کراچی —
یوں تو ہالی وڈ کے مشہور اداکار سر کرسٹوفر لی جیمز بانڈ، اسٹار وارز اور لارڈ آف دی رنگز سیریز سمیت لاتعداد فلموں کا حصہ رہے البتہ ان کی وجہ شہرت ‘ڈریکولا’ کا کردار بنا جس نے مرتے دم تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
سن 2015 میں وہ 93 سال کی عمر میں دنیا سے تو رخصت ہوگئے لیکن اپنے لازوال کرداروں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں۔ ان کا پسندیدہ کردار نہ تو بانڈ ولن کا تھا اور نہ ہی کاؤنٹ ڈریکولا کا۔ بلکہ ان کو سب سے زیادہ پسند ‘قائدِ اعظم’ کا کردار تھا جو انہوں نے فلم ‘جناح’ میں ادا کیا۔
اپنی آپ بیتی ‘لارڈ آف مس رول’ میں کرسٹوفر لی نے فلم ‘جناح’ کے بارے میں ایک نہیں بلکہ دو باب لکھے جس میں انہوں نے فلم سے متعلق اخبارات کے منفی پروپیگنڈے، 1990 کے کراچی کے حالات اور اپنے ہدایت کار جمیل دہلوی کے حوالے سے بات کی۔
‘قائد اعظم کو اس طرح پیش کیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں’
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قائد ’قائدِ اعظم‘ کا کردار ادا کرتے وقت انہیں لگ رہا تھا جیسے ان کے کندھوں پر کسی نے بہت بھاری ذمہ داری ڈال دی تھی۔
کرسٹوفر لی کا کہنا تھا کہ جب انہیں فلم کے پروڈیوسر اکبر ایس احمد اور ہدایت کار جمیل دہلوی نے محمد علی جناح کے کردار کی پیش کش کی تو انہیں پاکستانی رہنما کے بارے میں اتنا ہی معلوم تھا جتنا 1940 میں جوان ہونے والے انگریز کو ہونا چاہیے۔
انہیں اندازہ تھا کہ محمد علی جناح ایک طویل القامت شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر سیاست دان تھے۔ جو متحدہ ہندوستان سے ایسٹ اور ویسٹ پاکستان کو الگ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور دنیا بھر میں بسنے والے تمام پاکستانی ان سے محبت کرتے تھے۔
لیکن جب کرسٹوفر لی نے محمد علی جناح کے بارے میں تحقیق کی تو انہیں پتا چلا کہ وہ نہ صرف ایک عظیم رہنما تھے بلکہ انہیں ‘بابائے قوم’ کہا جاتا تھا یعنی قوم کا باپ۔
کرسٹوفر لی لکھتے ہیں کہ جوں جوں وہ فلم کا اسکرپٹ پڑھتے رہے اور محمد علی جناح کے بارے میں ان کی معلومات بڑھ رہی تھیں۔ ان کی نظروں میں ان کی عزت اور بڑھتی گئی۔
یہ بات تو وہ جانتے تھے کہ محمد علی جناح کی اردو کمزور اور انگریزی پر مہارت کمال تھی لیکن ان کے چلنے کا طریقہ، لوگوں کو ہاتھ ہلا کر جواب دینے کا انداز اور دیگر عادات انہوں نے پرانی ویڈیوز دیکھ کر اپنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلم کے پروڈیوسر چاہتے تھے کہ اسی کی دہائی میں بننے والی فلم ‘گاندھی’ کے جواب میں ایک ایسی فلم بنائی جائے جس میں قائد اعظم کو اس طرح پیش کیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں۔
فلم کے اسکرپٹ کے حوالے سے پروپیگنڈا
کرسٹوفر لی نے ‘دی گریٹ لیڈر’ نامی باب میں اس وقت کے اخبارات میں شائع ہونے والے شور پر بھی بات کی جو ان کے خیال میں بلاوجہ اور بلا ضرورت مچایا جا رہا تھا۔
انہوں نے روزنامہ ‘دی نیوز’ کا نام لے کر لکھا کہ اس اخبار نے سب سے زیادہ غلط خبریں ان کے اور فلم کے بارے میں چھاپیں۔
ڈریکولا کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے انہیں جناح فلم کے لیے غیر موزوں قرار دینے سے لے کر فلم کو بھارتی پروپیگنڈا قرار دینے تک اس اخبار نے سب کچھ لکھا۔
کرسٹوفر لی کے بقول ‘دی نیوز’ کے ایک ایڈیٹر کو ‘جناح’ فلم سے اس لیے مسئلہ تھا کیوں کہ انہوں نے فلم میں اداکاری کے لیے آڈیشن دیا تھا جس کے بعد تجربہ نہ ہونے اور کردار میں فٹ نہ آنے کی وجہ سے انہیں فیل کر دیا گیا تھا۔
کرسٹوفر لی نے یہ بھی لکھا کہ اس اخبار میں جہاں ان کے خلاف ادارتی صفحات پر تنقید کی جا رہی تھی، وہیں ایڈیٹر کے نام خطوط میں بھی خوب ہنگامہ مچایا جا رہا تھا۔
پاک فوج سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بریگیڈئیر نے انہیں ڈی پورٹ کرنے کے لیے ایڈیٹر کو خط بھی لکھا اور سندھ ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا۔ لیکن اس کی درخواست کو عدالت نے باہر پھینک دیا۔
ایک شخص نے مطالبہ تھا کہ مشہور بالی وڈ اداکار ششی کپور کو فوراً ان کے ملک واپس بھیجا جائے جس سے کراچی میں ہی موجود ششی کپور کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
ان کے بقول سب سے مضحکہ خیز انکشاف تو ایک شخص نے کیا جس کا کہنا تھا کہ فلم کی اسکرپٹ پاکستان میں اچھے نہ سمجھے جانے والے برطانوی مصنف سلمان رشدی نے لکھا ہے، جو سراسر غلط تھا۔
کرسٹوفر لی نے یہ بھی بتایا کہ جب فلم کا پہلا ڈرافٹ لکھا گیا تھا تو اس میں کافی چیزوں سے انہیں اختلاف تھا جس میں قائدِ اعظم کی اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات سے ملاقات تھی۔ جب ان ملاقاتوں کو اسکرپٹ سے ہٹایا گیا تو انہیں سکون ہوا کیوں کہ ان کا قائدِ اعظم کی زندگی پر بننے والی فلم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
البتہ ان کے بقول ششی کپور کو فلم میں ڈیجیٹل لائبریری کا سربراہ تو دکھایا گیا جہاں قائدِ اعظم اپنے انتقال کے بعد ان سے ملتے ہیں، دراصل ان کو پہلے ایک فرشتہ بنایا جا رہا تھا جس پر پاکستان میں کئی لوگوں کو اعتراض ہوا۔
‘فلم کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی، اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا’
کرسٹوفر لی کا کہنا تھا کہ انہوں نے فلم میں کام کرنے کی حامی تو بھر لی تھی البتہ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ فلم کو فنانس کون کر رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ فلم کو انگلینڈ اور امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے پیسے سے بنایا جا رہا ہے تو کوئی بولا کہ اس کے پیچھے پاکستان پیپلز پارٹی کا ہاتھ ہے۔
چونکہ اس وقت کے صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے کرسٹوفر لی کے نام ایک استقبالی خط لکھا تھا جس میں ان کا شکریہ ادا کیا تھا کہ وہ قائدِ اعظم کا کردار اسکرین پر ادا کریں گے، اس لیے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ پیسہ کس نے لگایا اور کیوں لگایا؟
البتہ ان کا کہنا تھا کہ فلم کے ہدایت کار جمیل دہلوی پوری شوٹنگ کےدوران کھوئے کھوئے سے نظر آئے۔ جس کی وجہ سے فلم کے سنیماٹوگرافر نک نولینڈ نے آگے بڑھ کر فلم کو سنبھالا اور کئی سین کی ہدایت کاری بھی خود دی۔
کرسٹوفر لی کے مطابق فلم کا بجٹ تو کم تھا ہی، جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو ساتھ ہی ساتھ وہ پیسہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا نظر آیا جس کا پروڈیوسرز سے وعدہ کیا گیا تھا۔
‘کراچی میں کلاشنکوف کے سائے میں وقت گزارا، مزار قائد پر بھی حاضری دی’
باب ‘کیپنگ کول اِن کراچی’ میں کرسٹوفر لی لکھتے ہیں کہ کراچی میں انہوں نے 10 ہفتے قیام کیا۔ ہوٹل بھی اچھا تھا اور اس کی انتظامیہ بھی، جسے معلوم تھا کہ وہ کون ہیں اور پاکستان کیوں آئے ہیں۔ البتہ 24 گھنٹے ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہل کاروں کی وجہ سے وہ شہر کی سیر اس طرح نہ کر سکے جس کی انہیں آرزو تھی۔
اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ جس وقت وہ کراچی میں موجود تھے، اسے ایک خطرناک شہر تصور کیا جاتا تھا۔ البتہ یہ پولیس کا انتظام اس لیے کیا گیا تھا تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔ سوائے ان کے بٹلر کے، کسی کو بھی ان کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اپنے قیام کے دوران انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے کراچی کے کئی مقامات کی سیر کی۔ جس میں قائدِ اعظم کا مزار بھی شامل تھا۔ لیکن وہ جہاں بھی گئے پولیس کی نگرانی میں گئے۔ تاہم ان کی بیٹی، جنہوں نے تین ہفتے ان کے ساتھ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں گزارے، کو مسلح گارڈز کے ساتھ ہوٹل سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔ جس کا انہیں افسوس رہا۔
‘قائداعظم بننا ایک ذمہ داری تھی، اسی لیے آخری سین میں آنسو اصلی ہیں’
کرسٹوفر لی کا شمار گزشتہ صدی کے چند بہترین اداکاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے بقول ایک ایسے شخص کا کردار ادا کرنا جو خود انہیں پسند بھی تھا، ایک چیلنج تھا۔ جسے انہوں نے قبول کیا۔
فلم کی شوٹنگ کے دوران جب بھی وہ عوام کے سامنے آئے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا، جسے وہ کبھی نہیں بھول پائے۔
انہوں نے کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی شوٹنگ کی اور محمد علی جناح کی طرح ایک تقریر بھی فلمائی گئی جس کے لیے عوام میں موجود زیادہ تر افراد پولیس والے تھے۔ لیکن انہیں سب سے زیادہ مزہ اس آخری سین میں آیا جس میں وہ ایک ایسی ننھی لڑکی سے ملتے ہیں جس کی والدہ کا ہجرت کے دوران انتقال ہو جاتا ہے۔
کرسٹوفر لی لکھتے ہیں کہ جب وہ سین فلمایا رہے تھے تو بار بار ان کے دماغ میں خیال آرہا تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کا کردار ادا کر رہے ہیں جس نے اپنی صحت اور زندگی کی پرواہ کیے بغیر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن بنایا۔ اسی لیے جب وہ آخری سین میں اس لڑکی کے مکالمے سنتے ہیں تو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور بے اختیار رو پڑے۔