شوبز

لتا اور پاکستان، نور جہاں کی وہ مداح جنہوں نے ملکۂ ترنم سے اُردو تلفظ سیکھ

Written by Omair Alavi

کراچی — 

بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئیں لیکن ان کی آواز اور ان کے گیت انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ وہ بھارت میں تو مشہور تھیں ہی، پاکستان میں بھی ان کی موت کا غم منایا گیا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لتا منگیشکر کے کرئیر میں جہاں بالی وڈ کے ان لوگوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے انہیں بھرپور مواقع دیے، وہیں چند پاکستانیوں کا بھی حصہ ہے جن میں سے چند ایک نے ان کی اس وقت مدد کی جب انہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

یہ پاکستانی کون تھےاور انہوں نے ‘لتا کی مدد کیسے کی؟ یہ جاننے کے لیے اس ماضی میں جانا پڑے گا جس میں ہندوستان متحدتھا اور خیبر سے لے کر بنگال تک ہر جگہ برطانوی حکومت کا راج تھا۔

لتا منگیشکر نے آغاز میں نورجہاں کی طرز پر گلوکاری کی!

سن 1940کی دہائی کے آغاز میں جب لتا منگیشکر نے فلموں میں قدم رکھا تو اس وقت میڈم نورجہاں ہندوستانی فلم انڈسٹری پر راج کررہی تھیں۔ اپنے متعدد انٹرویوز میں لتا منگیشکر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہوں نے آغاز میں "نورجہاں دیدی” کے انداز کو اپنایا تھا۔

دونوں نے فلم ‘بڑی ماں’ میں اداکاری و گلوکاری بھی کی، فلم کی ہیروئن نورجہاں تھیں جب کہ لتا منگیشکر اور ان کی بہن آشا بھوسلے نے فلم میں چھوٹے کردار ادا کیے۔ ‘بڑی ماں 1945 میں ریلیز ہوئی اور دو سال بعد نورجہاں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد لتا منگیشکر کو فلموں میں بطور گلوکارہ مواقع ملنا شروع ہوگئے۔

صحافی گنیش انان تھرامان کی کتاب ‘بالی وڈ میلوڈیز’ میں لتا منگیشکر کا ایک یادگار انٹرویو ہے جس میں انہوں نے میڈم نورجہاں کے حوالے سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا جب نورجہاں فلم ‘بڑی ماں’ کی شوٹنگ کے لیے کولہاپور آئیں تو وہ سارا وقت نورجہاں کو دیکھتی ہی رہتی تھیں۔

"نورجہاں کو معلوم تھا کہ میں گانا گاتی ہوں اسی لیے روز انہیں گانا بھی سناتی تھی جس کے بعد وہ مجھے دعائیں بھی دیتی تھیں۔میں نے نورجہاں دیدی ہی کو سن کر اپنا اردو کا تلفظ درست کیا۔”

آخر میں لتا منگیشکر نے اس تاثر کو رد کیا کہ اگر نورجہاں پاکستان نہ جاتیں تو انہیں وہ مقام نہ ملتا جو انہیں ملا۔ ان کے خیال میں نورجہاں 1947 میں پاکستان گئیں جب کہ انہیں اس کے بھی ایک سال بعد شہرت ملی جو اگر ان کے حصے میں ہوتی تو ویسے بھی ملتی۔

لتا منگیشکر نے ماسٹر غلام حیدر کو اپنا ‘گاڈ فادر’ کیوں قرار دیا؟

لتا منگیشکر جب کم عمر تھیں تو ان کے والد دیناناتھ منگیشکر کا انتقال ہوگیا تھا۔ چونکہ ان کے خاندان کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اس لیے لتا کو فلم نگری میں قدم رکھنا پڑا اور وہاں ان کی مدد ماسٹر غلام حیدر نے کی جو بعد میں پاکستان آگئے تھے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب لتا منگیشکر ایک چھوٹی اداکارہ اور کورس سنگر کے طور پر فلموں میں کام کر رہی تھیں۔ ایسے میں جب کوئی بھی موسیقار انہیں چانس دینے سے کترا رہا تھا تو ماسٹر غلام حیدر نے اپنی فلموں میں ان سے گانے گوائے۔ جس کے بعد متعدد موسیقاروں نے، جن میں نوشاد، شنکر جے کشن اور انیل بسواس قابلِ ذکر ہیں، لتا کو اپنی فلموں میں مواقع دینا شروع کر دیے۔

ایک انٹرویو میں لتا منگیشکر کا کہنا تھا کہ اگر ماسٹر غلام حیدر ان کے لیے دوسروں سے نہ لڑتے تو نہ انہیں وہ اعتماد ملتا جس نے انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور نہ ہی وہ بالی وڈ میں قدم جمانے میں کامیاب ہوتیں۔

لتا منگیشکر نے مہدی حسن کو کیا خطاب دیا؟

سن 1977 میں دہلی میں جب لتا منگیشکر نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن کو پہلی مرتبہ لائیو کنسرٹ میں سنا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ‘لگتا ہے کہ ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔’ وہ پاکستانی گائیک کو ایک بڑا گلوکار مانتی تھیں اور متعدد بار ان کے ساتھ گانے کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی تھیں۔

ان کی یہ خواہش سن 2010 میں اس وقت پوری ہوئی جب انہوں نے مہدی حسن کے ساتھ ایک دوگانا ‘ تیرا ملنا’ ریکارڈ کرایا، اس گانے کی دھن بھی مہدی حسن نے ہی ترتیب دی تھی اور یہ ڈوئیٹ انڈو پاک میوزک البم ‘سرحدیں’ میں ریلیز کیا گیا۔

یہ البم سن 2011 میں مہدی حسن کے انتقال سے ایک سال قبل ریلیز ہواا ور اسے دونوں ملکوں میں پذیرائی ملی۔ پاکستان سے اس البم میں مہدی حسن کے ساتھ ساتھ غلام علی نے بھی گلوکاری کی جب کہ اسے ‘امن کی آشا’ کے بینر تلے ریلیز کیا گیا تھا۔

اس سے قبل لتا نے 1999 میں پاکستانی فلم ‘کچے دھاگے’ کے لیے چار اور 2005 میں عدنان سمیع خان کی کمپوز کی ہوئی فلم ‘لکی، نو ٹائم فور لو’ کے لیے ایک گانا بھی گایاجو کافی مقبول ہوئے۔

لتا منگیشکر نے زیبا بختیار سے ملنے کی خواہش کااظہار کیوں کیا؟

اسی کی دہائی میں بالی وڈ اداکاروہدایتکار راج کپور نے جب فلم ‘حنا’ بنانا چاہی تو انہوں نے کئی پاکستانیوں کی مدد لی جس میں اسکرپٹ رائٹر حسینہ معین کے ساتھ ساتھ اداکارہ زیبا بختیار بھی شامل تھیں جنہوں نے فلم میں مرکزی کردار نبھایا۔

فلم کے مرکزی کردار حنا پر فلمائے گئے گیتوں کے لیے راج کپور نے اپنی پسندیدہ گلوکارہ لتا منگیشکر کا انتخاب کیا لیکن فلم کے مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے تاہم ان کے بیٹے رندھیر کپور نے فلم مکمل بھی کی اور اسے دنیا بھر میں پذیرائی بھی ملی۔

‘حنا’ فلم کے 30 سال مکمل ہونے پر وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اداکارہ زیبا بختیار نے لتا منگیشکر سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ وہ یہ ملاقات کبھی نہیں بھولیں گی۔

‘زیبا بختیار کے بقول "میں ممبئی میں ایک میوزک البم کی لانچنگ تقریب میں مدعو تھی جہاں لتا منگیشکر اور جگجیت سنگھ بھی موجود تھے۔ تقریب کے دوران ایک آرگنائزر نے آکر مجھ سے کہا کہ لتا جی آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔ ملاقات کرنے پر مجھے لتا جی نے بتایا کہ وہ دیکھنا چاہ رہی تھیں کہ جس لڑکی کے اوپر ان کا گانا فلمایا جائے گا اس کے چہرے کے تاثرات کیسے ہیں تاکہ وہ پلے بیک کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں۔”

زیبا بختیار کا یہ بھی کہنا تھا کہ لتا منگیشکر کی اس ادا نے انہیں بہت متاثر کیا اتنی بڑی گلوکارہ ہونے کے باوجود وہ ایک نئی اداکارہ کو بھی اسی طرح دیکھ رہی تھیں جیسے میں کوئی منجھی ہوئی اداکارہ تھی۔

تقسیم ِ ہند کے بعد لتا منگیشکر کی نورجہاں سے پہلی ملاقات

یہ سن 1951 کی بات ہے جب لتا منگیشکر کے دل میں اپنی "نورجہاں دیدی”سے ملنے کی خواہش جاگی۔ اس وقت لتا مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر سے گزر رہی تھیں جب کہ نورجہاں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں رہائش پذیر تھیں۔ دونوں نے فون پر بات کرکے طے کیا کہ یہ ملاقات واہگہ بارڈر پر ہو گی او ر یوں دونوں کو اس جگہ ملنے کی اجازت ملی جسے پاکستان اور بھارت کی فوجیں ‘نو مینز لینڈ’ تصور کرتی ہیں۔

اس ملاقات کے عینی شاہدموسیقار سی راماچندرا اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ اس ملاقات کے لیے نورجہاں دوڑ کر لتا کے پاس آئیں اور انہیں گلے لگا کر دونوں خوب روئیں ۔یہ بھارت اور پاکستان کی آزادی کے بعد دونوں کی پہلی ملاقات تھی جس میں نورجہاں کے شوہر اور ہدایتکار شوکت حسین رضوی بھی موجود تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لتا امرتسر سے اور نورجہاں لاہور سے اپنے ساتھ مٹھائیاں بھی لائی تھیں اور دونوں نے گھنٹوں بیٹھ کر بات چیت بھی کی اور کھانا بھی ساتھ کھایا۔ اس ملاقات کے بعد دونوں طرف کے فوجیوں کی آنکھیں بھی بھر آئیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو جب الوداع کہا تو ان کی بھی آنکھیں نم تھیں۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔