانا گاتی ہوں اسی لیے روز انہیں گانا بھی سناتی تھی جس کے بعد وہ مجھے دعائیں بھی دیتی تھیں۔
فنِ موسیقی میں لیجنڈ کا درجہ حاصل کرنے والی لتا منگیشکر کہتی ہیں کہ انہوں نے کریئر کے آغاز میں نور جہاں بننے کی کوشش کی کیوں کہ وہ انہیں ہی سب سے بڑی گلوکارہ مانتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ میڈم ہی کو سن کر انہوں نے اپنا اردو کا تلفظ درست کیا اور گانے میں الفاظ کی ادائیگی سیکھی۔
لتا منگیشکر نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ اگر نور جہاں پاکستان نہ جاتیں تو انہیں وہ مقام نہیں ملتا جو انہیں ملا۔ نورجہاں 1947 میں پاکستان گئیں جب کہ لتا کا کہانا ہے کہ انہیں اس کے بھی ایک برس بعد شہرت ملی جو اگر ان کے حصے میں ہوتی تو ویسے بھی انہیں ملتی۔
’نورجہاں دے دو، کشمیر لے لو‘
جب میڈم نورجہاں نے اپنی پہلی فلم ‘خاندان’ میں کام کیا تو ان کی زندگی کے حقیقی ہیرو شوکت رضوی اس فلم کی ہدایت کاری کر رہے تھے۔ جب کہ اسکرین پر ان کے ہیرو معروف اداکار پران تھے جو بعد میں بھارت کی فلم انڈسٹری کے مقبول ولن بھی رہے۔
اپنی سوانح عمری ‘اینڈ پران’ میں اپنی پہلی ہیروئن کا ذکر کرتے ہوئے پران نے لکھا ہے کہ فلم کی شوٹنگ کے وقت ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہدایت کار اور ہیروئن ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور انہیں خوشی ہوئی جب دونوں نے شادی کر کے ایک دوسرے کو اپنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 80 کی دہائی میں نورجہاں نے بھارت کا دورہ کیا تو پاکستان سے روانگی سے قبل 10 بار انہوں نے فون کر کے پوچھا کہ کیا تم مجھے ایئرپورٹ لینے آ رہے ہو؟
پران نے نہ صرف انہیں یقین دلایا کہ وہ ایئرپورٹ پر اپنی پہلی ہیروئن کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے بلکہ اسپیشل بس کے ذریعے جہاز کے پاس بھی پہنچ جائیں گے۔
اپنی کتاب میں پران نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ ایک بار وہ ایک ایسے جہاز میں سفر کر رہے تھے جس میں چند پاکستانی طلبہ بھی موجود تھے۔
پران سے فلموں پر بات کرتے ہوئے ایک لڑکے نے پوچھا کہ کیا کوئی طریقہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے جس پر انہوں نے کہا کہ "نورجہاں دے دو، کشمیر لے لو” اس پر پاکستانی نوجوانوں نے صاف انکار کر دیا۔
‘اکیلے نہ جانا’ کی دھن نورجہاں کے لیے تھی
کچھ عرصہ قبل پاکستان کے معروف موسیقار سہیل رعنا سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا سب سے مقبول گیت میڈیم نورجہاں کے لیے تخلیق کیا تھا۔
سہیل رعنا نے بتایا کہ ’’ایک پارٹی میں کسی نے جب میڈم سے دریافت کیا کہ سہیل رعنا نے ان سے اب تک کوئی گانا کیوں نہیں گوایا تو میڈم نے جواب دیا کہ شاید سہیل رعنا کی دھنوں پر میری آواز نہیں جچتی۔‘‘
اتفاق سے سہیل رعنا وہیں موجود تھے اور انہوں نے میڈم کو بتایا کہ ‘ارمان’ فلم کے مشہور گانے ‘اکیلے نہ جانا’ کے لیے پروڈیوسر وحید مراد اور انہوں نے نور جہاں ہی کا انتخاب کیا تھا چوں کہ ہم دونوں اس وقت اتنے مشہور نہیں تھے اس لیے آپ کے سیکرٹری نے فون پر ہی ٹال دیا تھا۔
اس پر نورجہاں کا کہنا تھا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ فون ‘اکیلے نہ جانا’ کے لیے ہے تو وہ دونوں نوجوانوں کو اپنی مرسڈیز بھیج کر فارم ہاؤس بلا لیتیں جہاں وہ اس وقت موجود تھیں۔
اس واقعے کے بعد میڈیم نور جہاں نے سہیل رعنا کی فلم ‘بادل اور بجلی’ میں دو گانے ‘بنسی بجانے والے’ اور ‘گلیاں گلیاں’ گائے جو بے حد مقبول بھی ہوئے۔
’کسی نے اتنی طویل حکمرانی نہیں کی‘
معروف مزاح نگار اور ٹی وی میزبان انور مقصود نے بھی حال ہی میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میڈم نور جہاں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں میڈم نورجہاں کا نام سب سے اوپر ہو گا۔
انور مقصود کا کہنا تھا کہ ان کی میڈم نورجہاں سے بہت دوستی بھی تھی۔ انہوں نے جتنا عرصہ پاکستانی فلم انڈسٹری پر راج کیا دنیا کی تاریخ میں کسی بھی فلم انڈسٹری پر ایک عورت نے اتنے لمبے عرصے تک حکمرانی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان سے لے کر میڈم نورجہاں کے انتقال تک پاکستان کی فلم انڈسٹری پر میڈم نے راج کیا۔ بھارت کی فلم انڈسٹری کو انہوں نے ایک ایسے وقت چھوڑا تھا جب وہ اپنے کریئر کے عروج پر تھیں۔
انور مقصود کا کہنا تھا کہ پاکستان آ کر انہوں نے لاتعداد فلموں میں کام کیا اور بے شمار ایسے گیت گائے جو امر ہو گئے۔
سچ تو یہی ہے کہ آج ملکۂ ترنم نور جہاں کے فنِ موسیقی کا سفر اور آج تک قائم ان کی مقبولیت کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے فلم موسیقار کے لیے ان کا گایا ہوا نغمہ ’گائے کی دنیا گیت میرے‘ انہی کی داستانِ حیات کا عنوان بن گیا۔