بالی وڈ سے انٹرنیشنل سنیما تک کا سفر تو بہت سے بھارتی اداکاروں نے طے کیا ہے لیکن اپنے ملک سے باہر جو پذیرائی اداکار کبیر بیدی کو ملی وہ خاصی مختلف ہے۔
اداکار کبیر بیدی کو اٹلی میں سپر اسٹار کا درجہ حاصل ہے اور اطالوی حکومت کی جانب سے ان کو دیے گئے متعدد اعزازات اس بات کا ثبوت ہے۔
سولہ جنوری 1946 کو لاہور میں پیدا ہونے والے کبیر بیدی کی والدہ انگریز اور والد سکھ تھے۔ فلموں میں کام کرنے سے پہلے انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی میں مختلف عہدوں پر کام کیا لیکن 70 کی دہائی میں اٹلی کی مقبول منی سیریز ‘سندوکن’ میں مرکزی کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔
ایک ایسے وقت میں جب بھارتی اداکاروں کو ملک سے باہر مرکزی کردار میں کم ہی کاسٹ کیا جاتا تھا کبیر بیدی کی کامیابی نے نہ صرف آنے والے اداکاروں کے لیے راستے کھولے بلکہ انہوں نے ہالی وڈ میں جیمز بانڈ کی فلم میں مرکزی ولن کا کردار نبھایا۔
اپنی آپ بیتی ‘اسٹوریز آئی مسٹ ٹیل’ میں کبیر بیدی نے بالی وڈ سے لے کر ہالی وڈ تک ہر اس اہم بات پر گفتگو کی جس نے ان کے کریئر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے خیال میں 70 کی دہائی میں اگر وہ اسٹیج پلے ‘تغلق’ میں حاضرین کی جانب شرٹ کے بغیر پیٹھ کرکے نہ کھڑے ہوتے تو اس وقت بھارت میں موجود اطالوی پروڈیوسرز شاید انہیں نوٹ نہیں کرتے۔
انہیں ‘سندوکن’ کے فکشنل کردار سے مشابہت کا بعد میں اندازہ ہوا جس کی وجہ سے انہیں کاسٹ کیا گیا تھا۔
‘سندوکن’ کی کامیابی نے کبیر بیدی کی زندگی کو کیسے بدلا؟
ایمیلیو سیلگاری نامی اطالوی مصنف نے سن 1895 سے 1913 کے درمیان ‘سندوکن’ سیریز تحریر کی جس میں مرکزی کردار ملائیشیا کا ایک سابق شہزادہ ہوتا ہے جو اپنی ریاست کھو جانے کے بعد بحری قذاق بن کر برطانوی اور ڈچ جہازوں کو لوٹتا ہے۔
اس کردار پر ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں کئی فلمیں اور ٹی وی شوز بنے لیکن سب سے زیادہ پذیرائی 70 کی دہائی میں بننے والی اس سیریز کو ملی جس میں مرکزی کردار کبیر بیدی نے ادا کیا تھا۔
اپنی کتاب میں کبیر بیدی بیان کرتے ہیں کہ پروڈیوسرز نے جب آڈیشن کی غرض سے بھارت کا رخ کیا تو ان کے دماغ میں کئی اداکار تھے لیکن انہیں بعد میں پتہ چلا کہ ‘سندوکن’ سے مشابہت کی وجہ سے ان کے بعد کسی اور اداکار کا آڈیشن نہیں ہوا۔
کبیر بیدی نے نہ صرف منی سیریز کے اٹلی میں ہونے والے آڈیشن کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا خرچہ خود اٹھایا بلکہ جب 1976 میں سیریز کے آن ائیر ہونے کے بعد وہ پہلی بار اٹلی گئے تو ایئرپورٹ سے لے کر ہوٹل تک ہر طرف انہیں دیکھنے، چھونے اور بات کرنے کے لیے مجمع موجود تھا۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ اس دورے پر ان کی اس وقت کی گرل فرینڈ بالی وڈ فلم اسٹار پروین بابی بھی ان کے ہمراہ تھیں لیکن اطالوی عوام نے انہیں لفٹ نہیں کرایا جس کا انہوں نے برا بھی منایا۔
کبیر بیدی لکھتے ہیں کہ ‘سندوکن’ کی کامیابی کے بعد بہت سے اطالوی والدین نے اپنے لڑکوں کے نام کبیر رکھنے کی کوشش کی لیکن مقامی زبان میں لفظ ‘کاف’ نہیں ہوتا اس لیے وہ ایسا نہ کر سکے۔
‘سندوکن’ کی کامیابی کے بعد انہوں نے اسپین کے ایک پروموشنل ایونٹ کا بھی ذکر کیا جہاں سے انہیں صرف اس لیے بھاگنا پڑا کیوں کہ جس بلڈنگ میں ایونٹ تھا اس میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کی وجہ سے اس کے گرنے کا خدشہ تھا۔
اداکار کے بقول اس وقت انہوں نے سڑک پر رکی ہوئی گاڑیوں کی چھت پر بھاگ کر تو اپنی جان بچالی تھی لیکن اگلے دن ان گاڑیوں کے مالکان نے پولیس سے شکایت کی جس کا ازالہ پروڈیوسرز کو کرنا پڑا۔
‘دی بیٹلز’ کے انٹرویو نے کبیر بیدی کو شوبز کی جانب کیسے دھکیلا؟
کبیر بیدی نے اپنی کتاب میں جہاں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی، ان کے بچوں سنجے اور راہل گاندھی سے قریبی تعلق کا تذکرہ کیا وہیں انہوں نے اس انٹرویو پر بھی بات کی جس نے انہیں شوبز کی طرف دکھیلا۔
انہوں نے 1966 میں مشہور برطانوی راک بینڈ ‘دی بیٹلز’ کے انٹرویو کا احوال بتاتے ہوئے لکھا کہ جس وقت ‘دی بیٹلز’ بھارت آئے اس وقت وہ آل انڈیا ریڈیو میں بطور فری لانس رپورٹر کام کرتے تھے۔
انہوں نے اپنے پروڈیوسرز کو جب ‘دی بیٹلز’ کا انٹرویو پچ کیا تو کسی کو یقین نہیں آیا۔
لیکن چوں کہ کبیر بیدی ایک مداح ہونے کی وجہ سے راک بینڈ کے مینیجر برائن ایپسٹین کو پہچانتے تھے اس لیے انہوں نے مینیجر کے سامنے اپنا کیس رکھا جس نے آل انڈیا ریڈیو پر تو زیادہ توجہ نہیں دی البتہ حکومتی ادارے کی وجہ سے کبیر بیدی کو ٹائم دے دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بیٹلز بھارت آنے سے پہلے فلپائن گئے تھے جہاں کی فرسٹ لیڈی کی ایک نجی دعوت میں پرفارم کرنے کی درخواست منع کرنے پر انہیں وقت سے پہلے ہی نکلنا پڑا۔ اسی لیے حکومتی ادارے کا سن کر مینیجر نے کبیر بیدی کو انٹرویو کی اجازت دی جسے انہوں نے ایک یادگار تجربہ قرار دیا۔
اس دورے پر بیٹلز نے کسی اور بھارتی صحافی کو انٹرویو نہیں دیا لیکن جب بغیر کسی پروموشن کے وہ تاریخی انٹرویو آن ائیر ہوا تو کبیر بیدی کو اچھا نہیں لگا۔ بعد میں جب اس انٹرویو کی آڈیو ٹیپ ضائع کردی گئی تو کبیر بیدی نے ریڈیو چھوڑ کر ‘دور درشن’ ٹی وی کا رخ کیا۔
بھارت کے نیشنل ٹی وی میں تجربہ حاصل کرنے کے بعد کبیر بیدی پہلے اشتہارات کی دنیا میں بطور کری ایٹیو گئے پھر ماڈلنگ کی اور آخر میں اداکاری کی فیلڈ میں قدم رکھا۔
جیمز بانڈ کا ولن بننے کے باوجود کبیر بیدی ہالی وڈ میں کامیاب کیوں نہ ہوئے؟
کبیر بیدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی سب سے پرانی فلم فرانچائز ‘جیمز بانڈ’ میں بطور ولن کام کرنے والے پہلے بھارتی اداکار تھے۔
سن 1983 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘آکٹوپسی’ میں انہوں نے گوبندا کا کردار ادا کیا تھا جس کا کلائمکس سین تین مختلف براعظموں میں فلمایا گیا تھا۔
اس فلم میں راجر مور نے جیمز بانڈ کا کردار ادا کیا تھا جب کہ کبیر بیدی سے ان کی جہاز کی چھت پر فائٹ سین کو شائقین نے بے حد پسند کیا تھا۔
اپنی کتاب میں کبیر بیدی شکایت کرتے ہیں کہ مائیکل کین کے مقابلے میں اشانتی میں مرکزی کردار ادا کرنے اور جیمز بانڈ میں ولن بننے کے باوجود انہیں ہالی وڈ میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کی انہیں امید تھی۔
انہوں نے مشہور ٹی وی سیریز نائٹ رائیڈر، مرڈ شی روٹ اور میگنم پی آئی کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا لیکن یہ سارے کرداروں کا تعلق بھارت سے تھا جس کا انہیں دکھ ہے۔